عاشوراء کے دن اپنے اہل عیال پر خرچ ...

Egypt's Dar Al-Ifta

عاشوراء کے دن اپنے اہل عیال پر خرچ کرنا

Question

عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہ اس کام کی کوئی اصل ہے، نہ ہی خرچ کرنا صحیح ہے، اور نہ یہ کسی بھی طرح سے سنت ہے، جتنی بھی احادیث اس کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنا نبی اکرم ﷺ کی ایک عظیم سنت سے ثابت ہے؛ اس بارے میں جو حدیث پاک ہے اس کو حفاظِ حدیث نے قوی کہا ہے۔ اور مذاہب کے اختلاف کے باوجود فقہاۓ اسلام نے اس سنت کو اپنایا ہے، اور ہر زمان و مکان میں جمہور امتِ اسلامیہ کی یہ عادت جاریہ رہی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت نے یہ حدیث پاک بیان کی ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے، جن میں جابر بن عبد الله، عبد الله بن مسعود، أبو هريرة، وأبو سعيد الخدري، اورعبد الله بن عمر، رضي الله عنهم شامل ہیں۔
ان احادیث کے تمام طرق میں سب سے قوی جابر بن عبد الله رضي الله عنهما کی حدیث پاک ہے۔
حافظ أبو عمر بن عبد البر نے "الاستذكار" میں شعبة کے طریق سے اس حدیث پاک کی تخریج کی ہے کہ انہوں نے أبو زبير سے اور انہوں نے جابر بن عبد الله رضي الله عنهما سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے: '' مَنْ وَسَّعَ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ '' یعنی: عاشوراء کے دن جس نے اپنے اوپر اور اپنے اہل وعیال پر کشادگی سے خرچ کیا اللہ تعالی سارا سال اسے فراخی عطا فراۓ گا۔ جابر بن عبد الله رضي الله عنهما فرماتے ہیں: ہم نے اس کام کا تجربہ کیا تو ایسا ہی ہوا اور أبو زبير اور شعبة نے بھی اسی طرح کہا ہے۔
حافظ أبو الحسن بن قطَّان "فضائل عرفة" میں فرماتے ہیں: اس حدیث پاک کی اسناد صحیح ہیں۔
امام عراقي "جزء التوسعة": میں فرماتے ہیں: یہ حدیث پاک امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
یہ سنت سیدنا عمر رضي الله عنه اور سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے بھی مروی ہے اور محمد بن المنتشر (ابنِ عیینہ کہتے ہیں یہ کوفہ کے امیر لوگوں میں سے تھے ) اور ان کے بیٹے إبراهيم، اور ابوزبير، وشعبة بن احجاج، ويحيى بن سعيد، وسفيان بن عُيَيْنَہ سے بھی مروی ہے۔
امام دار قطني رحمہ اللہ نے "الأفراد" میں اور آپ کے بیٹے عبد البر رحمہ اللہ نے "الاستذكار" میں تخریج کیا ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی نے فرمایا: "مَن وسَّع على أهله يوم عاشوراء وسَّع الله عليه سائرَ سَنَتِه" یعنی: عاشوراء کے دن جس نے اپنے اہل وعیال پر کشادگی سے خرچ کیا اللہ تعالی سارا سال اسے فراخی عطا فراۓ گا۔ يحيى بن سعيد رضي الله عنهما فرماتے ہیں: ہم نے اس کام کا تجربہ کیا تو اسے ایسا ہی پایا۔
حافظ عراقي اور حافظ سخاوي "المقاصد الحسنة" میں فرماتے ہیں: سنده جيد۔ یعنی اس کی سند اچھی ہے۔
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں ہم نے اس کا پچاس سال تجربہ کیا تو ہمیشہ کشادگی ہی دیکھی ہے۔
اس سنت والی احادیث کو جن آئمہ اور حفاظ حدیث نے قوی کہا ہے ان میں امام عبد الملك بن حبيب مالكي، امام بيهقي، امام أبو موسى مديني، امام أبو الفضل بن ناصر، امام عراقي، امام ابن حجر، امام سخاوي، امام سيوطي، اور ان کے علاوہ دیگر آئمہ کرام رحمھم اللہ شامل ہیں۔ اور ان میں سے جس نے اس سنت کی احادیث کو یا ان میں سے کچھ کو ضعیف کہا ہے انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ یہ احادیث ایک دوسری کے ساتھ مل کر قوت حاصل کر لیتی ہیں۔ جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ "شعب الإيمان" میں فرماتے ہیں: ان احادیث کی اسانید اگرچہ ضعیف ہیں لیکن جب ان کو ایک دوسری کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو قوی ہو جاتی ہیں۔ والله تعالى أعلم.
حافظ أبو موسى مديني "فضائل الأيام والشهور" میں اس حدیث پاک کو روایت کرتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے؛ اسی طرح امام حافظ ابن ملقِّن "التوضيح لشرح الجامع الصحيح" میں نقل کرتے ہیں۔
امام سيوطي "الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة" میں اس حدیث کے عدمِ ثبوت کے قائل کو جواب دیتے ہوۓ فرماتے ہیں: ہر گز نہیں، بلکہ یہ حدیث ثابت ہے اور صحیح ہے۔
آئمہ اور حفاظِ حدیث رحمھم اللہ اجمعین نے اس سنت کے بارے میں موجود احادیث میں، ان کی تقویت میں اور ان کے منکرین کے جواب میں کتب تحریر کی ہیں، جیسے حافظ أبو الفضل عراقي نے "التَّوْسِعَةِ على العيال"، امام سيوطي نے "فضل التوسعة في يوم عاشوراء"، اور حافظ أحمد بن الصديق الغماري نے "هدية الصغرا، بتصحيح حديث التَّوْسِعَةِ على العيال يوم عاشورا" کے نام سے کتب تصنیف کیں ہیں۔
عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنا مذاہب اربعہ کے نزدیک بلاخلاف مستحب ہے۔
امام بدرالدین عینی حنفی رحمہ اللہ "نخب الأفكار" میں فرماتے ہیں: یہ ایک عظیم دن ہے انبیاء کرام علی نبینا و علیھم الصلاۃ والسلام کے ہاں بھی اس دن کی عظیم قدر ومنزلت تھی، اور اس دن خرچ کیا گیا مال مزید بڑھ کر لوٹایا جاتا ہے۔ یہ لکھنے کے بعد آپ نے سیدنا جابر رضي الله عنه والی حديث پاک مرفوعًا روایت کی۔
امام ابن عابدين حنفي رحمہ اللہ "رد المحتار على الدر المختار" میں فرماتے ہیں: جی ہاں، حدیث التَّوْسِعَةِ ثابت ہے اور صحیح ہے، جیسا کہ امام سيوطي رحمہ اللہ نے "الدرر" میں کہا ہے۔
امام ابن عربي مالكی "المسالك في شرح موطأ مالك" میں فرماتے ہیں: اس دن خرچ کیے گئے اور فراخدلی سے خرچ کیے گئے مال سے اگر اللہ تعالی کی رضا مطلوب ہو تو بالاتاق یہ مال مزید بڑھا کر لوٹایا جاتا ہے، اور یہ ایک درہم کے بدلے دس لوٹ کر آتے ہیں۔
امام صاوي مالكي رحمہ اللہ "حاشية على الشرح الصغير" میں فرماتے ہیں: عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنا مستحب ہے۔
علامة سليمان جمل شافعي "حاشية على فتح الوهاب" عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنا اور بغیر تکف کے فقراء اور مساکین کو صدقہ دینا مستحب ہے اور اگر دینے کیلئے کچھ نہ ہو تو ان کے ساتھ عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرے اور ان پر زیادتی کرنا بند کر دے۔
امام برهان الدين بن مفلح حنبلي "المبدع في شرح المقنع" میں فرماتے ہی: عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔
اس بناء پر ہم کہیں گے: عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر عادت سے زیادہ خرچ کرنا نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے، اور یہ سنت سلف صالحین سے بھی مروی ہے اور اہل سنت کے چاروں مذاہب نے اس سنت کو میں بلاخلاف اخذ کرنے کیلئے نصوص قائم کیں ہیں۔ اکنافِ عالم میں جہمور امتِ اسلامیہ ہر زمانے میں اس پر عمل پیرا رہی ہے، اس لئے جو اس سنت کا منکر ہے اس کا قول قابلِ التفات نہیں ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 


 

Share this:

Related Fatwas