بر قرار رہنے والی پونجی کی زکوٰۃ
Question
براہ کرم کمپنیوں کی زکوٰۃ سے متعلق مندرجہ ذیل مسائل کاجواب مرحمت فرمائیں:
اول: تجارت میں ثابت رہنے والے املاک و اوزار کی اصلاح وترمیم یا خرید نو کے لئے مخصوص کردہ احتیاطی مال کی زکوٰۃ کے متعلق یہ واضح رہے کہ: فقہ کی بہت ساری کتابوں میں کمپنیوں اور تجارتی ساز و سامان کی زکوٰۃ سے متعلق واضح تصریح موجود ہے کہ وہ مال نصاب زکوٰۃ میں شامل نہیں ہے ، لیکن فقہ کی دیگر کتابوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ احتیاطی مال نصاب زکوٰۃ میں شامل ہے اور اس پر بھی زکوۃ واجب ہے کیونکہ عملی طور پر خرچ کئے جانے سے پہلے وہ اس مال کے شمار میں ہے جس کی زکوۃ دینی ہے اور اس مال کو اس غرض کے لئے رکھنے کا اعتبار نہیں ہے اس لئے اس کی زکوٰۃ دی جائیگی . جواب طلب امر یہ ہے کہ ان دونوں اقوال میں سے کس قول پر عمل کرنا چاہئے؟
دوم: گروپ کی کمپنیوں میں سے ایک کمپنی قسط پر سامان بیچتی ہے ، اصلی قیمت اور فوائد بلوں کی صورت میں ماہانہ قسط وار تین یا پانچ سال کی مدت میں وصول ہوتی ہیں ، لہذا سال کے آخر میں بجٹ میں دو قسم کی رقمیں ظاہر ہوتی ہیں:
اول: ان بلوں کی آمدنی جو زکوٰۃ کا حساب لگانے کے سال کے بعد آنے والے ایک سال کے اندر و صول ہونی ہے ( مثال کے طور پر زکوٰۃ کے حساب لگانے کا سال ٢٠٠٨ ء ہے اور بل کی رقم ٢٠٠٩ء میں و صول ہونا ہے).
دوم: ان بلوں کی رقم جو زکوٰۃ کے حساب لگانے کے سال سے آنے والے سال کے بعد کے سالوں میں وصول ہونی ہے ( مثال کے طور پر زکوٰۃ کے حساب لگانے کا سال ٢٠٠٨ء ہے اور بل کی رقم ٢٠١٠ء میں ملنی ہے).
سوال: فرض کریں کہ یہ سارے قرضے واجبی قرضے ہیں تو زکوٰۃ نکالتے وقت ان دونوں رقموں کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیزکمپنی کی بیچی گئی چیزوں کی بعد میں واجب الادا چیکوں اور بلوں کی باقی رقوم کا کیا حکم ہے چاہے وہ چیزیں تھوک میں بیچی گئی ہوں یا ریٹیل میں ، خصوصا جبکہ آنے والے سال اوراس کے بعد کے سالوں میں وصول ہونے والی رقموں یا بلوں کو الگ الگ کیا جا سکے؟
Answer
اولا: واضح رہے کہ اس بارے میں جمہور فقہائے کرام کا جو موقف ہے ، اور جس پر اجماع بھی منقول ہے ۔ وہ یہ ہے کہ تجارت کے لئے خاص کردہ مال پر زکوٰۃ واجب ہے . تجارت کا مطلب یہ ہے کہ: فائدے کی خاطربیچنے کی غرض سے کسی چیز کو لین دین کے عقد کے ذریعے سے ملکیت میں لیا جائے، اس بات کی تائید حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے:'' حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم اس مال کى زکوٰۃ نکالیں جو بیچنے کے لئے مخصوص ہیں اس حدیث کی امام ابو داود نے اپنی سنن میں روایت کی ہے . فقہائے کرام نے اس تجارت کی جو تعریف کی ہے جس کے مال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس کا حاصل کلام بھی یہی ہے:
چنانچہ''المہذب فی فقہ الشافعی''(٦/٤٨ ط . دار الفکر) میں شیخ ابو اسحاق شیرازی لکھتے ہیں[ کوئی سامان تجارت میں شمار نہیں کیا جاتا ہے مگر دو شرطوں كے ساتھ:
اول: یہ کہ لین دین کے عقد سے اس کی ملکیت حاصل کی جائے جیسے خرید کریا کرایہ کے طور پر یا نکاح کے مہر کے طور پر یا خلع کے بدلے میں . دوم: یہ کہ عقد کے وقت سے ہی تجارت کا ارادہ . لہذا اگر کسی کو کوئی مال وراثت میں یا وصیت سے یا بغیر ثواب کی شرط کے ازراہ عطیہ ملے وہ نیت سے تجارت کے لئے نہیں ہوگا ، اور اگر خریدنے یا کرایہ پر لینے سے مالک ہوا اور اس نے عقد کے وقت تجارت کی نیت نہیں کی تھی وہ مال تجارت کے لئے متصور نہیں ہوگا] انتھی . اس کے علاوہ امام نووی اپنی شرح '' المجموع''٦/٤٨) میں رقمطراز ہیں[ ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ: مال تجارت ہر وہ مال ہے جس کو معاوضہ کے بدلے میں حاصل کرتے وقت تجارت کرنا مقصود ہو] انتھی. نیز علامہ حجاوی حنبلی''الاقناع'' (١/٢٧٥ ط . دار المعرفۃ) میں سامان تجارت کے سلسلے میں لکھتے ہیں؟:[نقدین کے علاوہ عام طور پر ہر وہ مال جو فائدہ کمانے کے لئے خرید و فروخت کے لئے رکھا جائے وہ مال تجارت ہے ، انتھی.
اس بنا پر سامان تجارت کی زکوٰۃ کے كئى شرائط ہیں: اول: یہ کہ مال لین دین کی کمائی ہو . دوم: یہ کہ مال کے حصول کی غرض و غایت اس کو بیچنا ہو ، سوم: یہ کہ اس کے بیچنے سے فائدہ مقصود ہو یا تجارتی فائدہ مراد ہو. تجارت کی اس تعریف سے دو امور واضح ہوتے ہیں: اول: یہ کہ ہر وہ مشغولیت جو ان تینوں شرائط میں سے کسی شرط کے فقدان کی وجہ سے تجارت کی تعریف سے خارج ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے ، جیسے کہ مختلف کمپنیوں کی کاری گری ، یا اصلاح ومرمت کا کام ، کیونکہ ان میں فائدہ بنانے یا کاری گری یا اصلاحی کاموں پر منحصر ہوتا ہے صرف خرید و فروخت پر ہی نہیں ہوتا ، اور یہی رائے مفتیٰ بہ رائے ہے. دوم: تجارتی چیزوں میں زکوٰۃ تجارت میں گھومنے والی پونجی پر واجب ہوتی ہے ، اس میں پونجی ، خرید و فروخت کے تجارتی سامان اور اس سے بر آمد فائدہ شامل ہے ، لیکن وہ چیزیں جن سے بذات خود تجارت مقصود نہ ہو اور نہ ہی وہ بذات خود خرید و فروخت کے لئے تیار کی گئی ہوں ان میں زکوٰۃ نہیں ہے ، بشرطیکہ وہ خود سامان تجارت یا زکوٰتی مال نہ ہو جیسے آلات ، بلڈنگ ، گاڑیاں ، ہموارکرنے کے آلات ، وہ زمینیں جو بیچنے کے غرض سے نہ ہوں ، اسی طرح نقدین کے علاوہ برتن ، خزانے ، وہ الماریاں جن میں سامان کی نمائش ہوتی ہے اسی طرح ٹیبل اور فرنیچر اور اس کے علاوہ تجارت میں برقرار رہنے والی دیگر اشیاء.
امام کاسانی حنفی ''بدائع الصنائع''(٢/١٣ ط . دار الکتاب العربی) میں لکھتے ہیں:[ رہی بات کاری گروں کے آلات کی اور تجارتی سامان رکھنے کی چیزوں کی تو وہ تجارتی سامان میں شامل نہیں ہیں ، کیونکہ عام طور پر وہ سامان تجارت کے ساتھ بیچی نہیں جاتیں ، اور چوپائے خریدنے والے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ جانور کو آگے کھینچنے کی رسی اور بڑے ٹوکرے اور عرق گیرخریدے ، اگر وہ سواریوں کے ساتھ عام طور پر بیچے جاتے ہو ں تو وہ تجارت کے لئے تصور کیے جائیں گے ، کیونکہ وہ تجارت کے لئے تیار کی گئی چیزیں ہیں ، اگر وہ اس کے ساتھ نہ بیچی جاتی ہوں بلکہ وہ رکھیں جاتی ہوں اور اس سے چوپائی محفوظ رکھے جاتے ہوں تو وہ اس صورت میں کاری گروں کے آلات کی طرح ہیں ، وہ مال تجارت نہیں ہوگا بشرطیکہ ان کو خریدتے وقت تجارت کی نیت نہ ہو] انتھی.
نیز امام ابو البرکات دردیر مالکی اپنی کتاب '' الشرح الکبیر''(١/٤٧٧ ط . احیاء الکتب العربیۃ) میں رقمطراز ہیں:( اور برتنوں کی قیمت نہیں لگائی جائے گی) جن میں چیزیں پھرائی جائیں اور نہ ہی وہ آلات جن سے چیزیں بنائی جاتی ہیں ، اسی طرح وہ اونٹ جو ان چیزوں کو اٹھانے کے لئے ہوں ، اور جوتنے کے بیل ، کیونکہ ان کی اصل برقرار رہتی ہے اس لئے وہ کمائی کی طرح ہے ، ہاں اگر ان کے اصل میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہو تو اور بات ہے] انتھی.
رہی بات ان مخصوص احتیاطی مالوں کی جن کو استعمال میں آنے والے اوزار کی اصلاح ومرمت کےلئے رکھا جاتا ہے: توہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ وہ مال درحقیقت منافع کمانے کا ذریعہ ہے جن سے کمپنیاں اپنی سرگرمی کے دوام کو یقینی بناتی ہیں ، لہذا یہ مال بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ، اور اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ، یہ مال ہر ہر وقت محفوظ رکھا رہنا چاہئے تا کہ کسی بھی وقت اصل آلات و وسائل اور ذرائع کی تبدیلی یا ترمیم میں خرچ کیا جاسکے ، اس لئے اس پرصرف اس وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جب پوری کمپنی کی سرگرمیوں کا فائنل حساب وکتاب ہو بہر حال اختتام کے وقت یہ احتیاطی رقم فائدے میں شمار ہوجائے گى اور اس طرح سے یہ اس مال میں شامل ہو گا جس کی زکوٰۃ دینا واجب ہے ، اس بنا پر ہم پہلی والی رائے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی احتیاطی مال زکوۃ کے مال کے زمرے سے خارج رہے گا ، لیکن کمپنی کے ختم ہونے یا اٹھ جانے کی صورت میں زکوٰۃ کے مال میں شامل ہو جائیگا.
دوم: جید(یا پکے) قرضے وہ کہلاتے ہیں جن کے ادا ہونے کی امید ہو: یعنی وہ قرضے جو ایسے شخص پر ہوں جو اقرار بھی کرتا ہو اور ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو ، یا قرضے کا انکار کرتا ہو لیکن دینے والے کے پاس گواہ یا ثبوت موجود ہو کہ اگر وہ عدالت کا رخ کرے تو حاصل کرسکے . جب تجارتی کمپنی زکوٰۃ کا حساب لگائے تو تجارت میں دوران کرنے والے اصول اور پونجی اور حاصل شدہ منافع سب کو جمع کر کے اس میں سے برقرار جائداد اور قرضے گھٹا دئے جائیں گے ، اس کے بعد ان تجارتی قرضوں کی دو صورتیں ہیں جن کے ادا ہونے کی امید ہو: پہلی: رسیدوں اور پکے قرضوں کی ساری رقمیں شامل کر لے جو زکوٰۃ کا حساب لگانے کے سال سے اگلے سالوں میں وصول ہو گی اور ہر سال اس کی ایک مرتبہ زکوۃ نکا ل دے ، جیسا کہ جمہور فقہائے کرام کی رائے ہے.
دوم: کمپنی کو جو رسید اور قرض واقعتا حاصل ہو اسی کا حساب کرے اور زکوٰۃ دے ، بشرطیکہ تجارت کا خالص مال نصاب کو پہونچا ہو اور اس پر سال گذر گیا ہو.
کمپنیاں اپنے حال کے مطابق ان دو آراء میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرسکتی ہیں ، یہاں تک کہ یہ بھی جائز ہے کہ ایک سال میں ایک رائے پر عمل کریں اور دوسرے سال میں دوسری رائے پر ، کیونکہ یہ ایسی انتظامی کاروائیوں کے زمرے میں آتا ہے جن میں کمپنی کی ترقی کے لئے بہتر صورت اختیار کی جاتی ہے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.