حج یا عمرہ کرنے والے کا اپنے یا دوسروں کے بال مونڈنے کاحکم
Question
Answer
اگرعمرہ کرنے والا سعی سے فارغ ہونے کے بعد یا حاجی مزدلفہ سے منی آنے کے بعد خود اپنے بال مونڈے یا تراشے یا دوسرے ان لوگوں کے بال مونڈے یا تراشے جن کو ان ہی کی طرح بال اتروانا یا ترشوانا جائز ہو گيا ہو ، تو ان کے اس عمل میں کوئی ممانعت نہیں ہے . بلکہ اگر نصوص کے عموم کی طرف دیکھا جائے تو وہ بال مونڈنے یا تراشنے کے حکم کے مکلف ہیں ، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ)''پھر اپنا میل کچیل اتار دیں''[الحج:٢٩]، نیزاللہ تعالی فرماتا ہے)مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ)''اپنے سروں کے بال منڈاتے ، یا ترشواتے''[ الفتح: ٢٧] ، اس کے علاوہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:''اللہ بال مونڈنے والوں پر رحم فرمائے ، اللہ بال مونڈنے والوں پر رحم فرمائے ، اللہ بال مونڈنے والوں اورتراشنے والوں پر رحم فرمائے". (یہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ، اورصحیحین میں درج ہے یہاں اختصار کے ساتھ ذکر کی گئی ہے) .
واضح رہے کہ اگر ہم اس کے جائز ہونے کا قول نہ کریں اور بال مونڈنے اور تراشنے کے سلسلے میں حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں پر غیر محرم شخص پر اعتماد کرنا لازم کر دیں ، تو اس حالت میں حاجی اور عمرہ کرنے والا عبادت میں دوسرے کا محتاج ہوگا ، اور دگر عبادتوں میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ، چنانچہ نمازی نماز ادا کرنے میں دوسرے شخص کا محتاج نہیں ہوتا اسی طرح روزہ دار اور زکوٰۃ دینے والا اپنے روزے اور زکوٰۃ میں دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا ، مزید یہ کہ علمائے کرام کی عبارتوں میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے جس میں اس بات کی صراحت کی گئی ہو کہ غیر محرم شخص سے ہی یہ کام کروانا ضروری ہے ، اگر ایسی کوئی شرط ہوتی تو ضرور ذکر کرتے ، اب جب اس بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے ، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ امر لازم نہیں ہے ، بلکہ حصول مقصد بنیاد ہے چاہے خود سے مونڈے یا دوسرے سے مونڈوائے ، اور دوسرا شخص یا تو محرم ہوگا یا غیرمحرم ، اور چاہے ہم شافعیوں کے دو اقوال کے مطابق مونڈنے یا تراشنے کو نسک کہیں یا وقتی ممنوع کی اجازت بہر حال حکم وہی ہے کہ محرم کے لئے جائز ہے کہ خود اپنا یا دوسرے ایسے محرم کا جو اسی کی طرح مناسک کی ادائیگی سے فارغ ہو چکا ہو حلق و تقصیر کرے ، مسئلے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ مونڈنا یا کترنا مناسک کے بعد واقع ہوا ہے جو اب ايک جائز عمل ہو گيا ہے اگرچہ پہلے ممنوع تھا ، لہذا یہ کام کرنے والا درحقیقت ایک مباح کام کر رہا ہے اور اس كا يہ عمل غیر محرم کے بال مونڈنے کی طرح ہی ہے ، امام نووی "روضہ الطالبین" میں لکھتے ہیں[محرم کے لئے غیر محرم شخص کے بال مونڈنا جائز ہے] . اور جن حضرات کو یہ دھوکہ لگا ہے کہ عمرہ والے یا حاجی کے لئے ایسا کرنا نا جائز ہے اس کا سبب یہ ہے کہ احرام کی ممنوعہ چیزوں میں جسم کے بال نکالنا بھی شامل ہے ، یہاں تک تو بات بالکل درست ہے ، لیکن یہ منع صرف اسی وقت تک جاری رہے گا جب تک مناسک ایک متعین حد کو نہ پہونچ جائے ، اور متعین حد تک پہونچ جانے کے بعد احرام والے پر لازمی ہے کہ بال مونڈ کر یا تراش کر احرام کو ختم کر دے ، اور ہر اس حلال چیز کو اپنے آپ پر مباح کر لے جو اثناء احرام ممنوع تھی ، چاہے عمرہ کا احرام کھولنا ہو یا حج کا ، واضح رہے کہ بڑے تحلل کا مطلب یہ کہ احرام میں تمام ممنوعہ چیزوں کو حلال بنا ليا جائے ، اور چھوٹے تحلل کا مطلب یہ ہے کہ احرام کی ممنوعہ بعض چیزوں کو حلال بنا ليا جائے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.