ایسا عقد بیع جس میں خریدار نے اپنی ...

Egypt's Dar Al-Ifta

ایسا عقد بیع جس میں خریدار نے اپنی خریدی ہوئی چیز پر قبضہ حاصل نہیں کیا

Question

ت سال ٢٠٠٥ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

سنہ ١٩٧٨ میں "العاشر من رمضان" نامی جگہ کی زراعتی سوسائٹی نے سائل کے لئے بیس ایکڑ زراعتی زمین خاص کر دی تھی، اس کے علاوہ ایک دوسری جگہ عمارت کی تعمیر كےلئے سات سو اٹھائیس مربع میٹر متعین کی تھی، اور سائل نے سنہ ١٩٨٣ میں اس زمین کو ایک عورت کے ہاتھ تیس ہزار پونڈ میں فروخت کر دیا اور اس خریدار عورت نے یہ تیس ہزارپونڈ پورے کے پورے ادا بھی کر دیے اور اپنے شوہر کی موجودگی میں عقد بیع پر دستخط بھی کر دئے، ان دونوں کے درمیان لکھے گئے عقد کے ضمن میں یہ عبارت موجود ہے کہ خریدنے والی کو ملکیت ثابت کرنے کے لیے کاغذاتی کاروائی کےلئے سوسائٹی کی طرف رجوع کرنا ہوگا، اسی طرح وہ قسطیں بھی ادا کرنا ہوں گی جن کا وہ مطالبہ کرے گی، لیکن اس کے باوجود سوسائٹی سائل کو مالک اعتبار کرتے ہوئے باقی ماندہ قسطوں کا مطالبہ کرتی رہی، یہاں تک کہ بارہ ہزار آٹھ سو تیس پونڈ حاصل کیے، پھر اس کے بعد سائل کو سوسائٹی کی طرف سے باقی رقم ادا کرنے کی آخری نوٹس ملی کہ باقی رقم ادا کر دے ورنہ عقد منسوخ سمجھا جائیگا اور عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹانا پڑے گا، واضح رہے کہ خریدنے والی عورت غائب ہے.
اب سوال یہ ہے کہ اگر میں سوسائٹی کی باقی ماندہ رقم ادا کرنے کی غرض سے اس زمین کو بیچوں، اور جو رقم سوسائٹی کو بیچنے سے پہلے دے چکا اسے واپس لے لوں، اور خریدنے والی نے جو تیس ہزار دیے تھے وہ اور اس کے ساتھ گزشتہ وقت کا منافعہ ملا کر اس کے نام کے كهاتے ميں محفوظ رکھ دوں تو کیا ایسا کرنا میرے لئے باعث گناہ ہو گا؟ یا یہ کہ بغیر کسی اخلاقی ذمہ داری کے خریدنے والی کا مال ضائع ہونے دوں اور اس زمین کو صحراء کی صورت میں سوسائٹی کے لئے چھوڑے ركهوں؟.

Answer

مال کی حفاظت کرنا شریعت مطہرہ کے مقاصد میں سے ہے، اسی لئے اللہ عز و جل نے مال کو ضائع کرنے اور اس کو ناحق کھانے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ) - اے ایمان والو ! تم آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو - [النساء: ٢٩] ، نیز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''کسی مسلمان شخص کا مال بغیر اس کی رضامندی کے حلال نہیں ہے''. اس حدیث کی دار قطنی نے روایت کی ہے.
یہ بھی طے شدہ شرعی قواعد میں سے ہے کہ نہ کسی کا نقصان برداشت کرنا ہے اور نہ ہی کسی کو نقصان پہونچانا ہے، اور یہ کہ بڑے نقصان سے بچنے کےلئے چھوٹے نقصان کا ارتکاب جائز ہے، اورايک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے مال کی ہی طرح دوسروں کے مال کی بھی حفاظت كيا کرے، کیونکہ حضرت رسول خدا حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ''تم میں سے کوئی شخص تب تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کر لے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو''. اس حدیث کی امام بخاری نے روایت کی ہے. اور اگر کسی غیر کے مال کی حفاظت صرف اور صرف کسی خاص شخص سے ہی ممکن ہو تو اس حالت میں اس پر یہ فرض عین ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس مال کی حفاظت کرے ، چونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: (لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا) - اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا - [البقرۃ: ٢٨٦].
لہذا اگر سائل بیچنے والا خریدنے والی کو پانے سے عاجز ہو تو اس کو باقی ماندہ قسطیں زمین کی قیمت میں سے ادا کرنی چاہئے، وہ اس طرح کہ سوسائٹی کی جتنی قسطیں باقی بچی ہیں اسی حساب سے اس زمین کا ایک حصہ بیچ دے اور عقد بیع خریدنے والی کے ہی نام سے تحریر کروائے، کیونکہ یہ زمین اُسی کی ملکیت ہے، یہ تجویز اس صورت میں ہے کہ اگر اس زمین میں سے ایک حصہ بیچنا ممکن ہو، کیونکہ جو چیز مجبوری کی وجہ سے جائز ہوتی ہے وہ مجبوری کی حد تک ہی محدود رہتی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ) - تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں ۔ [البقرۃ: ١٧٣]. اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے: (فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ) - تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے ۔ [المائدۃ: ٣]. اس لئے اگر وہ اس زمین میں سے ایک حصہ بیچنے سے قاصر ہو اور وہ پوری زمین بیچنے کے بغیر قسطیں ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں اسے وہ پوری زمین بیچنا جائز ہے تاکہ باقی ماندہ قسطیں ادا کرسکے اور جو اس نے ادا کر دیا ہے وہ بھی واپس لے سکے، لیکن اس زمین کی ملکیت خریدنے والی ہی کےلئے ثابت کرے، اور باقی ماندہ قیمت کو اس کے نمودار ہونے تک محفوظ رکھے، لیکن اس بیچنے والے کو یہ زمین واپس لینے کا حق نہیں پہونچتا الا یہ کہ اگر خریدنے والی نے نمودار ہونے کے بعد اسے منظور کرلیا، کیونکہ اس نے حقیقی طور پر اس زمین کو خرید لیا تھا اور اس کی مالک ہو گئی تهى ، اس بارے میں صرف اتنا كام رہ گیا تها کہ اس نے عدالتی طور پر اس ملکیت کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی، لیکن دینی طور پر اس کی ملکیت ثابت ہے، اور بیچنے والے کا بھی یہي اعتراف ہے کہ اس عورت نے اس سے یہ زمین خرید لی ہے اس لئے اس بیچنے والے کو ہرگز یہ حق نہیں پہونچتا کہ زمین کی قیمت کو اس کے فوائد کے ساتھ اپنے اوپر اس عورت کا قرضہ جانے، بلکہ زمین اسی عورت کی ملکیت ہے جس نے خرید لی تھی اگر چہ سوسائٹی کی جانب سے اس کا کوئی عقد تحریرنہیں کیا گیا، کیونکہ عقود اصل میں الفاظ ہوتے ہیں، اور یہ تحریریں صرف حقوق ثابت کرنے کے لئے مستندات ہیں اور حقوق محفوظ رکھنے میں ان سے مدد لی جاتى ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas