تسبیح استعمال کرنے کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

تسبیح استعمال کرنے کا حکم

Question

ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

تسبیح استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟.
 

Answer

ذکر میں تسبیح اور شمار کرنے کے دیگر آلات و وسائل کا استعمال جائز ہے اس امر کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روا رکھا ہے اور سلف صالحین نے بغیر کسی اعتراض کے اس پر عمل کیا ہے.
١۔ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشريف لائے اس حال میں کہ میرے سامنے چار ہزار گٹھلیاں پڑی تھیں جنہیں میں ذکر و تسبیح کےلئے استعمال کرتی تھی، میں نے عرض کیا: میں نے انہیں اللہ تعالی کی تسبیح میں استعمال کیا ہے، تو آپ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے ارشاد فرمایا: ''کیا میں تمہیں اس سے کہیں زیادہ نہ سکھادوں جتنی تسبیح آپ نے پڑھی ہے: ''میں نے عرض کی: کیوں نہیں مجھے سکھا دیجئے، تو آپ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے فرمایا: "سبحان اللہ عدد خلقہ"۔ اللہ کی پاکی بیان ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر- پڑھا کیجئے. اس حدیث کی امام ترمذی نے روایت کی ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے نیز ذہبی نے ان کے ساتھ اتفاق کیا ہے.
٢۔ نیز حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عورت کے پاس تشريف فرما ہوئے جس کے سامنے کچھ گٹھلیاں یا کنکریاں پڑی تھیں جن کو وہ تسبیح پڑھنے میں استعمال کرتی تھی تو آپ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے فرمایا : "میں تمہیں اس سے زیادہ آسان اور بہتر بتادوں؟ یہ کہا کیجیے، سبحان اللہ عدد ما خلق فی السماء - اللہ تعالی کی اس قدر پاکی بیان ہو جس قدر اس نے آسمان میں چیزیں پیدا فرمائی - و سبحان اللہ عدد ما خلق فی الارض - اور اللہ تعالی کی اس قدر پاکی بیان ہو جس قدر اس نے زمین میں چیزیں پیدا کی - ، و سبحان اللہ عدد ما بین ذلک - اور اللہ تعالی کی اس قدر پاکی بیان ہو جس قدر ان دونوں کے بیچ میں چیزیں ہیں - ، و سبحان اللہ عدد ما ھو خالق - اور اللہ تعالی کی اس قدر پاکی ہو جس قدر وہ چیزیں پیدا فرمانے والا ہے -، اور اللہ اکبر بھی اسی طرح پڑھا کرو اور الحمد للہ بھی اسی طرح پڑھا کرو ، اور لا الہ الا اللہ بھی اسی طرح پڑھا کرو ، اور لا حول و لا قوۃ الا باللہ بھی اسی طرح پڑھا کرو''. اس حدیث کی ابو داود ، نسائی ، ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کی ہے اور ترمذی نے حسن کہا ہے نیز ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے.
٣۔ اس کے علاوہ قاسم بن عبد الرحمن سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ "حضرت ابو درداء کے پاس ایک تھیلی میں کھجور کی کچھ گٹھلیاں تھیں، جب وہ فجر کی نماز ادا کیا کرتے تھے تو ان گٹھلیوں کو ایک ایک کر کے نکالتے جاتے تھے اور ختم ہونے تک تسبیح پڑھتے رہتے تھے". امام احمد نے'' زہد'' میں اس حدیث کی صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے.
٤۔ نیز حضرت ابو نضرۃ غفاری سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ "طفاوہ" کے ایک شیخ نے مجھ سے یہ بیان کیا ، کہا کہ میں مدینہ شريف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان ہوا میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو ان سے زیادہ لگن والا اور مہمان نوازی کرنے والا نہیں پایا، چنانچہ ایک روز میں ان کے پاس تھا وہ اپنی چارپائی پر تشریف فرما تھے ان کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں کنکریاں تھیں یا گٹھلیاں تھیں، اور چارپائی کے نیچے ان کی ایک کالی باندی تھی، وہ ان کنکریوں کو تسبیح پڑھنے میں استعمال کرتے جاتے تھے، یہاں تک کہ جب تھیلی خالی ہو جاتی تو اس تھیلی کو باندی کی طرف ڈال دیتے تو وہ تھیلی میں جمع کر کے پھر ان کو واپس دیا کرتی تھی. ابو داود اور ترمذی نے اس کی روایت کی ہے، ترمذی نے حسن کہا ہے نیز نسائی نے بھی اس كي روایت کی ہے.
٥۔ نیز نعیم بن محرر بن ابو ہریرہ نے اپنے دادا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ان کے پاس ایک ڈوری تھی جس میں دو ہزار گانٹھیں لگی تھی، وہ تب تک نہ سوتے تھے جب تک کہ اس سے تسبیح نہ پڑھ لیتے تھے. عبد اللہ بن امام احمد نے اس کی ''زوائد الزہد '' میں روایت کی ہے اور ابو نعیم نے'' الحلیہ'' میں روایت کی ہے.
اس کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صفیہ ، اور حضرت فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب اور دیگر صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنھم سے بھی اسی طرح مروی ہے.
مزید یہ کہ ذکر و اوراد میں تسبیح کے استعمال کے جواز پر علمائے کرام کی ایک جماعت نے مستقل تصنیفیں بھی تحریر فرمائی ہیں، چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی نے '' المنحۃ فی السبحۃ'' نامی رسالہ اس بارے میں تحریر فرمایا ہے، اور شیخ محمد بن علان صدیقی نے '' اِیقاد المصابیح لمشروعیۃ اتخاذ المسابیح'' نامی کتاب تصنیف فرمائی، اور علامہ ابو الحسنات لکھنوی نے بھی '' نزھۃ الفکر فی سبحۃ الذکر'' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے.
حافظ سیوطی رحمہ اللہ تعالی ان احادیث مبارکہ اور دیگر روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: ''اگر تسبیح کے استعمال کرنے میں ان حضرات کی مشابہت اور ان کے زمرے میں شامل ہونے اور حصول برکت کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہ بھی ہوتا تو صرف اس اعتبار سے اس کا شمار اہم امور میں ہوتا کہ یہ اللہ کو یاد دلانے والی ہے اور یہ کیا ہی عظیم فائدہ ہے، کیونکہ جب جب انسان کی نظر اس پر پڑتی ہے تو ذہن و دماغ خود اللہ تعالی کی طرف ملتفت ہو جاتا ہے، یہ فائدہ کیا کچھ کم ہے! اسی لیے بعض اسلاف کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اس کا نام ہی'' یاد دہانی کرانے والى'' دیا کرتے تھے.
نیز ذکر میں تسبیح استعمال کرنے کی ممانعت میں اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی سے کوئی بات منقول نہیں ہے، بلکہ ان میں سے اکثر خود ذکر میں تسبیح کا استعمال کیا کرتے تھے اور اس کے مکروہ ہونے کا بھی خیال ان کے ذہن پر نہیں گذرتا تھا. انتھی.

و اللہ سبحانہ و تعالی أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas