مؤکل کی وفات کے بعد وکالت کا استعمال
Question
اگر کوئی شخص اپنے ایک بیٹے کی وفات کے بعد اس کا حصہ اپنے دوسرے بیٹے کو بیچنے کےلیے اس کا وکالت نامہ استعمال کرے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ اور اس معاملے کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟.
Answer
وکالت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو اپنا حق تصرف دے اور یہ وکالت صرف ایسی چیزوں میں ہوتی ہے جن میں نیابت ممكن ہو. اگر وکیل مؤکل کی زندگی میں یہ حق استعمال کرے تو یہ جائز ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ( فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا) – تو مرد کے خاندان سے ایک منصف اور عورت کے خاندان سے ایک منصف مقرر کر لو- [سورہ نساء: ٣٥] ، اسی طرح مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زکوۃ کی وصولی کےلئے محصلوں کو روانہ فرمایا، اور اسی طرح حضرت رسول اللہ ۔ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ نے عمرو بن امیہ ضمری کو ام حبیبہ کے نکاح میں وکیل بنایا تها. کسی کا وکیل بننے کےلئے شرط یہ ہے کہ وه خود اپنے معاملات میں تصرف کی اہلیت رکھتا ہو، اور یہ وکالت اس وقت بے کار ہو جاتی ہے جب دونوں میں سے کوئی تصرف کی صلاحیت کھو دے یا مر جائے یا پاگل ہو جائے، لہذا وکیل موکل کے فوت ہونے کے بعد اس تصرف کے استعمال کا جواز نہیں رکھتا ہے.
اس لئے مذکورہ بالا سوال کی صور تحال میں یہ جائز نہیں کہ یہ شخص جو اپنے بیٹے کا وکیل تها مؤکل کے مرنے کے بعد اس کے حصے کو اس کے زندہ بیٹے کے ہاتھ فروخت کرنے میں وکالت کا استعمال کرے، اور اگر وکیل یہ اقدام کرے گا تو اس کا تصرف شرعی لحاظ سے باطل ہو گا.
و اللہ سبحانہ و تعالی أعلم.