مانع حمل وسائل کا استعمال

Egypt's Dar Al-Ifta

مانع حمل وسائل کا استعمال

Question

سال ٢٠٠٥ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جس میں پوچھا گیا ہے کہ ضبط تولید کے وسائل استعمال کرنے کا حکم کیا ہے؟.

Answer

مذہب اسلام میں احکام کے دو بنیادی سرچشمے ہیں : قرآن کریم اور احادیث شریفہ، اس بات کی دلیل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ''ترکت فیکم شیئین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنتی ، و لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض'' ۔ میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑ دی ہیں جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے، قرآن کریم اور میری سنت ، اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں''. حاکم نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے. جب ہم قرآن کریم کی آیتوں میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں کوئی ایسا واضح نص نہیں ملتا ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ نسل میں کمی کرنا یا نسل روکنا حرام ہے، ہاں قرآن کریم میں یہ آیا ہے کہ نسل کی حفاظت احکام شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، لیکن صحیح بخاری اور دیگر احادیث کی کتابوں میں ایسی روایتیں وارد ہوئیں ہیں جو عورتوں سے عزل کرنے کو جائز قرار دیتیں ہیں، عزل کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جب جنسی تعلقات شباب پر پہونچ جائيں تو مرد اپنی منی کو بیوی کی شرمگاہ سے باہر ڈال دے.
احادیث مبارکہ میں سے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے منقول ہے انہوں نے فرمایا: ''کنا نعزل علی عھد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و القرآن ینزل''، ۔ ہم لوگ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے حالانکہ قرآن نازل ہو رہا تھا''. یہ حدیث متفق علیہ ہے. امام مسلم کی روایت ہے: ''کنا نعزل علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فبلغ ذلک نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فلم ینھنا''، ۔ ہم لوگ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے تو اس بات کی اطلاع حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہونچ گئی ليكن انہوں نے ہمیں منع نہیں فرمایا-.
واضح رہے کہ عزل کو مانع حمل یا نسل کم کرنے کے وسیلے کے طور پر استعمال کے سلسلے میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف واقع ہے کہ ایا یہ عمل مباح ہے یا مکروہ، اس بارے میں امام غزالی اپنی کتاب ''احیاء علوم الدین'' باب "آداب النکاح" میں عزل کے حکم کے بارے میں لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے: عزل کے مباح ہونے اور مکروہ ہونے کے بارے میں علمائے کرام چار گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک گروہ نے عزل کو ہر حال میں مباح قرار دیا ہے، اور دوسرے گروہ نے عزل کو ہر حال میں حرام قرار دیا ہے، اور تیسرے گروہ نے بیوی کی رضامندی کی شرط پر حلال قرار دیا ہے اوراس کی رضامندی کے بغیر حرام قرار دیا ہے، اور چوتھے گروہ نے کہا کہ باندیوں کے ساتھ عزل کرنا جائز ہے ليكن آزاد عورتوں کے ساتھ جائز نہیں ہے، اس کے بعد امام غزالی تحریر فرماتے ہیں: ہمارے پاس ۔ یعنی مذہب شافعی میں ۔ درست یہ ہے کہ عزل کرنا مباح ہے. اور تقریبا فقہائے مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ عزل ۔ یعنی شوہر کے مادہ منویہ کو بیوی کے بویضہ کے ساتھ ملنے سے روکنا ۔ اگر میاں بیوی کے درمیان باہمی اتفاق سے ہو تو مباح ہے، لیکن اگر موافقت کے بغیر ایسا کرے تو نا جائز ہے، اور اس کے مباح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کتب احادیث میں آیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیویوں اور باندیوں کے ساتھ عزل کیا کرتے تھے اور اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہونچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا، جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما کی روایت میں آیا ہے. جب یہ بات واضح ہو چکی ہے تو اس عزل پر جس پر زمانہء حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمل ہو رہا تھا اور جائز تھا اس پر قیاس کرتے ہوئے ضبط تولید کا مباح ہونا بھی نصوص سنت کے موافق ہونا چاہئے، چنانچہ امام مسلم کی صحیح میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت منقول ہے انہوں نے فرمایا: ''ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن نازل ہو رہا تھا''، اسی طرح امام بخاری کی صحیح میں بھی ایک روایت آئی ہے. اس اعتبار سے ضبط تولید کا مطلب ماں کی صحت کی حفاظت کےلئے اور پے در پے کثرت حمل اور زچگی کے نقصانات سے محفوظ رکھنےكےلئے یا جو بچے پہلے سے موجود ہیں ان کی تربیت کے خاطر، اور فراغت حاصل کرنے کےلئے دو حملوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے، بلکہ امام غزالی کی "احیاء علوم الدین" میں اور شوکانی کی "نیل الاوطار" میں آیا ہے ، کہ عزل کے اسباب متعدد ہو سکتے ہیں کبھی عزل دودھ پیتے بچے پر شفقت کے طور پر بھی ہو سکتا ہے تاکہ دودھ پلانے کی مدت میں حمل سے احتراز ہو سکے، اور کبھی کثرت عیال سے بچنے کےلئے بھی عزل ہوتا ہے اور کبھی تو کثرت نہیں بلکہ سرے سے اولاد سے بچنے کےلئے بھی عزل ہوتا ہے. بہرحال اگر حمل روکنے کا مقصد صلاحیت تولید کا خاتمہ ہو تو یہ عمل اسلام کے پیغام و مقاصد کے منافی ہے اور اسلام کی غرض و غایت کے مخالف ہے، جو يہ ہے کہ روئے زمین پر انسانی نسل باقی رہ سکے، اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم) - اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی - [الاسراء :٣١]. فقہائے کرام کی مذکورہ بالا وه رائے اس آیت کے منافی نہیں ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فاصلہ کی غرض سے یا شرعی قابل قبول عذر کی وجہ سے وقتی طور پر حمل کو روکنے کےلئے بیوی سے عزل کرنا مباح ہے، کیونکہ اس آیت میں اولاد کے قتل سے منع کیا گیا ہے، لیکن'' تلقیح'' کو روکنا قتل کے مفہوم میں شامل نہیں ہے کیونکہ تلقیح یا دونوں مادوں کی باہمی التقاء جو جنین کی تشکیل کا پہلا مرحلہ ہے، لہذا عزل کے وقت تو جنین بنا ہی نہیں ہے، اور نہ ہی مرد کی منی بیوی کے بویضہ سے ملی ہے اور نہ ہی تخلیق کے ان مراحل سے گذری ہے جن کا ذکر اللہ تعالی کے اس ارشاد میں ہوا ہے: (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ) - اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے بنایا ۔ پھر اسے ایک مضبوط ٹھہراؤ میں پانی کی بوند کیا - [ المؤمنون : ١٢ ۔ ١٣]. واضح رہے کہ اس آیت کی تفسیر خود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: ہم سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جو سچے ہیں اور جن کی سچائی کا لوہا مانا گیا ہے ۔ نے بیان فرمایا: ''تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں اور چالیس راتوں میں یکجا ہوتی ہے پھر اس کے بعد اتنے ہی دنوں میں خون کا لوتھڑا ہوتا ہے ، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے اس کے بعد اس کی طرف فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم ملتا ہے، اس کا رزق اس کا اجل اور اس کا عمل اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھنا، پھر وه اس میں روح پھونکتا ہے، بیشک تم میں سے کوئی ایک جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے درمیان اور جنت کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر قضاء و قدر سبقت لے جاتے ہیں اور وہ دوزخیوں کا عمل کرتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے ، اور تم میں سے کوئی ایک اہل دوزخ کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز رہ جاتا ہے اور اس پر قضاء و قدر سبقت لے جاتے ہیں تو وہ اہل جنت کا عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے''. امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس حدیث کی کئی جگہ روایت کی ہے.
اس بنا پر حمل روکنے کا ہر وہ عمل جس کا تعلق جنین بننے سے پہلے سے ہو تو وہ عمل جائز ہے لیکن جنین بننے کے بعد خواہ کتنی ہی کم مدت کا ہى كيوں نه ہو اور کسی بھی مرحلے میں ہى كيوں نه ہو جائز نہيں ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas