نفقہ عدت اور نفقہ متعہ

Egypt's Dar Al-Ifta

نفقہ عدت اور نفقہ متعہ

Question

ت سال ٢٠٠٥ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوالوں پر مشتمل ہے:

میرے بیٹے نے سال ٢٠٠٢ میں شادی کی اور یہ شادی تا ایں دم بر قرار ہے ، مگر اب طرفین ۔ یعنی میاں بیوی ، اور میاں بیوی کے خاندان والوں کو اس بات کا تیقن ہوچکا ہے کہ اب ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے ، الغرض دونوں فریقوں کے درميان رضامندی كے ساته اس بات پر طلاق پر اتفاق ہو گیا ہے ، کہ میرا بیٹا نکاح نامے میں درج شدہ مہر مؤجل ادا کرے گا ، اور ازدواجی گھر کی وہ خاص خاص تمام تر چیزیں بھی واپس کرے گا جو شروع شادی کے وقت جانبین کے درمیان بنائی ہوئی فہرست میں درج ہیں.

براہ کرم مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں شریعت مطہرہ کا حکم بیان فرما دیں:
١۔ نفقہ عدت( اس کی مدت اور اس کی مقدار).
٢۔ نفقہ متعہ (اس کی مدت اور اس کی مقدار).
واضح رہے کہ آئندہ ماہ اکتوبر تک شادی کے مکمل تین سال پورے ہو جائیں گے ، نیز شوہر کی عمر پينتیس سال ہے اور بیوی کی عمر ستائیس سال ہے.
جناب سے گذارش کرتا ہوں کہ ہمیں اس بارے میں شریعت اسلامی اور دین اسلام کے نقطہ نظر سے آگاہ فرمائیں ، تاکہ نہ ہمیں خود کوئی نقصان پہونچے اور نہ ہی ہم کسی کے نقصان کا سبب بنیں.

Answer

جان لیجئے کہ شریعت مطہرہ نے نفقہ متعہ کی مقدار متعین کرنے کے معاملے میں عرف کا اعتبار کیا ہے ، اسی طرح طلاق دینے والے کی تنگدستی اور فراخی کو بھی ملحوظ رکھا ہے ، اس بات کا اشارہ اللہ تعالی کے اس کلام میں ملتا ہے: (وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدْرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ) [البقرۃ ٢٣٦] ، اور ان کو کچھ برتنے کو دو ، مقدور والے پر اس کے لائق ، اور تنگدست پر اس کے لائق حسب دستور ، کچھ برتنے کی چیز، یہ واجب ہے بھلائی والوں پر - . اسی طرح اللہ تعالی کے اس فرمان میں بھی اس طرف اشارہ ہے:( وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ) [البقرۃ ٢٤١] - اور طلاق والیوں کے لئے بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر- . اور سرکاری فرمان کے قانون نمبر ٢٥ بابت سال ١٩٢٩ جو کہ قانون نمبر ١٠٠ بابت سال ١٩٨٥ کے ساتھ اضافہ کیا گیا ہے اس کی ترمیم شدہ دفعہ نمبر ١٨ میں آیا ہے کہ: ''صحیح نکاح میں مباشرت کی ہوئی بیوی کو اگر اس کی رضامندی کے بغیر اور اس کی طرف سے کسی سبب کے بغیر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے ، تو وہ نفقہ عدت کے علاوہ کم سے کم دو سال کے نفقہ کی مقدار کے متعہ کی مستحق ہوگی ، اور اس میں شوہر کی تنگدستی یا فراخدستی ، اور طلاق کے حالات اور ازدواجی زندگی کی مدت کا اعتبار ہوگا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ طلاق دینے والے کو یہ نفقہ متعہ قسطوں میں ادا کرنے کی اجازت دی جائے'' ا ھ . اس لئے نفقہ متعہ کی مقدار قاضی کے فیصلے پر منحصر ہے اورحالات کے مطابق وہی اس كي مقدار كے متعين کرنے کا مجاز ہے.
جہاں تک نفقہ عدت کا تعلق ہے تو واضح رہنا چاہئے کہ یہ نفقہ ایسی عورت کے لئے واجب ہے جو عدت میں ہو ، ایسی عورت عدت میں نان و نفقہ کی ان تمام قسموں کی مستحق ہوتی ہے جن کی ایک بیوی مستحق ہوا کرتی ہے ، اور عدت کی مدت کے تعین کے بارے میں قاضی عورت کی بات کا اعتبار کریگا بشرطیکہ یہ مدت طلاق کی تاریخ سے ایک سال سے متجاوز نہ ہو ، چنانچہ مصری قانون میں بهي اسی کو اختیار کیا گیا ہے ا س کی بنیاد فقہائے کرام کے مختلف اقوال میں ترجیح پر قائم ہے ، اس کی مقدار طے کرنے کے بارے میں قاضی کی رائے کا اعتبار ہوگا اور قاضی حالات کے مطابق فیصلہ کرے گا.
اگر طرفین عدالت کا رخ کرنے کے خواہشمند نہ ہوں تو اس حالت میں نفقہ متعہ اور نفقہ عدت دونوں گروہوں کی رضامندی سے طے پائیں گے اورجس پر ان کا اتفاق ہو وہی مقدار ہے ، چنانچہ عرف عام میں یہ رائج ہے کہ چوبیس ماہ تک شوہر کی تنخواہ کا چوتھائی حصہ نفقہ متعہ میں دیا جاتا ہے ، اور عدت تین ماہ سے ایک سال تک عورت کے ماہواری پر منحصر ہے ، اور نفقہ میں شوہر کی تنگدستی اور فراخدستی کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے.

باقى اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے
 

Share this:

Related Fatwas