تعزیت کے دوران قرآن کی تلاوت کرنا

Egypt's Dar Al-Ifta

تعزیت کے دوران قرآن کی تلاوت کرنا

Question

ت سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاپر ہم مطلع ہوئے ، اس میں حسب ذیل مسئلے کے بارے میں سوال آیا ہے.

ہمارے ہاں صعید مصر کے دیہات میں جب کوئی مرتا ہے چاہے عورت ہو یا مرد ، تو ہم اس کے لئے تین دن تک تعزیت کا اہتمام کرتے ہیں اور تعزیت کے لیے گاؤں سے اور آس پاس کے علاقے سے آنے والے لوگوں کا ہم استقبال کرتے ہیں اور قران کریم کی تلاوت کے لئے کسی قاری کو بلاتے ہیں جو تعزیت کی مجلس میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے ، مگر ہم ان دنوں کچھ لوگوں کے اس فتوے سے ششدر رہ گئے جس میں یہ حکم لگايا گيا ہے کہ یہ کام بدعت و گمراہی اور نا جائز ہے ، اس پر دلیل دى گي ہے کہ یہ عمل نہ تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا اور نہ صحابہ ء کرام رضی اللہ عنھم ۔ کے زمانے میں اس کا کوئی رواج تھا ، اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ تعزیت کی مجلس میں قرآن کی تلاوت کرنے والا قاری گناہ گار ہے اور اس کی اجرت بھی حرام ہے ، اس فتویٰ کی وجہ سے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان میں لڑائی جھگڑ ے تک بات پہونچ گئی اور بہت خلفشار پیدا ہوگیا ہے اور ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ آپ کی بارگاہ میں استفتاء ارسال کریں لہٰذا اس بارے میں آپ جواب سے نوازیں تاکہ محلہ والوں کے درمیان اختلافات کا خاتمہ ہو سکے ، ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کا یہ فتویٰ درست ہے؟.

Answer

مذہب اسلام اور دین حنیف محبت ، رحمت ، باہمی میل ملاپ ، احسان اور غم خواری کا مذہب ہے ، ہمارے آقا ، اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: '' ایمان والوں کی مثال انکی باہمی محبت ، رحمت اور مہربانی میں ایک بدن کی طرح ہے اس میں سے اگر کوئی ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا بدن بیداری اور بخار سے تڑپ اٹھتا ہے''. یہ حدیث نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت سے متفق علیہ ہے ، اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ان میں سے جو مصیبت زدہ ہیں انکی مصیبت کے دکھ کو ہلکا کرنے اور غمخواری کرنے کی ترغیب دی ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعزیت کرنے والے کو بڑے درجات کا وعدہ فرمایا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث شریف میں ارشاد فرمایا ہے: '' جس نے کسی مصیبت زدہ کو تسلی دی تو اس کے لیے بھی اسکے جیسا ثواب ہے'' . اس حدیث کی امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کی ہے . نیز صلوات اللہ علیہ و تسلیماتہ نے ارشاد فرمایا: '' جو کوئی مؤمن اپنے بھائی کو مصیبت میں تسلی دے ، تو اللہ سبحانہ اس کو قیامت کے روز عزت کا لباس پہنائے گا'' . اس حدیث کی ابن ماجہ نے روایت کی ہے. اور میت کے گھر والوں، چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے مرد ہوں یا عورتيں ، ان کی تعزیت کرنا مستحب ہے ، مگر مردوں کے لیے جوان عورتوں کو تسلی دینا جائز نہیں ہے ، یا ان عورتوں کو جن سے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہو ، اسی طرح تین دن کے بعد تعزیت کرنا جائز نہیں ہے مگر اس کے لیے جو گھر سے دور تھا یا جس نے نہ جانا ، تو اس کی اس وقت تعزیت کی جائے گی جب وہ حاضر ہو یا جب ان کو خبر ملے . اب رہا مسئلہ تعزیت کرنے والوں کے استقبال کے لیے مجلس منعقد کرنے یا شامیانوں کے اہتمام کرنے کی جسکی عادت ہمارے ماحول میں پڑ چکی ہے اور جس کا رواج ہمارے یہاں رائج ہو گیا ہے ، درحقیقت یہ امر بھی شریعت پاک کے مخالف نہیں ہے ، اور اگر دیکھا جائے تو یہ بھی مصیبت زدہ کو تسلی دینے کا ایک ذریعہ اور تکملہ ہے اور اس کے ذریعے اِس شرعی حکم کی تنفیذ میں مدد ملتی ہے ، اور یہ قاعدہ شریعت میں معروف ہے کہ وسائل مقاصد کے حکم میں ہوتے ہیں بشرطیکہ کہ وہ وسائل بذات خود حرام نہ ہوں ، اس لیے اگر ان شامیانوں کا لگانا اس انداز سے ہو کہ اس میں اسراف ، دیکھاوا اور فخر نہ ہو ، بلکہ مقصد یہ ہو کہ تعزیت کرنے والوں کی تعداد جن کے لیے گھر کافی نہ ہو اور یہ شامیانے اس ضرورت کو پورا کرتے ہوں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے.
یہی حال قاریوں کو قرآن پڑھنے کے لیے بلانے کا بھی ہے ، کہ وہ بذات خود جائز ہے اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ، بلکہ قاری کی اجرت بھی جائز ہے اس میں بھی کوئی نا جائز بات نہیں ہے ، کیونکہ یہ اجرت ان کو روکے رکھنے کے عوض میں دى جاتی ہے قرآن پڑھنے کے عوض میں نہیں ، کیونکہ ہم قاری صاحب کو اس لئے اجرت دیتے ہیں کہ وہ اپنے کاروبار اور مشغولیات کو چھوڑ کر ہمارے لئے قراء ت کا وقت نکالتے ہیں . لیکن یہ اجرت میت کی وراثت میں سے نہ ہو ، اور نہ ہی اس سے دیکھاوا اور فخر مقصود ہو ، اور اس شرط کے ساتھ کہ لوگ سنیں اور قرآن کریم کی تلاوت کے لیے خاموش رہیں . اور اگریہ کام فخر اور بڑائی ظاہر كرنے کے لیے ہو۔ جیسے اکثر ہوا کرتا ہے ۔ تو پھر اس صورت میں یہ کام شرعی طور پر حرام ہے بلکہ اس میں اسراف بھی ہے ، اور اس عمل کی حرمت اس وقت اور سخت ہوتی ہے اگر اس میں دینے کے لیے اہل میت میں سے عاجز لوگوں کو بھی حصہ دینا پڑے ، یا اگر اہل میت اس مال کے خود محتاج ہوں ، اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص ان سب چیزوں میں میت کے ترکے میں سے خرچ کرے یا کسی دوسرے کا مال بغیر اس کی رضامندی کے خرچ کرے . نہ ہى عاجز سے کچھ لیں اور نہ نابالغ سے اور نہ جو اس پر رضا مند نہ ہو . اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل میت تکلیف میں اور میت کے کفن دفن کے سامان مہیا کرنے میں مشغول رہتے ہیں اس وجہ سے انہیں اس بات کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی بات سے ان کا غم ہلکا کرے اور کوئی ان کے لیے کھانا تیار کر دے اور کوئی ان کی غمخواری کرے ، اور کوئی مال سے بھی ان کی مدد کرے اگر انہیں اس کی ضرورت ہو اور یہی معنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ہيں: ''جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کر دو، کیونکہ ان پر ایسی مصیبت آئی ہے جس کی وجہ سے ان کو اور کسی چیز کا ہوش نہیں ہے''. اس حدیث کی حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابو داؤد اور ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کی ہے . بلکہ کبھی کبھی تو تعزیت کرنے والوں کے استقبال کے لیے بیٹھنا واجب بھی ہوجاتا ہے ، اگر یہ غالب گمان ہو کہ نہ بیٹھنے کی صورت میں تعزیت کیلئے پہونچنے والے لوگ اس شبہ میں پڑیں گے اور شک کریں گے کہ شاید ان کو ان سے نفرت اور بغض ہے . اس مسئلہ کی طرف شروانی نے ابن حجر ہیتمی کی ''تحفۃ المحتاج بشرح المنھاج" پر اپنے حاشیہ میں اشارہ کیا ہے.
ان دلائل کی بنا پر اور سوال کی صورت كو مد نظر ركهتے ہو ئے تعزیتی محفل کا انعقاد کرنا اور قاری حضرات کو تلاوت کے لیے بلانا اصل میں مباح امور میں سے ہے بشرطیکہ کہ ان امور میں اسراف ، دیکھاوا اوربڑائی یا لوگوں کا مال ناحق کھانا شامل نہ ہو ، ورنہ یہ عمل حرام ہو جائے گا.

وا للہ سبحانہ وتعالی اعلم
 

Share this:

Related Fatwas