صف کے پیچھے تنہا شخص کی نماز

Egypt's Dar Al-Ifta

صف کے پیچھے تنہا شخص کی نماز

Question

ت سال ٢٠٠٣ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جس میں تنہا شخص کی نماز کے بارے میں سوال آیا ہے:

کیا صف مکمل ہونے کے بعد صف کے پیچھے آجانے والے شخص کے لئے اپنے ساتھ صف میں ٹھہرنے کے لئے اگلی صف میں سے کسی نمازی کو نکالنا جائز ہے؟

Answer

صلاۃ المنفرد( یعنی تنہا شخص کی نماز) کی تعبیر یا تو مطلق صورت میں مذکور ہوگی یا مقید صورت میں ، اگر مطلق صورت میں ہوگی تو نمازجماعت کی ضد ہوگی جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جماعت کی نماز انفرادی نماز سے ستائیس درجہ افضل ہے''. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث متفق علیہ ہے . لیکن جو سوال میں مذکور صورت ہے وہ صلاۃ المنفرد کی مقید صورت ہے یعنی جماعت میں شریک صف کے پیچھے تنہا شخص کی نماز.
اگر صف کے پیچھے تنہا ٹھہرنا کسی عذر کی وجہ سے ہو جیسے كہ اس کے ساتھ صف میں ٹھہرنے کے لئے کوئی نہ ملے تو نماز درست ہے ، اگر عذر نہ ہو تو نماز درست ہے مگر کراہت ساتھ ، کیونکہ امام بخاری نے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں پہونچے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے تو صف تک پہونچنے سے پہلے ہی وہ رکوع میں چلے گئے ، بعد میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تمہاری لگن میں اور اضافہ فرمائے آئندہ ایسا مت کرنا''. فقہائے کرام نے اس حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ نماز کا اعادہ دوبارہ لازم نہیں ہے ، اور جو ترمذی شریف میں وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی روایت سے آیا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے پھر سے نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ۔ تو دونوں دلیلوں کو جمع کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ اعادہ کا حکم استحباب پر محمول ہے.
لیکن حنبلیوں نے بغیر عذر کے صف کے پیچھے مکمل ایک رکعت تنہا ٹھہرنے والے کی نماز كو باطل قرار دیا ہے ، کیونکہ انہوں نے وابصہ کی حدیث میں وارد امر کو واجب کے حکم میں لیا ہے.
جس شخص کو صف میں گنجائش نہ ملے یا کوئی خالی جگہ نہ ملے اس کے بارے میں فقہائے کرام کی مختلف رائیں ہیں:
ا۔ مالکیوں اور شافعیوں کی ایک رائے جس کو امام شافعی سے البویطی نے نقل کیا ہے اور قاضی ابو طیب نے اختیار کیا ہے، کے مطابق وہ صف میں تنہا کھڑا ہوگا لیکن اگلی صف میں سے کسی کو نہیں لے گا ، تاکہ اگلی صف میں رہنے کی فضیلت سے اس کو محروم نہ کر دے ، بلکہ مالکیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس نے اگلی صف سے کسی کو نکالنے کی کوشش کی تو اگلی صف والے کو نہیں نکلنا چاہئے ، حنفیوں میں سے کمال بن ھمام کی بھی یہی رائے ہے.
٢۔ حنفیوں کے نزدیک اور شافعیوں کے ہاں راجح قول کے مطابق تنہا شخص کے لئے صف میں سے کسی کو نکال کر اس کے ساتھ مل کر دوسری صف بنانا مستحب ہے ، لیکن یہ رعایت رکھنا ضروری ہے کہ جس شخص کو کھینچے وہ ماننے کو تیار ہو ، ورنہ نکالنا جائز نہیں تاکہ فتنہ برپا نہ ہو.
٣۔ حنبلیوں کے نزدیک اگراس کے لئے ممکن ہو تو امام کے دائیں طرف کھڑا ہو ، کیونکہ وہی تنہا شخص کا مقام ہے ، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو صف میں سے کسی کو اشارہ کر دے کہ اس کے ساتھ ہو جائے اگر ایسا نہ ہو تو تنہا صف کے پیچھے نماز پڑھ لے. کھینچ کر متنبہ کرنا مکروہ ہے ، احمد اور اسحاق نے اس حرکت کو ناپسند جانا ہے کیونکہ اس میں كسى کے عمل میں بغیراس كى اجازت کے خلل اندازی ہے.
مندرجہ بالا بیان کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں: اگرنمازی کے لئے صف میں تنہا ٹھہرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو تو اس کی نماز درست ہے اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے ، اور جن فقہاء نے اگلی صف میں سے کسی کو نکالنے کی اجازت دی ہے انہوں نے یہ شرط رکھی ہے کہ پہلے سے اس کی موافقت کا علم ہو ، اس لئے ہم صرف اسی حالت تک اس حکم کو محدود سمجھتے ہیں ، لیکن اگر صف کے پیچھے منفرد کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مانے گا یا نہیں یا یہ يقين ہو کہ نہیں مانے گا تو کسی کو نکالنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ مخالف فقہی مذہب کا ادب ملحوظ رکھنا اور فتنہ سے بچنا ضروری ہے .

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas