اپاہجوں کی شادی

Egypt's Dar Al-Ifta

اپاہجوں کی شادی

Question

٨٦ بابت سال ٢٠٠٥ مندرج استفتا پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل سوالوں پر مشتمل ہے:

دماغی اپاہجوں کے بعض گھرانوں کو اپنے ان بیٹوں کی شادی کرانے ميں مشکلات در پیش آتے ہیں- یاد رہے کہ یہاں ذہنی عذر سے مراد ہلکا سا ذہنی اپاہج پن مقصود ہے جس ميں مبتلا شخض اپنی خاص زندگی کے معاملات میں اپنے آپ پر اعتماد کر سکتا ہے۔ اور اپنی صاف صفائی، کھانا پینا، اور اس قسم کے چھوٹے موٹے کام خود کر سکتا ہے، اور اس طرح کے معذوروں کو کچھ چھوٹے چھوٹے دستکاری اور ہنری کام جن میں زیادہ عقلی کاوشوں کی ضرورت نہیں پڑتی وه بھی سکھائے جا سکتے ہیں، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اسکی عقلی نشو نما اسکی حقیقی عمر کے لحاظ سے کم ہی ہوا کرتی ہے- جن میں سے چند یہ ہیں:
(١) یہ ڈر لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان بیٹوں کی اولاد بھی دماغی معذور نہ پیدا ہوں جیسا کہ نسلی اور موروثی اسباب کا تقاضا ہے.
(٢) اسی طرح کچھ سرپرستوں کا ان معذوروں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی شادی کرانے سے انکار کرنا جس کی وجہ سے کبھی کبھی ان دولتمند گھرانوں کو جنکے ہاں ایسا ذہنی اپاہج بیٹا ہوتا ہے اور اسکی شادی کرانا چاہتے ہیں ایسے غریب گھرانوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو کبھی ان اپاہجوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی شادی کراتے ہیں اور کبھی نہیں بھی کراتے ہیں.
اب سوال یہ ہے کہ:
(١) کیا عقلی طور پر ایسا اپاہج شخص جس کی عقلی کمزوری بالکل مختصر اور تھوڑی سی ہو ، اس حالت میں رہتے ہوئے شادی کرنے کا حق رکھتا ہے خصوصا جب اسکا خاندان اس کا اور اسکی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکتا ہے یا خود اس کے پاس اپنا موروثی مال ہو؟.
(٢) اگر جینز ٹیسٹ یا خاندانی تاریخ سے یہ ثابت ہو جائے کہ ذہنی اپاہج جب شادی کرتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ بھی ذہنی طور پر معذور ہوتا ہے، تو کیا معاشرے میں ذہنی معذوری کے پھیلنے کے ڈر سے اس ذہنی معذور کو شادی سے محروم رکھا جاسکتا ہے اور کیا اس کو شادی سے محروم رکھنے پر معاشرہ اور اسکا گھرانہ گنہ گار ہو گا ؟.
(٣) اگر شرعی اور طبی طور پر ذہنی اپاہج کا شادی کرنا ممنوع نہ ہوا تو کیا وہ شادی کا مجاز ہوگا خصوصا اگر نگران بھی متعین رہے؟

Answer

جس قسم کے ذہنی اپاہج کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، شادی کرنا اس کا جائز اور شرعی حق ہے کیونکہ شادی کے سارے ارکان پائے جا رہے ہیں. اگر شریعت نے پاگل کی شادی کو مباح کیا ہے اور پاگل عورت سے وہ شادی کا مجاز ہے، تو ایسا ذہنی اپاہج جسکا دماغی مرض معمولی نوعیت کا ہو، اس کی شادی بدرجہء اولیٰ جائز ہونى چاہئے، اگر شادى میں اس کی مصلحت ہو اور اس کے مفادات کے حق میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں. ہر مذہب کی فقہ کی کتابوں میں مستقل فصلیں قائم کی گئی ہیں اور اس مسئلے کو بیان کرنے کیلئے علیٰحدہ خاص عنوانات رکھے گئے ہیں جیسے كہ ''پاگل کی شادی'' اور اس امر پر مجبور کرنے کی ذمہ داری کا حکم وہی ہے جو نا بالغ کی سرپرستی کا ہے لیکن ان کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ایا یہ سرپرستی کا حق صرف باپ اور دادا کے ساتھ خاص رہے گا یا دوسرے سرپرستوں کو بھی یہ حق حاصل ہوگا جیسے کہ حاکم یا قاضی كو.
یہ سارا اہتمام اس انسان کے مفادات کی خاطر ہے کیونکہ اس میں بھی شہوت اور جذبات رکھے گئے ہيں اور اسے بھی رہائش، نان و نفقہ، نگرانی رعایت اور اہتمام کی ایسی ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے دوسرے انسانوں کو، بلکہ بعض اعتبار سے ایسے معذوروں کو عام انسان سے زیادہ اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے خصوصا جن کا تعلق اس کی بیماری سے ہے، چنانچہ فقہ حنبلی کی کتاب '' کشاف القناع'' میں ہے: ''رہی بات پاگل عورت کی شادی کی تو اگر اس عورت سے مردوں کی طرف میلان ظاہر ہو جائے تو اس صورت میں سارے سرپرستوں پر اسکی شادی کرانا لازم ہے، کیونکہ اس عورت کو نکاح کی ضرورت ہے تاکہ شہوت کے برے انجام کو دور کیا جاسکے اور اسے زنا سے بچایا جاسکے اور اس كو مہر اور نان و نفقہ دلايا جاسکے اور پارسائی اور عزت بچانے کا سامان کیا جاسکے، انہیں مقاصد کے پیش نظر اسکی شادی کرانا مباح قرار دیا گیا ہے...، اور مردوں کی طرف اس کے رجحان کو کئی امور سے جانا جا سکتا ہے، اس کی باتوں سے، یا اس کی مردوں کی جستجو میں رہنے سے یا انکی طرف میلان سے یا اس طرح کے دوسرے قرائن سے. اور اسی طرح اگر دو بھروسہ مند ڈاکٹر یہ تجویز ديں، اگر دو نہ ہوں تو کم سے کم ایک ڈاکٹر یہ مشورہ دے کہ اسکی بیماری شادی سے دور ہو جائے گی. اس صورت میں سب سرپرستوں پر اسکی شادی کرانا لازم ہو جائے گا، کیونکہ یہ شادی ان کے بڑے عظیم ترین مفادات میں شامل ہے بلکہ علاج کرانے کی طرح ہے، اور اگر شہوت والی پاگل عورت کا حاکم کے سوا کوئی ولی نہ ہو تو حاکم ہی اسکی شادی کرائے گا''.
پاگل اور ذہنی طور پر اپاہج کے درمیان فرق ہونے کے با وجود یہاں انکے درمیان شادی کے معاملے میں مشترک سبب پایا جاتا ہے، وہ یہ کہ ایسے شخصوں کا باہم زندگی گذارنا جن سے جماع ہو سکتا ہو یا جن میں جماع ہو سکتا ہو ، اور سماجی زندگی کی طبیعت کا دونوں ميں مشترک ہونا، اور رعایت، اہتمام اور خرچے کا احتیاج دونوں میں مشترک طور پر پایا جانا.
یہ بات محتاج بیاں نہیں کہ نگرانوں، سرپرستوں، اور کفیلوں کی سرپرستی کا مقصد صرف اورصرف ان زیر سرپرستی افراد کے مفادات کی حفاظت ہے. اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ان اپاہجوں کی سفید غلاموں کی طرح خرید و فرخت ہو یا غیر انسانی اور غیر اخلاقی طور پر ان کا استعمال کیا جائے.
اس بنا پر ذہنی اپاہج کو شادی سے نہیں روکا جائے گا، کیونکہ شادی ایک الگ چیز ہے اور بچے پیدا کرنا ایک الگ چیز! شادی میں بچے پیدا کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سارے بلند مقاصد ہیں، الفت و محبت، رحمت، پیار، باہمی تعاون، خرچہ، رشتہ داری جیسے مقاصد، اور اگر بچے پیدا کرنا شادی کےلئے ضروری اور لازمی ہوتا تو بڑی عمر والوں، بانجھ اور بچوں کی شادی بھی درست نہیں ہوتی. اور جب یہ نتائج باطل ٹھہرے تو ان کا سبب بھی باطل ہو گیا. اس طرح شادی اور بچے پیدا کرنے کے درمیان لزوم بھی نہ رہا. اور ضبط تولید کی راہ اختیار کرنے کا مسئلہ ایسا ہے جس کے بارے میں ماہرین اور اہل اختصاص ہی مشورہ دے سکتے ہيں کہ کب بچے کی پیدائش کو ملتوی کیا جائے یا کب اس میں مہلت دی جائے یا مصلحت کے پیش نظر کب تک روکے رکھنا چاہئے ہر خاص حالت کیلئے الگ الگ تجویزیں ہو سکتی ہیں.
در اصل ذہنی اپاہج سے متعلق اس کے سرپرست یا ماں باپ دونوں کا تصرف یا ان میں سے کسی ایک کا تصرف صرف اس کے مفادات کی حد تک ہی ہے اور اسی کے ارد گرد دائر ہے. اس لئے اگر شادی کرنا اس کےلئے مفید ہو یا اس کی نفسیات کےلئے بہتر ہو یا صحت سے متعلق کوئی فائدہ ہو یا کوئی مادی فائدہ ہی سہی حاصل ہو تو سرپرست کو اس کی شادی کے درمیان رکاوٹ بننا جائز نہیں. بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جیسے حالات یا ملتے جلتے حالات والے لوگوں کے درمیان شادی کرائى جائے اور یہ کام ان تنظیموں اور سنٹروں کے ذریعے انجام پائے جو ایسے ذہنی اپاہجوں کا انتظام و اہتمام کرتے ہیں. واضح رہے كہ انکے نگرانوں پر اسی قدر گناہوں میں اضافہ ہوتا جائے گا جوں جوں ان کی مصلحت میں تاخیر ہوتی جائے گی بشرطیکہ سہولیات موجود ہوں اور اس میں اس کا مفاد ہو.

باقى اللہ تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas