عورت کے کام کرنے کا میراث میں اثر

Egypt's Dar Al-Ifta

عورت کے کام کرنے کا میراث میں اثر

Question

کیا عورت کے کام پر جانے سے اس کی حیثیت بدلنے کی وجہ سے میراث میں اس کے حصہ میں رد وبدل کرنا جائز ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ و من والاہ۔ وبعد: عورت کے کام پر جانے سے اس کی حیثیت بدلنے کی وجہ سے میراث میں اس کے حصہ رد وبدل کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے گھر کی سر پرستی شوہر کو عطا فرمائی ہے جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نفقہ اور خاندان کی دیگر ذمہ داریاں شوہر پر واجب ہیں نہ کہ عورت پر؛ کیونکہ اللہ تعالی ارشادِ گرامی ہے : ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ [النساء: 34]. یعنی: مرد محافظ ونگران ہیں عورتوں پر اس وجہ سے کہ فضیلت دی ہے اللہ تعالی نے مردوں کو عوروں پر اور اس وجہ سے کہ مرد خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں میں سے ( عورتوں کی ضرورت اور آرام کیلئے)۔ ضیاء القرآن۔
تو کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ چونکہ عورت کام کرتی ہے اور مرد کے پاس کام نہیں ہے اس لئے مرد کا نفقہ عورت پر واجب ہے یا یہ کہ بیوی کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہے یا یہ کہ اخراجات برداشت کرنے میں دونوں برابر کے شریک ہیں، بلکہ یہ سب باتیں شریعتِ اسلام کے خلاف ہیں۔
اور اسی طرح اللہ تعالی کا حکم میراث میں بھی ثابت اور محکم ہے جو عورت کے کام پر جانے سے اس کی حیثیت بدلنے کی وجہ سے بھی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا؛ اور نہ ہی عورت کے کام پر جانے سے اس کی حیثیت کا بدلنا میراث میں اس کے حصے میں رد وبدل کے جواز کا سبب بن سکتا ہے؛ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حکم تعبدی اور حتمی ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر عورت یہ ذمہ داریاں ادا کرتی بھی ہے تو اپنی رضامندی سے ادا کرتی ہے وجوباً ادا نہیں کرتی۔
حکم اور شریعت کی رو سے میراث کے احکام اللہ تعالی کا حق ہے، اور یہ حقوق العباد میں سے بھی ہے، تو بندوں کو ان کے اس پر قدرت دینا اور اسے اپنے قبضے میں لینے یا اس سے دستبردار ہونے کی آذادی دینا بھی واجب ہے؛ امام شاطبی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الموافقات" (3/ 101، ط. دار ابن عفان) میں فرماتے ہیں: ہر وہ شیئ جو اللہ تعالی کے حقوق میں سے ہو انسان کو اس میں کسی بھی صورت میں کوئی اختیار نہیں ہوتا، لیکن جو بندے کا اپنا حق ہے تو اس میں اسے اختیار ہے۔
پس ہر وارث کو اس کے حق پر قدرت دینا واجب ہے، اس کے بعد پھر صاحبِ حق کو اختیار ہے کہ اپنے جتنے حصے سے چاہے دستبردار ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ دستبرداری اللہ تعالی کے حقوق میں سے کسی حق کے اسقاط کا سبب بن رہی ہو جیسے مثلا تمام ورثاء کا اپنے حق سے دستبرار ہونا عدالت کا حکم ہو یا کسی اور کا الزامی حکم ہو تو اپنے حق سے دستبردار ہونا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالی کا حق ساقط ہو رہا ہے۔ اور امام شاطبی فرماتے ہیں: حتی کہ اگر کوئی حق اللہ تعالی اور بندے یعنی دونوں کا ہو اور بندے کا اپنے حق سے دستبردار ہونا اللہ تعالی کے حق کے ساقط ہونے کا سبب بن رہا ہو تو بھی اس کا اپنے حق سے دستبردار ہونا جائز نہیں ہے۔
اس بناء پر: : عورت کے کام پر جانے اور اپنے والد یا شوہر کے ساتھ گھر کے اخراجات میں شریک ہونے کی وجہ سے اس کی حیثیت کا بدلنا کسی بھی صورت میں میراث کی قطعی نصوص کو باطل کرنے کا سبب نہیں بن سکتا اور نہ ہی اسے عورت کے حصۂ میراث میں ترمیم اور رد وبدل کے جواز کا سبب شمار کیا جا سکتا ہے۔
اور اسی طرح میراث میں صاحبِ حق کو اس کے حق پر قدرت دینا اور اس میں تصرف کی مکمل آزادی دینا بھی واجب ہے، پھر چاہے اسے اپنے قبضے میں رکھ لے یا اس سے دستبردار ہوجاۓ۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas