جائز کام کو محدود کرنے میں حاکم کی ...

Egypt's Dar Al-Ifta

جائز کام کو محدود کرنے میں حاکم کی حدود

Question

 فقہی ابجاث میں یہ قاعدہ بہت عام ہے: "للإمام تقييد المباح" یعنی: امامِ وقت مباح کام کو محدود کرسکتا ہے۔ اس قاعدے کا کیا مطلب ہے؟ کیا حاکم کا یہ اختیار علی الاطلاق ہے؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ، وبعد؛ فقہی قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے کہ حاکم کا اپنی رعایا پر تصرف کا انحصار مصلحت پر ہوتا ہے۔ اور یہاں مصلحت سے مراد مصلحتِ ''معتبرہ یا مرسلہ'' ہے، نہ کہ متروک شدہ مصلحت مراد ہے اور وہ مصلحت کسی مخصوص فرد کے لیے نہیں بلکہ حاکم کے ماتحت تمام افراد کیلئے عام ہوتی ہے ۔ لہٰذا حاکم کے ساتھ ساتھ اس کے نائبین پر بھی واجب ہے کہ تمام مسلمانوں کی مصلحت کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور اخروی مصلحت کو دنیوی مصلحت پر ترجیح دیں؛ اس لیے حاکمِ وقت مناسب غور و فکر اور تحقیق و تفتیش کے بعد اور ایمانتدار سپیشلسٹ اہلِ علم اور اہلِ فن سے مشاورت کے بعد، مصلحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے اجتہاد کے ذریعے وہ بہت سے معاملات کو منظم کر سکتا ہے۔
امام وقت مسائل کے مطابق حاکم فیصلے لے سکتا ہے، پس جب مصلحت عام ہو اور اس میں تمام شرائط بھی پائی جا رہی ہوں تو حاکم کا تصرف شرعی طور پر صحیح ہو گا جس کا نفاذ اور عمل درآمد ہونا چاہیے، اور اس کام سے جان چھڑانے کیلئے حیلہ سازی جائز نہیں ہے؛ لہذا رعایہ پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، اور اگر حاکم کا تصرف شریعت کے مطابق نہ ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی؛ یہ اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ» متفق عليه. یعنی: اللہ تعالی کی نافرمانی کے کام میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے بلکہ اطاعت تو صرف نیک کاموں میں کی جاتی ہے۔
امام مسلم - رحمہ اللہ - نے بھی ابن عمر - رضی اللہ عنہما - سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ»، یعنی: ''ہر مسلمان پر اس کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ تمام امور میں ولیِ امر کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جائے، پس اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اطاعت نہیں کی جائے گا'' اس لیے اہل سنت کے درمیان یہ رائے مسلّم ہے کہ مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت جائز نہیں ہے خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو، اور اگر وہ کھلے عام کفر کا اظہار کرے تو بغاوت جائز ہے کیونکہ ہمارے پاس اس بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے برہان ہے۔
امام خادمی رحمہ اللہ "بريقة محمودية" (1/ 62، ط. مصطفى الحلبي) میں فرماتے ہیں: [آپؒ نے فتاویٰ میں فرمایا: اگر ولیِ امر کا حکم شریعت کے مطابق ہو تو ہر شخص پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ اور اگر شریعت کے مطابق نہیں اور اس کی حکم عدولی کسی بڑے فساد کا پیش خیمہ بن رہی ہو تو بھی اس کی اطاعت کی جائے گی؛ کیونکہ بڑے اور شدید نقصان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے چھوٹا نقصان برداشت کیا جاتا ہے۔۔ فقہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ مباح چیز جس کے کرنے کا حاکمِ وقت نے کسی مصلحت کی وجہ سے حکم دیا ہو تو رعایا پر اسے کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
اور امام ابن حجر رحمہ اللہ "التحفة" (3/ 71، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: [ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ولیِ امر نے جس چیز کا حکم دیا ہو اور ا س میں مفاد عامہ نہ ہو تو اس حکم میں صرف ظاہری طور پر اور تکلیف سے بچنے کیلئے اس کی اطاعت کی جائے گی، اور اس کے برعکس جس میں مفاد عامہ ہو؛ تو اس میں باطنی طور پر بھی اس کی اطاعت واجب ہو گی] آہ۔
اور یہ مقولہ کہ "حاکم مباح چیز کو محدود کرنے کا اختیار رکھتا ہے" ان علماء کرام رحمھم اللہ نے وضع نہیں کیا گیا جنہوں نے قواعد اور ضوابط فقیہ پر کتب تصنیف کی ہیں، بلکہ یہ مقولہ ان معانی میں سے ایک ہے جو ضابطِ کلی یعنی مصلحت سے مستنبط ہیں.
اور حکمِ مباح یہ ہے کہ جس پر عمل کرنے کا پہلو اور ترک کرنے کا پہلو برابر ہوں، یعنی اس کے کرنے پر کوئی ثواب نہ ہو اور چھوڑنے پر کوئی سزا نہ ہو۔
اس بنا پر: اس مقولے کا مفہوم یہ ہے کہ امامِ وقت عوامی مفاد کے حصول کے لیے کسی مباح چیز پر پابندی لگا سکتا ہے، اور اسی طرح کسی مباح کام کے کرنے کا حکم دے کر اسے لازم بھی قرار دے سکتا ہے، اور یہ سب کچھ ان اختیارات کا نتیجہ ہے جو اسے دیے گئے ہیں، لیکن یہ پابندی صرف ان چیزوں میں لگا سکتا ہے جن میں اسے حقِ سلطنت ہو، یعنی ان میں اسے اپنی پالیسی اور صوابدید کے مطابق تصرف کرنے کا حق ہو؛ جیسے وہ امور جن کا تعلق ریاست کے ساتھ ہوتا ہے مثلاً فوج سے متعلق معاملات ہوں، یا عوامی سہولیات اور فنڈز کی ریگولیشن کے امور ہوں، یا ریاست کو سونپے گئے فرائض کی انجام دہی کے مخصوص طریقے اور ذرائع متعین کرنے جیسے مسائل ہوں۔
لیکن اس بناء پر، اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو کوئی خاص چیز کھانے یا پینے پر مجبور کرے، اور کسی ایسے فرمان کا اجرا کرنا بھی اس کے اختیار میں داخل نہیں جو شادی کرنے کی حقدار خواتین کی خصوصیات کی وضاحت کرتا ہو؛ مثلاً پڑھی لکھی عورت کا غیر تعلیم یافتہ مرد سے نکاح کرنے سے منع کرنا، اور ایسی چیزیں بھی جن کا مصحت تقاضا نہیں کرتی۔ مگر جن چیزوں کا مصلحت تقاضا کرتی ہو مثلاً بلوغت سے پہلے کم عمر لڑکی کی شادی سے منع کرنا، یا بازاروں میں خلل پڑنے کی صورت میں خرید وفروخت میں قیمتیں مقرر کرنا، اور ایسے معاملات جو اس سیاسہ شرعیہ کے قبیل سے ہوں جس میں نجی مفاد پر عوامی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جنسِ مباح سے مکمل طور پر منع کر دے، مثلاً کھانے پینے سے بالکل منع کرنا یا تعدد ازدواج سے روکنا، یا جیسے اگر ولیِ امر تعدد ازدواج کو قطعی طور پر ممنوع قرار دینے والا قانون جاری کر دے تو اس کا یہ قانون قبول نہیں کیا جائے گا خواہ وہ یہ دعویٰ بھی کرے کہ اس امر کے پیچھے مفاد عامہ ہے، مگر جب وہ اس ممانعت کو کسی ایسی ہنگامی صورت حال سے مربوط کرے جس میں وہ سمجھتا ہو کہ ممانعت ہی زیادہ مناسب اور صحیح ہے تو اس کے اس عمل میں شریعت سے کوئی تصادم نہیں؛ دلیل یہ ہے کہ جب بعض صحابہ کرام -رضی اللہ عنھم- نے ارادہ کیا کہ وہ نہ گوشت کھائیں گے، نہ بستر پر نہ سوئیں گے، اور نہ عورتوں کے قریب جائیں گے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے انہیں ڈانٹا۔ پس سیدنا انس بن ماللک رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ایک گروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے پوشیدہ اعمال کے متعلق معلومات حاصل کیں؛ اس کے بعد ان میں سے کسی صحابی نے کہا: میں عورتوں کے قریب نہیں جاوں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاوں گا اور کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سووں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ قَالُوا كَذَا وَكَذَا؟ لَكِنِّي أُصَلِّي وَأَنَامُ، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي» رواه مسلم في "صحيحه" یعنی: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں؟ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں، کسی دن روزہ رکھتا ہوں اور کسی دن چھوڑ دیتا ہوں، عورتوں سے صحبت بھی کرتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ لہذا حاکمِ وقت کی طرف سے ممانعت کچھ افراد میں تو ہو سکتی ہے اجناس میں نہیں ہو سکتی، اور ان افراد میں ممانعت بھی مصلحت کے بدلنے سے بدلتی رہتی ہے۔
لہذا، ابن تیمیہ نے قیمیں مقرر کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے"مجموع الفتاوى" (28/ 76، ط. مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف) میں فرمایا: [حکومت کا قمتیں مقرر کرنا بعض اوقات ظلم ہوتا جو کہ جائز نہیں ہے، اور بعض اوقات عین عدل ہوتا ہے جو کہ جائز ہے اور اگر یہ عمل ظلم اور ناانصافی پر مشتمل ہو اور لوگوں کو ایسی قیمت پر بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہو جس پر وہ راضی نہ ہوں، یا انہیں اس چیز سے روکا جا رہا ہو جو اللہ تعالی نے ان کے لیے حلال کی ہے تو یہ عمل حرام ہے۔ اور اگر اس کا یہ عمل لوگوں میں قیامِ عدل پر مبنی ہو مثلاً حاکم وقت لوگوں کو اشیاء کی وہ قیتیں وصول کرنے پر مجبور کرے جو انہیں لینی چاہیں اور قیمتوں میں حرام اضافے سے انہیں منع کرے تو یہ جائز ہے، بلکہ یہ واجب ہے۔
حاکم وقت بعض امور کو الزامی طور پر نہیں بلکہ بہتر اور افضل کے انتخاب کے طور پر محدود کر سکتا ہے اور اس پر پابندی لگا سکتا ہے، لیکن اس میں ممنوع پابندی شامل نہیں۔ اور اس کی مثال یہ ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اہلِ کتاب کی خواتین سے نکاح کی اباحت کو مقید کیا تھا اور بزرگ اور اہل قدوہ صحابہ رضی اللہ عنھم کو بھی ان سے نکاح کرنے سے روک دیا تھا تاکہ باقی مسلمان ان سے نکاح کرنے میں ان کی پیروی نہ کرنے لگ جائیں، جس کی وجہ سے اہلِ کتاب کی خواتین سے نکاح کرنے کا رواج عام ہو جائے گا اور مسلمان عورتوں سے نکاح کا رواج کم ہو جائے گا، اور اس کے علاوہ یہ کہ اہلِ کتاب کی خواتین سے میں سے بہت سی پاک دامن بھی نہیں ہیں۔ ان کا نکاح طوائف عورتوں سے نکاح کا باعث بن سکتا ہے، چونکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ پابندی اس کام سے بالکل منع کرنے یا حرام کرنے کے طور پر نہیں تھی بلکہ لوگوں کے حق میں بہتر اور افضل چیز کو منتخب کرنے کے طور پر تھی۔ ورنہ اگر کوئی بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ بھی اس حکم کی خلاف ورزی کرتا تو آپؓ انہیں سزا دیتے حالانکہ آپؓ نے ایسا نہیں کیا۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ پابندی سب لوگوں کیلئے عام نہیں بلکہ ایک خاص گروہ کے لیے مخصوص تھی؛ امام بیہقی رحمہ اللہ اور امام طبری رحمہ اللہ نے شقیق سے روایت کیا ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے خط لکھا کہ اسے چھوڑ دو۔ انہوں نے عرض کی: کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے، اس لیے میں اسے چھوڑ دوں؟ آپؓ نے فرمایا: میں یہ گمان نہیں کرتا کہ یہ حرام ہے، لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم لوگ ان میں سے طوائف عورتوں میں مشغول نہ ہوجائیں۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے "جامع البیان" (4/716، ط. دار هجر) میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: [سیدنا عمر نے طلحہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما کی یہودی اور عیسائی عورتوں سے شادی کو اس لئے ناپسند کیا، تاکہ باقی لوگ اس کام میں ان کی پیروی نہ نہ کرنے لگ جائیں اور مسلمان عورتوں کو چھوڑ نہ دیں یا کوئی وجہ تھی، لہذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ ان دونوں عورتوں کو چھوڑ دیں۔
اور مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقولہ: "امام کو حق حاصل ہے کہ وہ مباح چیز کو محدود کر دے" اگرچہ علماءِ کرام -رحمھم اللہ- نے قواعد فقہیہ کی کتابوں بیان نہیں کیا، لیکن یہ مقولہ معنی کے اعتبار سے صحیح ہے اور ان کے بیان کردہ فقہی فروعات اور اسلامی شرعی احکام سے موافقت رکھتا ہے۔ تاہم، اسے یہ حق حاصل نہیں کہ على الإطلاق جس مباح کام پر چاہے پابندی لگا دے بلکہ اسے اپنے اختصاص کی حدود کے اندر عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مباح کام کو محدود کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas