کسی نامعلوم شخص کی بیعت کرنا

Egypt's Dar Al-Ifta

کسی نامعلوم شخص کی بیعت کرنا

Question

کیا کسی نامعلوم شخص کی بیعت کی جا سکتی ہے؟

Answer

یہ متفق علیہ بات ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی بیعت شرعاً غیر صحیح اور بالکل غیر مقبول ہے، لوگ کیسے اپنے معاملات ایسے شخص کے حوالے کر سکتے ہیں جسے وہ نہ جانتے ہوں اور نہ اس کی شناخت سے واقف ہوں اور سربراہِ داعش کا یہی حال ہے وہ ایک نامعلوم شخص ہے جسے اس کے پیروکار بھی نہیں پہچانتے اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ لہٰذا یہ بیعت بالکل باطل ہے کیونکہ لوگ اس سے لاعلم ہیں۔

بیعت اسلام کے اندر ایک مامور بہ شرعی کام ہے اور نبی اکرم ﷺ نے بعیت عقبہ اولی، عقبہ ثانیہ اور بیعت رضوان میں اس پر عمل کیا ہے۔ اور بیعت معاہدے اور عقد کو کہتے ہیں اور اس میں ہر اس بات کو سننے اور اطاعت کرنے پر معتبر اور بڑے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو ۔

بیعت اس لیے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ عوام کے معاملات اور ملکی سیاست کی ذمہ داری، نقصانات سے بچنا اور دنیاوی ودینی مفادات کا حصول اسی پر مترتب ہیں، پس امام کے لیے سب سے اہم شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عادل ہو، جامع عدل کی شرائط کو پورا کرتا ہو، اور لوگوں کو اس کی حالت، دیانتداری، سیرت اور وہ کون ہے، اس کے بارے میں معلوم  تاکہ وہ قیادت سنبھال سکے اور اسے حکومت کی ذمہ داری سونپی جا سکے؛ پس اس کی بیعت اسی صورت میں واجب ہوگی جب لوگ اس کے معاملات، اس کی اصلیت، اس کی حالت اور اس کے نسب سے پوری طرح واقف ہوں۔ ورنہ یہ جاہلیت کی بیعت ہوگی جو باطل ہو جائے گی، کیونکہ لوگ کیسے اس شخص کی بیعت کر سکتے ہیں جسے وہ نہ جانتے ہوں اور نہ انہیں اس کے احوال معلوم ہوں؟

Share this:

Related Fatwas