اسلام میں جہاد دافعانہ ہے یا جارحان...

Egypt's Dar Al-Ifta

اسلام میں جہاد دافعانہ ہے یا جارحانہ

Question

اگر ہم جہاد سے قتال مراد لیں تو کیا اسلام میں وہ دفاعی صورت میں جائز ہوگا یا جارحانہ صورت میں ؟

Answer

الجواب :اسلام میں جہاد بمعنی قتال سے دفاعی جہاد مراد ہے نہ کہ اس سے مراد جارحیت  والا ہے اور سیرت نبوی کو پڑھنے والا اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ جہاد کی ابتداء ہجرت کے بعد ہوئی اور مسلمان کئی سالوں تک مکہ میں قریشی مشرکین کی طرف سے مختلف طرح کے ظلم، اذیتوں اور سزائوں کا سامنا کرتے رہے اس سب کے باوجود انہیں صبر اور برداشت کا حکم دیا گیا یہاں تک کہ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی۔ پھر جب الله تعالٰی نے انہیں قتال کا حکم دیا ۔ تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ آیت نازل فرمائی﴿أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ﴾ [الحج: 39] .ترجمه :"جن سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک الله ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے"،  اگر اس آیتِ کریمہ پہ کوئی غور کرے تو اسے یہ معلوم ہو گا کہ جہاد کی اجازت کا سبب اور علت مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو دور کرنا ہے پھر اس کے بعد مسلمانوں پر جہاد کو فرض کر دیا گیا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا﴾ [البقرة: 190]"اور قتال کرو الله کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے قتال کریں اور حد سے تجاوز نہ کرو"۔ اور یہ آیت اس حکم کے بارے میں واضح ہے کہ الله کی راہ میں قتال صرف زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہے ناکہ انکے علاوہ کسی اور کے خلاف۔ چاہے انکا ظلم  دین سے دشمنی کی وجہ سے ہو یا کسی دنیاوی اغراض کی وجہ سے ہو جیساکہ لوگوں کو لوٹنا۔

Share this:

Related Fatwas