جہاد کی مشروعیت في ذاته مقصودہے یا ...

Egypt's Dar Al-Ifta

جہاد کی مشروعیت في ذاته مقصودہے یا کہ وسائل کے باب میں سے ہے

Question

جہاد کی مشروعیت في ذاته مقصودہے یا   کہ وسائل کے باب میں سے ہے ؟

Answer

جہاد کی مشروعیت فی نفسہ مقصود نہیں بلکہ باب الوسائل میں سے ایک وسیلہ کے طور پر مشروع کیا گیا ہے جس کے ذریعے ظلم و جارحیت سے ا مت  کا دفاع کیا جاتا ہے خواہ  ان پریہ ظلم وزیادتی ان کے مذہب کی وجہ سے ہو یا دولت و ثروت  لوٹنےکے لیے۔ اس لیے جہاد کی مشروعیت بیان کرنے والی بہت سی آیات  نےاس سبب کا ذکر بھی  کیا ہے جس کیلئےجہاد مشروع کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اللّٰه کریم نے ارشاد فرمایا: وقَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ- ( التوبة:36) "اور تم سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں"۔

پس آیت میں جنگ کے حکم کی وجہ یہ ہے کہ جارح کا منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ اور اگر ہم یہ فرض کریں کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں مشرکین جارحیت نہ کرتے تو الله کریم مسلمانوں کو جہاد کا حکم نہ دیتا؛کیونکہ جہاد ظلم کو ختم کرنے کا ایک وسیلہ ہے  اور ظلم پایا نہیں گیا۔ سو یہی معنیٰ ہوا کہ جہاد باب الوسائل کے وجوب کے طور پر  واجب ہے۔ تاکہ ظلم مٹ جائے اور عدل قائم ہو جائے کیونکہ یہ دونوں ایسے وجوب کے طور پر واجب ہیں جو ذاتہ مقصود  ہیں۔ یہ ان انتہا پسندوں کے عقیدہ کے برعکس ہے جو جہاد کو فی نفسہ  واجب سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ان کے خیال میں مسلمانوں کو ہمیشہ حالت جنگ وقتال  میں رہنا چاہئے۔

Share this:

Related Fatwas