نماز ترک کرنا

Egypt's Dar Al-Ifta

نماز ترک کرنا

Question

تارکِ نماز کا کیا حکم ہے؟

Answer

نماز دین کا ستون ہے اور یہ ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔" (البقرہ: 43) اسلام میں نماز کو خاص اہمیت حاصل ہے، اس لیے اس کے ارکان اور اس کے اوقات کی ابتداء اور انتہا کا تعین کیا گیا ہے، جائز عذر کے بغیر اس میں مقررہ وقت سے تاخیر کرنا جائز نہیں، سستی کی وجہ سے نماز چھوڑنا عذرِ شرعی نہیں ہے، لہٰذا جو شخص غفلت اور سستی کی وجہ سے نماز ترک کرے، ہمیں چاہیے کہ اسے نصیحت کرتے رہیں اور اسے حکمت اور بہتریں انداز کے ساتھ نماز کی ترغیب دیتے رہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو‘‘ [النحل: 125]، اس میں صبر کے ساتھ  لگے رہنا چاہیے خواہ کتنا ہی وقت لگے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر ثابت قدم رہو" [طٰہٰ: 132]، اور اس کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت عطا فرماۓ اور اللہ اس کا سینہ اپنی اطاعت کے لیے کھول دے۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: "بندے کی اس کے بھائی کے لیے غیب میں کی گئی دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ کھڑا ہوتا ہے جو اس کی دعا پر آمین کہتا ہے، جب بھی وہ اس کیلئے دعا کرتا ہے وہ فرشتہ کہتا ہے: آمین، اور آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہو۔" اور آپ ﷺ نے فرمایا: "سب سے تیزی سے قبول ہونے والی دعا کسی شخص کی کسی کیلئے اس کی عدم موجودگی میں کی جانے والی دعا ہے"۔ پس تارک نماز گناہگار ہےجس کو ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے اس گرداب سے نکا دے، اس شخص کی نہیں جو اس کو توبہ سے بھی ناامید کر کے شیطان کی طرح اس معصیت پر قائم رہنے میں اس کی مدد کرے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas