عقل کو نقل پر مقدم کرنا

Egypt's Dar Al-Ifta

عقل کو نقل پر مقدم کرنا

Question

کیا اشعری نقل پر عقل کو ترجیح دیتے ہیں اور قرآن و سنت کو نہیں  مانتے؟

Answer

یہ بیان اشاعرہ کے دشمنوں کی طرف سے محض  بہتان ہے  تاکہ انہیں التباس میں ڈال کر ان کی اور ان کے عقیدے کی صورت کو مسخ کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اشاعرہ عقل کو نصوص اور منقول کے فہم کیلئے استعمال کرتے ہیں؛ کیونکہ بعض نصوص وہم پیدا کرنے والی اور غیر قطعی ہوتی ہیں، اس لیے وہ ان وہمی نصوص کو محکم نصوص کی طرف لوٹاتے ہیں، اور متشابہ معانی کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں، بعض اوقات وہ مسلکِ تاویل اختیار کرتے ہیں اور عربی زبان کے مقتضیٰ کے مطابق اور نص کے مفہوم اور سیاق وسباق کی دلالت کے مطابق اس کی تاویل کر دیتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اس منہج کے ذریعے سےانہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے، اگر یہ منہج نہ ہوتا تو نصوص سے ظاہری معنی لیا جاتا،  اور اہلِ وہم کو اللہ تعالی کے بارے میں ان نصوص سے تشبیہ اور تجسیم کا وہم ہو جاتا- اللہ تعالی اس سے بہت بلند وبرتر ہے- اشاعرہ کے اس منہج کی مثال یہ ہے کہ وہ آیات جن سے اللہ تعالی کے لئے مخلوق کے وصف جیسے وصف کا وہم پیدا ہوتا ہے انہوں نے ان  آیات کو محکم دلالت والی آیات کی طرف پھیر دیا ہے۔جیسے انہوں نے ہاتھ اور پنڈلی والی آیات کو  اس آیت کی طرف پھیرا ہے﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾یعنی: "اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، اور وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے" [الشوریٰ: 11]، یعنی جن سے اللہ تعالی اور اس کی مخلوق میں تشبیہ کا وہم پیدا ہوتا ہے انہوں نے ان آیات کو اللہ سبحانہ وتعالی کے اس قول پر محمول کیا ہے جو ثبوت اور دلالت میں محکم ہے۔اور یہاں نقل اور نص کے فہم اور اس کے معانی کے ادراک کیلئے عقل کا استعمال ایسے طریقے سے کیا ہے جو ذہنوں میں مقامِ خالق اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تنزیہ کے موافق ہے۔

Share this:

Related Fatwas