تحفہ دینے اور قبول کرنے کے ضوابط

Egypt's Dar Al-Ifta

تحفہ دینے اور قبول کرنے کے ضوابط

Question

شریعت میں تحفہ دینے اور قبول کرنے کے کیا ضابطے ہیں ؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛تحائف، صدقات، عطیات اور ہر وہ چیز جو بغیر معاوضے کے ملکیت میں آئے ان عطیات میں شامل ہیں جن کو شرعیت پسند کرتی ہے اور نیکی کے پہلو  اور  بھلائی کے مظہر کے طور پر انہیں اپنانے کا حکم دیتی ہے کیونکہ ان سے دلوں میں الفت پیدا ہوتی ہے ،محبت مضبوط ہوتی ہے اور ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: '' اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے'' ۔] سورۃ بقرۃ آیت :177[اور اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے: '' نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو'' ۔ [سور المائدہ:2[۔

اور اصطلاحِ فقہ میں ہدیہ : اس مال کو کہتے ہیں جو کسی کو  احتراماً کے طور پرتحفہ یا ہدیہ کے طور پر دیا جائے ۔

علامہ ابن رشد مالکی (البیان والتحصیل 17/397، دار الغرب الاسلامی)میں فرماتے ہیں :ہدیہ سے مراد وہ چیز ہے جس کے ساتھ دینے تحفہ دینے والے کو اس شخص کا اکرام مقصود ہوتا ہےجسے وہ دے رہا ہے اورجو اس کی عزت  اور قدر ومنزلت کی وجہ سے اس کے قریب ہونے کی نیت سے اسے ہدیۃً دی جاتی ہے ۔

شرعیت یہ ملحوظ رکھتی ہے کہ تحفہ برے مقاصد سے پاک ہو، جیساکہ اس کا انسانی حقوق کو نقصان پہنچانے کا سبب بننا، یا ناحق چیز حاصل کرنا؛، پس ہر وہ تحفہ منع ہے جو حقوق پامال کرتا ہو یا باطل کی طرف دعوت دے، یا عہدہ حاصل کرنے کیلئے ہو ،یا قاضی کا منصب حاصل کرنے کیلیے ہو،یا اپنے مخالف پر حاکم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ہو ، یا رشوت کے طور پر  ہو، یا اس جیسے اور مقاصد کیلئے ہو، اس صورت میں تحفہ  لینا خیانت کی ایک قسم ہو گی جو کہ حرام ہے۔  آپ صلی الله عليه وسلم نے سنتِ طیبہ میں اس سے بچنے کا حکم دیا ہے : سیدنا ابو ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی کے لیے تحصیلدار بنایا، ان کا نام ابن الاتیتہ تھا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ مال آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اس عامل کا کیا حال ہو گا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھا ہوتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عامل جو چیز بھی (ہدیہ کے طور پر) لے گا اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہو گا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا، اگر گائے ہو گی تو وہ اپنی آواز نکالتی آئے گی، بکری ہو گی تو وہ بولتی آئے گی ۔( متفق عليه )

امام نووی رحمہ الله مسلم شریف کی شرح میں فرماتے ہیں : اس حدیث میں اس بات کا بیان کہ ہے عہدیداروں کے تحائف حرام اور خیانت ہیں کیونکہ اس میں وہ اپنے عہدے اور  امانت میں خیانت کرتا ہے؛ اور اس  وجہ سے حدیث میں اس کی سزا اور  اس تحفے کو قیامت کے دن  اٹھا کر لانے کا ذکر آیا ہے جیسا کہ اسی طرح کا ذکر مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے  کے بارے میں کیا گیا ہے  ، اور آپ صلی الله عليه وسلم نے اسی حدیث میں اس پر تحفے کے حرام ہونے کا سبب بھی بیان فرمایا ہے اوروہ ہے عہدے کی وجہ سے اسے تحفہ دیا جانا  ، اس کے برعکس غیر عہدیدار کیلئے تحفہ دینا مستحب عمل ہے ۔

اور امام ابن حجر عسقلانی رحمہ الله فتح الباری (12/349، ایڈیشن دار المعرفہ) میں فرماتے ہیں : آپ صلی الله عليه وآلہ وسلم نے انہیں بیان  فرمایا : اسے تحفہ ملنے کی وجہ وہی حقوق ہیں جن کے لیے اس نے کام کیا ، اور اگر وہ گھر بیٹھا ہوتا تو اسے کوئی چیز تحفے میں نہ ملتی ، وہ اس چیز کو صرف اس لیے مباح نہ سمجھے کہ یہ اس کے پاس تحفہ کے طور پر آئی ہے، بلکہ اگر صرف اسی کا خاص حق ہو تو جائز ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas