یہ جملہ کہنا: "ربنا افتكره (ہمارے رب نے اسے یاد کر لیا ہے) "۔
Question
کسی کے فوت ہونے پر یہ کہنے کا کیا حکم ہے کہ ہمارے رب نےاسے یاد کر لیا ہے؟
Answer
مصریوں کی زبان پر یہ بات عام ہے کہ جب ان سے کسی ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جاۓ جو برضاءِ الٰہی فوت ہو گیا ہو اور سوال کرنے والے کو اس کی موت کا علم نہ ہو تو کہتے ہیں: ہمارے رب نےاسے یاد کر لیا ہے ‘‘۔ تاکہ سننے والے کے ذہن میں فوراً یہ بات آجائے کہ وہ شخص فوت ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جوارِ رحمت میں جا چکا ہے؛ شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسے لغوی معنی میں تحویل کر کے یعنی اللہ تعالی کی طرف نسیان کی نسبت -حاشاه سبحانه وتقدَّس شانُهُ - کرکے سوءِ ظن رکھنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس جملے کو احسن عرفی معنی پر محمول کرنا واجب ہے اور وہ رحمت ہے۔ مصریوں کے اس قول میں ان کی اس امید کا اظہار ہے کہ مرنے والا موت کے بعد اس تنگ دنیا سے نکل کر اللہ تعالی کی اس رحابِ رحمت کی وسعت میں پہنچ چکا ہے، جس میں داخل ہو جانے والوں کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا، اور اس میں اس بات کا اظہار بھی شامل ہےکہ موت بذات خود مومن کے لیے دنیا کے مصائب سے نجات ہے۔ یہ سب بہترین معانی ہیں جو شرعی نصوص میں موجود ہیں اور مصریوں نے انہیں کااظہار کیا ہے۔