فجر کی نماز میں دعاے قنوت پڑھنا
Question
فجر کی نماز میں دعاے قنوت پر ہمیشگی اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟
Answer
فجر کی نماز میں دعاے قنوت پر ہمیشگی اختیار کرنا بہت سے قدیم اور جدید بہت سے فقہاء کا مذہب ہے، اس حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: "نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مہینے تک دعا میں ان (مخالفین) پر بدعا کیلئے دعاے قنوت پڑھی، پھر اسے چھوڑ دی لیکن فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ دنیا سے پردہ فرما گئے۔" یہ حدیث بہت سے محدثین نے روایت کی اور امام نووی اور دیگر علماء رحمہم اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ اسی پر شافعی اور مالکی فقہاء کا بھی عمل ہے۔ ان کے نزدیک فجر کی نماز میں قنوت مطلقاً مستحب ہے۔ انہوں نے اس روایت کو جس میں قنوت کو منسوخ یا ممنوع کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ لیا کہ ترک کیا جانے والا عمل خاص قوموں کے لئے بدعا کرنا تھا، نہ کہ مطلقاً قنوت۔
لہذا جو شخص فجر میں قنوت پڑھتا ہے، وہ مجتہد اماموں میں سے کسی کی تقلید کرتا ہے جن کی پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "پس اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تمہیں علم نہ ہو" (النحل: 43)۔ پس مساجد کے آئمہ کو چاہیے کہ وہ مساجد اور علاقوں میں رائج عمل کا لحاظ رکھیں۔