قرآن کریم کو موسیقی کے انداز میں پڑ...

Egypt's Dar Al-Ifta

قرآن کریم کو موسیقی کے انداز میں پڑھنا اور قرآن کی فنی تصویر بنانا

Question

ہمیں غیور مسلمانوں کی ایک جماعت کی طرف سے استفتاء موصول ہوا ہے وہ دریافت کر رہے ہیں کہ کیا اسلامی شریعت کی رو سے قرآن کریم کو موسیقی کے انداز میں پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ بعض گلوکار اور گلوکارائیں کرتے ہیں۔ نیز وہ پوچھتے ہیں کہ قرآن مجید ایسی فنکارانہ تصویر کشی کرنے کا کیا حکم ہے جو اس کی آیات اور معانی کی عکاسی کرے۔ انہوں نے ہم سے درخواست کی کہ ہم ان خطرناک رجحانات پر اپنی رائے دیں اور اسے عوامی سطح پر شائع کریں تاکہ لوگ اپنے دین کے بارے میں صحیح آگاہی حاصل کر سکیں۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ قرآنِ کریم کو موسیقی کے انداز میں تلاوت کرنے کے حکم کی وضاحت کے لیے دو قسم کے جواب ہیں: نقلی اور عقلی:

نقلی جواب: امام طبری اور قرطبی کے مقدمات میں آیا ہے کہ علماء نے کہا ہے: یہ بات قطعی اور واضح دلائل سے معلوم ہے کہ قرآن کی تعلیم (زبانی سیکھنے سکھانے) کا طریقہ نسل در نسل تمام مشائخ سے متواتر طور پر منتقل ہوا ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ اس میں کوئی تلحین (موسیقی کا انداز) یا تغنی اور طرب نہیں ہے، حالانکہ مخارجِ حروف، مد، ادغام اور قراءت کے دیگر اصولوں کے محققین علماء کثرت سے موجود تھے۔ پھر یہ کہ ترجیع اور تطریب (آواز کو ہموار اور دلنشین بنانے کیلئے اس موسیقیت یا نغمگی پیدا کرنا) میں اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ جس حرف میں ہمزہ نہیں ہے، اس میں ہمزہ شامل کیا جائے، اور جس حرف میں مد نہیں ہے، اسے ممدود کر دیا جائے۔ اس طرح ایک الف کو کئی الفوں میں بدل دیا جاتا ہے، اور ایک واو کو کئی واوات میں۔ اس عمل سے قرآن میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو کہ ممنوع ہے۔ اگر یہ نبر (کسی حرف کو نمایاں کر کے پڑھنا) اور ہمزہ کے مقام پر بھی واقع ہو، تو وہ اسے کئی نبرات اور ہمزات میں تبدیل کر دیتے ہیں، حالانکہ نبر جب کسی حرف میں واقع ہو، تو وہ ایک ہی ہمزہ ہوتا ہے، یا تو ممدود (لمبی) ہوتا ہے یا مقصور (چھوٹی)۔

اگر کہا جائے:حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک سفر میں اپنی سواری پر سورۃ الفتح تلاوت کی اور اپنی قراءت میں ترجيع فرمائی"، جیسا کہ امام بخاری نے اس روایت کو ذکر کیا ہے اور ترجيع کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے "آء آء آء" تین مرتبہ کہا۔

ہم اس کے جواب میں کہیں گے: یہ روایت قرآن کی مدوں کو خوبصورتی سے کھینچنے پر محمول کی جا سکتی ہے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ سواری کے ہلنے کی وجہ سے آپ کی آواز میں جو ہلچل پیدا ہوئی، اس کا ذکر ہو رہا ہو، کیونکہ جب کوئی شخص سواری پر سوار ہو کر زور سے آواز بلند کرتا ہے تو سواری کے ہلنے کی وجہ سے اس کی آواز میں دباؤ اور ٹوٹ پھوٹ آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے آواز میں ارتعاش اور الفاظ میں وقفے محسوس ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ وجہ ہو تو اس روایت میں کوئی دلیل نہیں۔ نیز، ابو محمد عبد الغنی بن سعید الحافظ نے قتادہ کی روایت سے عبدالرحمن بن ابی بکر، اور وہ اپنے والد گرامی (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے نقل کرتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت میں مد ہوتی تھی، لیکن ترجيع (تغنی) نہیں ہوتی تھی"۔

جناب ابن جریج نے حضرت عطا سے، اور انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مؤذن تھا جو اذان میں طرب (سریلی آواز) پیدا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اذان آسان اور نرم ہونی چاہیے؛ اگر تمہاری اذان نرم اور آسان ہو تو اذان دو، ورنہ اذان نہ دو"۔ یہ حدیث امام دارقطنی نے اپنی "سنن" میں روایت کی ہے۔

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان میں طرب پیدا کرنے سے منع کیا ہے تو قرآن کریم میں طرب سے منع کرنا زیادہ نامناسب ہوگا، کیونکہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے حفاظت میں لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ" [الحجر: 9] یعنی "ہم نے ہی ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"، اور فرمایا: "لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ" [فصلت: 42] یعنی "باطل نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی  پیچھے سے آ سکتا ، یہ حکیم اور حمید (اللہ) کی طرف سے نازل کردہ ہے"۔ میں کہتا ہوں: یہ اختلاف اس وقت تک قابلِ بحث ہے جب تک قرآن کے معنی ان ترجيعات اور آواز کے تکرار کے باوجود سمجھ میں آتے رہیں۔ لیکن اگر بات اس حد تک بڑھ جائے کہ قرآن کے معنی سمجھنا مشکل ہو جائے، تو یہ ترجیع سب کے نزدیک حرام ہے۔

الإمام الحافظ أبو الحسين رزين وأبو عبد الله الترمذي الحكيم نے "نوادر الأصول" میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "قرآن کو عربوں کے لہجوں اور آوازوں کے ساتھ پڑھو، اور عشق والوں اور اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) کے لہجوں سے بچو؛ کیونکہ میرے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کو گانے، رہبانیت، اور ماتم کی طرح ترجيع کے ساتھ پڑھیں گے، ان کی قراءت ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گی"۔

"لحون" جمع ہے "لحن" کی، اور اس کا مطلب ہے قراءت میں، یا شعر اور گانے میں ترنم پیدا کرنا۔ ہمارے علماء نے فرمایا: یہ جو ہمارے زمانے کے قاری واعظین کے سامنے یا مجالس میں غیر عربی لحون (آواز کے طریقوں سے)پڑھتے ہیں، ایسے ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔قرآن میں ترجيع کا مطلب ہے حروف کو بار بار دہرانا، جیسے عیسائیوں کی قراءت میں ہوتا ہے۔ جبکہ قرآن میں ترتیل کا مطلب ہے قراءت کو آرام سے، ٹھہراؤ کے ساتھ، اور حروف کو وضاحت کے ساتھ پڑھنا، جسے "ثغر مرتل" (خوبصورت اور مرتب دانتوں) سے تشبیہ دی گئی ہے، جو کہ گل بابونہ کی مانند ہوتے ہیں، اور قرآنِ کریم کی قراءت میں یہی طریقہ مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" [المزمل: 4] یعنی "قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھو"۔

ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت اور نماز کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا: تم کہاں اور آپ ﷺ کی نماز کہاں! آپ ﷺ نماز پڑھتے، پھر اتنی دیر سوتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی، پھر اتنی ہی دیر نماز پڑھتے جتنی دیر سوئے تھے، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی، پھر انہوں نے آپ کی قرأت بیان کی تو آپ ﷺ کی قراءت کا ایک ایک حرف بالکل واضح ہوتا تھا۔اس حدیث کو امام نسائی، ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح اور غریب ہے۔

مصطفى صادق الرافعي نے اپنی تحقیق "قراءة التلحين" میں قرآن کی تلاوت میں پیدا ہونے والی بدعات اور غلط طریقوں پر عمدہ بحث کی ہے۔ ان کے مطابق قرآن کی تلاوت اور ادائیگی میں جو چیز بدعت کے طور پر شامل کی گئی ہے، وہ یہ تلحین ہے جو آج تک جاری ہے، وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کو موسیقی کے انداز میں کرتے ہیں۔ اور اسے ایسے انداز میں پڑھتے ہیں جو موسیقی کے ترنم کی طرح ہوتا ہے، جو کہ خالصتاً گانا ہی ہے۔

اور ان کے نزدیک نغم کی اقسام میں لحن کی یہ نوعیتیں ہیں: 1 ۔ترعيد: اس میں قاری اپنی آواز کو لرزاتا ہے، جیسے وہ سردی یا درد سے کانپ رہا ہو۔

2۔ترقيص: قاری ساکن حرف پر توقف کرنے کے بعد اچانک حرکت دیتا ہے، جیسے وہ دوڑ رہا ہو یا جلدی کر رہا ہو۔

3. تطريب: قاری قرآن مجید کو ترنم کے ساتھ اور نغمے کی طرح پڑھتا ہے، جہاں وہ غیرِ مد کو کھینچتا ہے، اور اگر مقامِ مد ہو تو اس میں اور بھی اضافہ کرتا ہے۔

4. تحزين: قاری قرآن کو اس انداز میں پڑھتا ہے جیسے وہ غمگین ہو، اور اس میں خشوع اور خضوع کا اظہار کرتا ہے، جیسے وہ رونے کے قریب ہو۔

5. ترديد: قاری کے پیچھے سامعین ایک ساتھ ایک خاص لحن میں اس کی تلاوت کو دہراتے ہیں۔

آپ نے وضاحت کی ہے کہ قرآن مجید کی اصل تلاوت تین طریقوں پر مبنی ہونی چاہیے:

- تحقيق: ہر حرف کو اس کا پورا حق دینا، جیسا کہ علماء نے سکھایا ہے، ترتیل اور وقار کے ساتھ۔

- حدر: تلاوت تیزی سے کرنا لیکن اس کے اصولوں کی صحیح ادائیگی کے ساتھ۔

- تدوير: تحقيق اور حدر کے درمیان معتدل طریقہ۔

آپ اپنی کتاب میں تاریخی پس منظر بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری میں عبید اللہ بن أبي بكرة پہلے شخص تھے جنہوں نے تلاوت میں تلحين (موسیقی کے انداز میں پڑھنے) کی بنیاد رکھی، لیکن ان کی تلاوت غناء یا حداء (عرب کا روایتی گانا) کی اَوزان پر مبنی نہیں تھی۔ بعد میں، ان کے پوتے عبد اللہ بن عمر بن عبيد الله نے اس تلاوت کو مزید مقبول کیا، اور اس کو "قراءة ابن عمر" کہا گیا۔ پھر اباضی نے ان سے یہ قراءت لی پھر سعید بن العلاف اور اس کے بھائی نے الإباضی سے یہ تلاوت سیکھی۔ سعید اپنے زمانے میں اس تلاوت میں معروف پیشوا بن گیا؛ کیونکہ وہ ہارون الرشید کے قریب ہوا، اور اسے اس کی تلاوت پسند آئی۔ ہارون الرشید اس کی عزت کرتا تھا اور اسے عطیات دیتا تھا، یہاں تک کہ وہ لوگوں میں امیر المؤمنین کے قاری کے نام سے مشہور ہو گیا۔

اور اس کے بعد بعض قراء، جیسے الهيثم، أبان اور ابن أعين جو مجالس اور مساجد میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے وہ تلاوت میں غناء، حداء اور رہبانیت کے لحون کو شامل کیا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض قاری ایسے تھے جو ان چیزوں کو خفیہ طور پر تلاوت میں شامل کرتے تھے ، جبکہ کچھ لوگ کھلم کھلا۔ جیسے کہ ہیثم کی قراءت ﴿أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ﴾ میں، وہ "لمساكين" کی مد کو چھپا کر "لمسكين" کی طرح پڑھتے تھے، درحقیقت، اس کے صوتی انداز میں گانے کی حالت کا اثر موجود ہے، جیسا کہ شاعر کے قول میں ہے: '' أما العطاة فإني سوف أنعتها نعتًا يوافق عندي بعض مفيها"؛ یعنی: ما فيها.

ابن أعين اپنی تلاوت میں موسیقی کے لحون کا کچھ حصہ خفیہ طور پر شامل کیا کرتے تھے، اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ تیسری صدی ہجری میں الترمذي محمد بن سعيد کا دور آیا۔ اور اس وقت خلفاء اور امراء گانے کے دلدادہ ہو چکے تھے اور انہوں نے اس میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ محمد بن سعید نے قرآن کی تلاوت کو جدید گانوں کی طرز پر پڑھنا شروع کیا، اور اسی موسیقی کے انداز کو قرآن کی قراءت میں استعمال کیا۔

"جمال القراءة" کے مصنف نے بیان کیا کہ قرآن میں گانے کی طرز کا آغاز سب سے پہلے الهيثم نے آیت ﴿أَمَّا السَّفِينَةُ﴾ کی تلاوت میں کیا۔ غالباً یہی پہلا موقع تھا جب اس طرز کی تلاوت سامنے آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم یا تابعین کرام رحمہم اللہ کے دور میں ایسا کچھ بھی معروف نہیں تھا، سوائے اس کے جو امام ترمذی نے "الشمائل" میں روایت کیا ہے اور جس کی تفسیر میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ امام ترمذی نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے موقع پر ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، جب کہ آپ سورۃ الفتح کی تلاوت فرمایا رہے تھے: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا ۞ لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾۔ ابن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلاوت کی اور "ترجيع" کی، ابن مغفل رضی اللہ عنہ کے مطابق آپ ﷺ نے "آآآ" کہا، جس میں ہمزہ مفتوحہ اور اس کے بعد تین بار ساکن الف کی آواز تھی۔

اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترجيع وہ نہیں تھی جو غناء (گانے) میں ہوتی ہے۔اور  صحابہ اور تابعین میں ایسے افراد موجود تھے جو قرآن کی تلاوت کو بہترین طریقے سے ادا کرتے تھے، ان کی قراءت میں اتنی فصاحت اور خوبصورتی ہوتی کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے قرآن کو بالکل تازہ اور نیا سن رہے ہوں۔ ان کی زبان میں فطری فصاحت اور نبرات کی روانی ہوتی اور یہ زبان کی فطری لَے تھی، نہ کہ لحنِ قراءت کا کوئی فنی انداز ۔ بہت سے عرب قرآن پڑھتے تھے اور اپنی زبانوں کو اس طریقے سے نہیں روکتے تھے جس کے وہ عادی تھے، جیسے کہ شاعری کا ترنم، جو تلاوت میں خلل تو پیدا نہیں کرتا تھا، لیکن پڑھنے میں کچھ حد تک شاعری کی جھلک دیتا تھا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ شاعری کی اوزان ان کی فطرت میں رچی بسی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض کے بارے میں کہا گیا کہ وہ قرآن کو اس طرح پڑھتے تھے جیسے کہ وہ بدوؤں کا رجز (شاعری کی قسم) ہو۔ یہی ہمارے نزدیک اس بات کی اصل ہے کہ بعد میں شعری انداز سے ہٹ کر اسے گانے کے انداز میں پڑھنے کا رواج عام ہو گیا۔ خاص طور پر جب زندیقوں نے شاعری میں وہ انداز ایجاد کیا جسے "تغبیر" کہا جاتا ہے، جو اس سے پہلے شاعری کے انشاد (ترنم سے شاعری پڑھنا) میں معروف نہیں تھا۔ اس میں وہ شاعری کو لحن یعنی نغم کے ساتھ پڑھتے، خود محظوظ ہوتے، رقص کرتے اور شور مچاتے تھے۔ ایسے کرنے والوں کو "مغبرة" کہا جاتا تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: "مجھے لگتا ہے کہ زنادقہ نے تغبير کا یہ طریقہ اس لئے ایجاد کیا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت سے دور کر سکیں۔"

مختصر یہ کہ متعبد (عبادت کرنے والا) قرآن کے معانی کو عبادت کے انداز میں سمجھتا ہے جو اس کے الفاظ کی درست ادائیگی اور حروف کو اس مخصوص انداز میں ادا کرنے پر مبنی ہے جو قراءت کے آئمہ کرام سے منقول ہے اور نبی ﷺ سے متصل ہے۔ ملاحظہ کریں: کتاب "إعجاز القرآن" (ص: 44-45، ط. دار الكتاب العربي)۔

امام جلال الدین السيوطي نے اپنی کتاب *"الإتقان في علوم القرآن"* (1/ 344) میں قراءت کی مختلف کیفیات کے بارے میں ایک فصل قائم کی ہے، جس میں انہوں نے تین طریقوں کا ذکر کیا:

پہلا طریقہ تحقيق ہے: اس کا معنی ہے ہر حرف کو اس کا پورا حق دینا جیسے مد کو پوری طرح کھینچنا، ہمزہ کو صحیح طریقے سے ادا کرنا، حرکات کو مکمل کرنا، اظہار اور تشدیدات کو واضح کرنا ، اور انہیں سکت، ترتیل، اور ٹھہراؤ کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ کرنا۔ جائز وقف کا خیال رکھنا، بغیر قصر کے، بغیر اختلاس کے، بغیر حرکت والے کو ساکن کیے، اور بغیر ادغام کے۔ یہ زبان کی تربیت کرنے اور الفاظ کی اصلاح کے لیے ہوتا ہے۔ ۔ یہ طریقہ تعلیم کے دوران سکھانے کے لیے بہترین ہے، لیکن اس میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے کہ حروف کو غیر ضروری طور پر طول دینا، راء میں تکرار کرنا، یا نون کی غنہ کو ضرورت سے زیادہ بڑھا دینا ۔ جیسا کہ حمزہ نے اس شخص سے کہا جو اس میں مبالغہ کر رہا تھا: جو حد سے زیادہ سفیدی ہوتی ہے، وہ برص ہوتی ہے، اور جو حد سے زیادہ جمود ہوتا ہے، وہ خشکی ہوتی ہے، اور جو حد سے بڑھ جائے وہ قراءت نہیں ہوتی۔"

اسی طرح، قراءت میں کلمے کے درمیان حروف میں فصل سے بھی بچنا چاہیے، جیسے کہ اگر کوئی شخص "نَسْتَعِينُ" کی "تاء" پر مختصر وقف کرے اور دعویٰ کرے کہ وہ تر تیل سے پڑھ رہا ہے۔ یہ قراءت کا طریقہ حمزہ کا مذہب ہے، جس کے بارے میں الداني نے اپنی کتاب "تجوید" میں أُبَي بن كعب رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے: انہوں (أُبَي بن كعب رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تحقیق کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلات کی'' اور مصنف نے اس روایت کو "غریب مستقیم الإسناد" قرار دیا ہے۔

دوسری قسم: "حَدْر" ہے، ( حاء کی زبر اور دال کے سکون کے ساتھ )۔ اس سے مراد تیزی سے تلاوت کرنا اور اس میں قصر، تسکین، اختلاس، بدل، ادغام کبیر کے ساتھ تخفیف کرنے اور ہمزہ میں تخفیف کرنے جیسے اصول شامل ہیں، جو معتبر روایت سے ثابت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اعراب کو درست رکھنا، الفاظ کو صحیح ادا کرنا اور حروف کو اس طرح مضبوطی سے ادا کرنا بھی ضروری ہے کہ حروف مد کو کاٹا نہ کیا جائے، اکثر حرکات کو حذف نہ کیا جائے، غنہ کی آواز ختم نہ ہو، اور اس قدر تخفیف نہ ہو کہ جس سے قراءت صحیح نہ رہے اور تلاوت کا وصف نہ باقی رہے۔ یہ ابن کثیر، ابو جعفر، اور ابو عمرو و یعقوب جیسے علما کا ہے، جنہوں نے مدِ منفصل میں قصر کیا۔

تیسری قسم: "تدویر" ہے، جو کہ تحقیق اور حدر کا درمیانی مقام ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو زیادہ تر ان آئمہ سے منقول ہے، جنہوں نے مدِ منفصل کو لمبا کیا ہے، لیکن اس میں حدِ اشباع تک نہیں پہنچے۔ یہ طریقہ اکثر قراء کا ہے اور اہلِ قراءت میں سے زیادہ تر کے نزدیک پسندیدہ ہے۔بعد میں ترتیل کی تلاوت میں استحباب اور اس کی وضاحت آئے گی، اور کچھ علماء کے مطابق تحقیق اور ترتیل میں فرق یہ ہے کہ تحقیق تعلیم دینے، مشق کرنے اور تربیت کے لیے ہوتی ہے، جبکہ ترتیل غور وفکر اور استنباط کے لیے ہے۔ لہٰذا ہر تحقیق ترتیل ہے، لیکن ہر ترتیل تحقیق نہیں۔

پھر مصنف نے تجوید قرآن میں ایک اور فصل بیان کی ہے، جس میں فرماتے ہیں: "قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنا بہت اہم ہے۔ اس موضوع پر بہت سے علماء نے کتابیں لکھی ہیں، جن میں امام دانی اور دیگر شامل ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: "جودوا القرآن" 'قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھو۔'"

قراء نے کہا ہے کہ تجوید، قراءت کی زینت ہے، اور اس کا مطلب ہے حروف کو ان کے حقوق اور ترتیب کے مطابق ادا کرنا، اور ہر حرف کو اس کے مخرج اور اصل کی طرف لوٹانا، اور نطق میں لطافت کے ساتھ ادا کرنا جس میں کسی قسم کا اسراف، تعسف، افراط، یا تکلف نہ ہو۔ ۔ اس کی طرف نبی ﷺ نے بھی اشارہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص چاہتا ہے کہ وہ قرآن کو تازگی کے ساتھ پڑھے جیسے کہ یہ نازل ہوا ہے، اسے چاہیے کہ قرآن کو ابن ام عبد (یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ) کی قراءت پر پڑھے۔"

بغیر تجوید کے قرآن کی تلاوت کو علماء نے لحن (غلطی) قرار دیا ہے، اور پھر لحن کو جلی اور خفی میں تقسیم کیا ہے۔ لحن وہ خلل ہے جو الفاظ پر طاری ہوتا ہے اور ان میں خلل پیدا کرتا ہے ، تاہم، لحن جلی واضح اور ظاہر خلل پیدا کرتا ہے، جس کی پہچان علماء قراءت اور دیگر لوگ بھی کر سکتے ہیں، اور یہ اعراب میں غلطی کرنا ہے۔ لحن خفی ایسا خلل پیدا کرتا ہے جس کی پہچان صرف علماء القراءة اور آئمہ الأداء کو ہوتی ہے، جنہوں نے اس علم کو علماء سے سنا اور ضبط کیا ہے۔ ابن الجزری نے فرمایا: میں تجوید میں کمال تک پہنچنے کے لیے زبان کی مشق اور ان الفاظ کو بار بار دہرانے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں جانتا، جو کسی ماہر قاری کے منہ سے سنے ہوں۔ اس کی بنیاد وقف، امالہ، ادغام کی کیفیت پر  اور ہمزہ کے احکام، ترقیق، تنغیم، اور مخارج حروف کے احکام مبنی ہوتی ہے۔

ہمارے لیے یہی ایک نقلی دلیل کافی ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن کی تلاوت میں یہ ضروری ہے کہ ہم اس طریقے کی طرف رجوع کریں جو نبی ﷺ، آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں رائج تھا۔ اس میں نہ تو کوئی ترجیع تھی اور نہ ہی کوئی غناء۔ اگر مسلمان پہلی صدی ہجری کے بعد تلاوت کے اس طریقے سے ہٹ گئے ہیں تو یہ قرآن کی قراءت میں میں بدعت سمجھی جائے گی، یعنی ایسی چیز میں بدعت جس کا اللہ کی اس کتاب کے ساتھ براہِ راست اور  گہرا تعلق ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وحی کے ذریعے سے سنا اور پڑھا۔ اور اسی طرح اپنے صحابہ کو پڑھ کر سنائی۔ یہ بدعت جو کہ زندیقوں نے ایجاد کی، اس کا مقصد لوگوں کو اللہ کی یاد سے اور قرآن مجید کی اس قراءت سے دور کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قراءت ہے، یہ ایک خطرناک بدعت ہے؛ کیونکہ اللہ نے جب ہمیں قرآن کے معانی کو سمجھنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، ساتھ ہی قرآنِ مجید کے الفاظ کو درست ادا کرنے اور حروف کو اسی طرح ادا کا بھی حکم دیا گیا ہے جیسے انہیں علماء نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیا کیا۔ اگر یہ علماء کا نظریہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کو لحن، گانے اور طرب کی صورت میں پڑھنا منع اور حرام ہے، تو یہ بھی قطعی اور یقینی بات ہے کہ قرآن کو موسیقی کی دھنوں پر پڑھنا اور اسے موسیقی کے آلات کے ساتھ پڑھنا بھی حرام ہے، جیسے کہ یہ لوگ قصائد اور نغموں میں کرتے ہیں۔ اگر ہم محقیقین علماء اور قاریوں کے اقوال کو چھوڑ بھی دیں، تو بھی تحقیق ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ قرآن کو گانے کے انداز میں پڑھنے، اسے موسیقی کے ساتھ ترنم دینے، اور قاریوں کی طرف سے اسے موسیقی کے آلات کے ساتھ لوگوں کو سنانے کو منع کیا جائے، اور اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہر اُس شخص کو منع کیا جائے جو مسلمانوں کو ان کی مقدس کتاب کے بارے میں فتنہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس کے جلال، احترام، اور تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے وہ پوری شدت سے کوشاں ہیں۔ قرآنِ مجید رب العالمین کا کلام ہے، اللہ نے اسے اپنے رسول ﷺ پر لوگوں کے لیے ہدایت نازل کیا ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے اور اس میں ہدایت کیلئے واضح نشانیاں ہیں، اور اللہ نے اسے اس لیے نازل نہیں کیا کہ لوگ اس کے ساتھ محظوظ ہوں یا اس پر گانے بجانے کی طرح گائیں، جیسا کہ وہ انسانوں کے کلام کے ساتھ کرتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کو اس کی معانی کو سمجھنے، اس میں موجود عبرتوں اور آداب پر غور کرنے اور اس کے تمام احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو تقدس اور احترام کے ساتھ دیکھنا چاہئے، اور جو بھی عمل اسے اس مقصد سے ہٹاے، وہ دین میں ناقابل قبول ہے۔

قرآن کا یہ حق ہے کہ اسے سکون اور احترام کے ماحول میں سننا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرۡءَانُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ "اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے" [الأعراف: 204]۔ قرآن کا سننا اگر گانوں کی طرح ہو تو یہ اسے تفریح اور لہو کا ایک ذریعہ بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے سامع اپنی لذت اور طرب کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور قرآن کے اصل مقصدِ نزول -یعنی انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی- سے دور ہو جاتا ہے۔ پس جب یہ بات مسلم ہے کہ بات ہر موقع ومحل کی مناسبت سے ہونی چاہیے، اور ہر مجلس کا ماحول اسی کی مناسبت سے ہوتا ہے، تو رشد وہدایت کی مجالس لہو و لعب کی مجالس سے مختلف ہوتی ہیں۔ لہذا، ہمیں قرآنِ مجید کو ذریعہ ہدایت کی بجائے تفریح اور طرب کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے۔ اور شاید سب سے بڑا ثبوت ان دونوں مجالس کے درمیان فرق کا وہ منظر ہے جو ہم آج کل ان جگہوں پر دیکھتے ہیں جہاں لوگ کسی قاری کی تلاوت قرآن سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور ان جگہوں پر جہاں لوگ کسی گلوکار یا گلوکارہ کو سننے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں؛ پس مجلسِ قرآن میں لوگ اپنے کان اور دل کھول کر، خشوع، خضوع اور مجلسِ قرآن کے احترام کے ساتھ بیٹھتے ہیں تاکہ قرآن کے معانی کو سمجھ سکیں، جبکہ مجلسِ غناء میں وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، شور مچاتے ہیں، اور ان کی آوازیں تحسین کے اظہار میں بلند ہو جاتی ہیں، بار بار گانے کی فرمائش کرتے ہیں اور تکرار کی درخواست کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو ان کے وقار اور سکینت کی حدود سے نکل جانے کا احساس دلاتی ہیں، اور انہیں گانے اور سُرور کی مستلزمات کی طرف لے جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ، موسیقی کے ساتھ پڑھا جانے والا قرآن وہ قرآن نہیں جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا ہے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیا ہے اور جس کی تلاوت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اگر سابقہ آسمانی ادیان والوں نے اللہ کی نازل کردہ ان کتابوں میں تحریف اور تبدیلی کی، جو اللہ تعالی نے ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل کی تھیں، تو اگر ہم قرآن کو موسیقی کے لحن کے ساتھ جائز قرار دیں اور اسے آلات موسیقی کے ساتھ سننے کی اجازت دے دیں، تو بلا شبہ ہم بھی اسی غلطی میں مبتلا ہوں گے جو انہوں نے کی تھی، اور اس طرح ہم اللہ کے کتاب میں تحریف اور تبدیلی کے مرتکب ہو جائیں گے۔جس سے دین کاضیاع اور مسلمانوں کی بربادی ہے۔ اور مسلمانوں کے علماء مفکرین اور استقامتِ دین کے خواہاں لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ایک فیصلہ کن موقف اختیار کریں اور ہر اُس شخص کو منع کریں جو قرآن کو موسیقی کے انداز میں پڑھنے یا اسے کسی قصیدے کی طرح گانے کی سوچتا ہے، تاکہ وہ اپنے مقدس کتاب کو آنے والے ہر قسم کے شر سے بچا سکیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھیں:  ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ "بیشک، ہم نے ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔" [الحجر: 9]، اور  ﴿وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾"اور جب ہماری واضح آیات ان پر تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں: 'اس کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اسے بدل دو۔' آپ کہہ دیجئے: 'میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔ میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ [يونس: 16]۔

قرآن کی کتابت امرِ توقیفی ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا جائز نہیں ۔ امام مالک سے پوچھا گیا: کیا قرآنِ مجید کو لوگوں کے جدید ہجاؤں (حروف) کے مطابق لکھنا جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا: (کوئی کتابت جائز) نہیں، سوائے پہلی کتابت کے۔ یہ بات الدانی نے "المقنع" میں نقل کی ہے اور انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں امت کا کوئی عالم اختلاف نہیں رکھتا۔

ایک اور مقام پر امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا قرآن کریم کے حروف، جیسے کہ واو اور الف، میں تبدیلی کی جا سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ ابو عمرو نے کہا: آپ کا مطلب تھا کہ (الواو والألف المزيدتين في الرسم الممدودتين في اللفظ )وہ الف اور واو جو تحریری شکل میں اضافی ہیں اور لفط میں ممدود ہیں) جیسے کہ اُولُوا میں ہے۔

امام احمد نے فرمایا: قرآنِ مجید کے واو، یاء، الف وغیرہ میں خطِ عثمانی کی مخالفت کرنا حرام ہے۔

امام بیہقی نے "شعب الإيمان" میں فرمایا: "جو شخص قرآنِ مجید لکھے، اسے چاہیے کہ وہ ان مصاحف کے ہجاؤں کی پاسداری کرے، جن پرصحابہ کرام اور آئمہ قراءت نے لکھا ہے، اور ان میں کوئی تبدیلی نہ کرے، کیونکہ وہ ہم سے زیادہ علم والے، صاف دل، زبان کے سچے اور زیادہ امانت دار تھے۔ ہمیں یہ گمان نہیں ہونا چاہیے وہ غلطی پر اور ہم صحیح سمجھے ہیں۔" امام سیوطی نے، اپنی کتاب "الإتقان في علوم القرآن" میں سابقہ اقوال نقل کرنے کے بعد فرمایا: "میں کہتا ہوں کہ رسم (قرآنی خط) کے قواعد چھ اصولوں میں محدود ہیں: حذف، زیادت، ہمزہ، بدل، وصل، فصل، اور وہ مقامات جہاں دو قراءتیں ہیں تو ایک قراءت کے مطابق لکھا گیا ہے۔ پھر انہوں نے ان قواعد کے احکام ذکر کیے، اور آپ ان کو ان کی کتاب میں مدون پائیں گے۔ الاتقان في علوم القرآن ملاحظہ کریں۔

اوپر بیان کردہ امور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصحف کے رسمِ کتابت کو علماء نے قبول کیا اور اس کی حفاظت کی، اور انہوں نے اس کے خلاف جانے کو ناپسند کیا اور مصحفِ عثمان کے رسم الخط کی مخالفت کو حرام قرار دیا۔ اور اگر مصحف کی کتابت میں املا کے قواعد مخالفت کرنا حرام ہے، تو اسے تصاویر کے ساتھ لکھنا بدرجہ اولی منع ہوگا۔جس نے مصحفِ عثمان کے رسم الخط میں تبدیلی کو حرام قرار دیا، وہ اس بات کو بھی حرام قرار دیتا ہے کہ مصحف کو اس کے قصص کی وضاحت کے لیے تصاویر کے ساتھ لکھا جائے۔ دوسری جانب، مصحف کے ساتھ تصویری وضاحت کی اجازت دینے سے ایسے مفاسد پیدا ہوں گے جن کا روکا جانا ضروری ہے، مثلاً سیدنا یوسف کی کہانی کی تصویر کشی کا مطلب یہ ہوگا کہ بعض افراد ایسی تصاویر بنائیں گے جو مقام نبوت کے شایان شان نہیں ہوں گی، جو کہ مقدس اور محترم مقام ہے، اور انبیاء کے مقام کی بے ادبی تمام علماء کے نزدیک حرام ہے۔ اسی طرح حضرت آدم اور حضرت حوا کی کہانی کی تصویر کشی، ان کا جنت سے نکلنا، زمین پر اترنا، اور ان کی ستر کا عیاں ہونا ایسی باتیں ہیں جو نہ مناسب ہیں اور نہ ہی درست ہیں۔

تو مسلمانوں کو رب العالمین کے اس کلام کی بے ادبی کرنے سے فائدہ ہی کیا ہے، یہ تو ایسا کلام ہے جس کی طرف نہ آگے سے باطل آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے، اور حکیم اور لائقِ حمد ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔

ہر اس شخص کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے جو مصحف کی تصویر کشی کو جائز قرار دینے کا سوچتا ہے؛ کیونکہ جب تک مسلمان اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کرتے رہیں گے، تو خیریت میں رہیں گے اور اگر انہوں نے اس کی حفاظت میں غفلت برتی تو ان کے حالات نہت برے  ہو جائیں گے۔ لہذا، ہمارے نزدیک کسی بھی صورت میں مصحف کی طباعت میں کوئی تبدیلی کرنا یا تصاویر شامل کرنا جائز نہیں ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas