اسراء ومعراج میں نبی ﷺ کا سفر فرشتوں کے پروں پر نہ ہونے کی حکمت
Question
اس میں کیا حکمت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اسراء ومعراج کا سفر براق پر کرایا گیا ، نہ کہ فرشتوں کے پروں پر ؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ نبی اکرم ﷺ کے سفرِ اسراء (مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر) میں براق پر سوار ہونے کی حکمت یہ تھی کہ آپ ﷺ راستے میں اللہ تعالی کی ان نشانیوں کا مشاہدہ کر سکیں جو آپ ﷺ کو اس مبارک سفر میں دکھائی گئیں۔ یہ سفر نہ تو فرشتوں کے پروں پر تھا، جیسے پہلے انبیاء کے لیے ہوتا تھا، نہ ہوا پر، جیسے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے لیے، اور نہ ہی زمان و مکان کو سمیٹ کر، جیسے اولیاء کے لیے ہوتا ہے۔بلکہ یہ سفر براق پر تھا تاکہ یہ سفر حیرت انگیز بن جاے (کہ کیسے چھوٹے سے جانور پر اتنی جلدی اس قدر طویل سفر طے کیا) اور اگر آپ ﷺ فرشتوں کے پروں پر سوار ہوتے، یا ہوا آپ ﷺ کو اٹھاتی یا طی زمانی کے ذریعے آپ ﷺ یہ طویل مسافت طے کرتے تو اس میں اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی کہ ایک چھوٹے سے جانور یعنی براق کے ذریعے سے کرنے سے حیرت ہوتی ہے، فرشتوں نے خصوصاً آپ ﷺ کو اپنے پروں پر لے جانے سے زیادہ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کی وہ اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے براق کی رکاب سیدنا جبریل علیہ السلام نے تھامی اور اس کی لگام پکڑنے والے سیدنا میکائیل علیہ السلام تھے، اور یہ دونوں حضرات سب سے بڑے فرشتے ہیں، اس طرح نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں براق کی سواری اور فرشتوں کی خدمت دونوں جمع کر دی گئیں، یہ دونوں عوامل آپ ﷺ کی تعظیم اور شرف کا اعلی اظہار تھے۔
اور نبی اکرم ﷺ کا سفرِ معراج بھی فرشتوں کے پروں پر نہیں تھا جیسا کہ دوسرے انبیاء کے ساتھ ہوتا تھا، اس میں حکمت حیرت انگیز پہلو کو متضمن تھی وہ یہ کہ سفرِ معراج کی سیڑھیاں ایک کے بعد ایک خود ہی نیچے ہوتی گئیں اور نبی اکرم ﷺ جیسے ہی اس پر قدم مبارک رکھتے، وہ آپ ﷺ کو اپنے مقام تک لے جاتی تھیں۔ اس طرح آپ ﷺ نے یہ فاصلہ پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں طے کر لیا۔ اس مبارک سفر میں سیدنا جبریل علیہ السلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے ہمراہ تھے تاکہ آپ ﷺ کو انسیت ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی تعظیم اور شرف میں مزید اضافہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.