اس شبہ کا جواب کہ نبی ﷺ کا اپنے رب ...

Egypt's Dar Al-Ifta

اس شبہ کا جواب کہ نبی ﷺ کا اپنے رب سے نمازوں کی تعداد میں کمی کی درخواست کرنے میں قول کی تبدیلی ہے۔

Question

ہماری گزارش ہے کہ ان لوگوں کو جواب دیں جو یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا نمازوں کی تعداد کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے بار بار عرض کرنا اللہ کے قول میں تبدیلی  کروانا ہے، جبکہ اللہ رب العزت نے فرمایا: ﴿مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ﴾  ترجمہ: میرے ہاں کی بات بدلی نہیں جاتی اور نہ ہی میں بندوں کے لیے ظالم ہوں۔ (سورہ ق، آیت 29)، نیز، اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ہمارے رسولِ کریم سیدنا محمد ﷺ پر ایک قسم کی وصایت (نگرانی یا سرپرستی) کا بھی مفہوم پایا جا رہا ہے۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛  نبی کریم ﷺ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جانا اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا نبی کریم ﷺ سے یہ کہنا کہ اپنے رب سے نمازوں کی تعداد میں کمی کی درخواست کریں، اور پھر نمازوں کی تعداد کو کم کر کے پانچ کر دیا جانا، یہ سب فرضیت کے قطعی ہو جانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اور یہ سب ازل سے اللہ کے ہاں لکھا ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ان نمازوں کو عبادت میں پانچ اور اجر میں پچاس  کے برابر کرنا، اللہ تعالی کی اپنے نیک بندوں پر رحمت کا اظہار ہے۔ نیز، اللہ تعالیٰ سے بار بار رجوع کرنا نبی کریم ﷺ کے مقام کو کم نہیں کرتا، بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے ساتھ اپنی معیت وصحبت کو مزید طول دینا چاہتے تھے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا: ﴿قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى﴾  ترجمہ: کہا یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں۔ (سورہ طہ، آیت 18)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے درمیان جو گفتگو ہوئی، وہ نصیحت کے طور پر تھی، نہ کہ کسی وصایت (نگرانی یا سرپرستی)  کے طور پر۔  امام قرطبی نے اپنی کتاب "المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم" (جلد 1، صفحہ 392) میں فرمایا: ’’جہاں تک حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو نمازوں کی تعداد میں تخفیف کے لیے اللہ تعالی سے رجوع کرنے کا مشورہ دینے کا تعلق ہے، تو شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی امت پر اتنی زیادہ نمازیں فرض کی گئی تھیں، جتنی دوسری امتوں پر نہیں کی گئی تھیں، اور یہ ان پر بوجھ بن گئی تھیں۔ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو خوف ہوا کہ کہیں امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم پر بھی ایسا ہی بوجھ نہ آجائے۔ اس بات کا اشارہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے اس قول سے ملتا ہے: "إِنِّي قَد جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ"’میں نے آپ  ﷺ سے پہلے لوگوں کو آزمایا ہے‘۔"

حافظ ابن حجر نے "فتح الباري" (جلد 7، صفحہ 212، دار المعرفة) میں فرمایا: ’’یہ اس پہلو سے ہو سکتا ہے کہ سابقہ انبیاء  کرام علیہم الصلاۃ والسلام میں حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے زیادہ پیروکار کسی کے نہیں تھے، اور نہ ہی کسی کو ملنے والی کتاب حضرت موسیٰ کی کتاب جتنی بڑی اور احکام کی جامع  تھی ۔ اس لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے مماثلت رکھتے ہیں، اس لئےہ مناسب تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو یہ تمنا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو بھی وہی نعمتیں ملیں جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو عطا کی گئیں، بغیر اس کے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام  سے یہ نعمت زائل ہوئے۔ اور یہ بھی مناسب تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو اپنے حالات سے آگاہ کریں اور ان کو نصیحت کریں‘‘۔ مذکورہ باتوں سے سوال میں مذکور شبہ کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas