موت کے وقت ارواح قبض کیے جانے سے متعلق آیات کے مابین ہم آہنگی اور تطبیق
Question
سائل کہتا ہے: میں قرآنِ کریم میں دیکھتا ہوں کہ بعض آیات میں اللہ عزوجل نے مخلوق کی وفات کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے، کچھ آیات میں ملک الموت کی طرف اور بعض میں ملک الموت کے معاونین کی طرف۔ ان آیات کے درمیان تطبیق کیسے کی جا سکتی ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ حقیقت میں ارواح کو قبض کرنے والا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ﴾ ’’کہہ دیجئے، اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میں شک میں ہو تو میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں وفات دیتا ہے۔‘‘(سورۃ یونس: 104)
اس آیت میں وفات دینے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو پیدا کیا اور اسے ارواح قبض کرنے پر مقرر کیا؛ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾ ’’کہہ دیجئے ، تمہیں وفات دیتا ہے ملک الموت جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘(سورۃ السجدہ: 11)
اور اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کے لیے معاونین (فرشتے) بھی پیدا کیے ہیں، اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: ﴿حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾ ’’یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے، تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ (سورۃ الانعام: 61)
عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ نے "التفسیر" میں ابراہیم نخعی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا﴾ کے بارے میں بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: (معاون) فرشتے ارواح کو قبض کرتے ہیں، پھر انہیں ملک الموت کے حوالے کر دیتے ہیں۔
امام رازی نے اپنی کتاب (مفاتیح الغیب 13/15، ط. دار احیاء التراث العربي) میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: [﴿اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا﴾’’ اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے ‘‘ (سورۃ الزمر: 42) اور: ﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ﴾’’وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ الملک: 2)] یہ دونوں نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ارواح صرف اللہ قبض کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ المَوْتِ﴾’’کہہ دو دیجئے تمہیں وفات دیتا ہے ملک الموت۔‘‘ (سورۃ السجدہ: 11) یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ وفات کا عمل ملک الموت کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا﴾’’ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الانعام: 61) یہ تینوں نصوص بظاہر ایک دوسرے سے متناقض لگتی ہیں، لیکن جواب یہ ہے کہ روح کی وفات در حقیقت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتی ہے، لیکن اس کا ظاہری عمل ملک الموت کے حوالے کیا گیا ہے، جو اس کام کا سربراہ ہے اور انہیں اللہ تعالی نے معاونین و خدمت گار بھی عطا کئے ہیں۔ اس لیے مختلف اعتبار سے ان تینوں کی طرف وفات دینے کی نسبت کرنا درست ہے۔ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔
اس وضاحت سوال کا جواب معلوم ہو جاتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.