اشیاء کی تشہیر اور فروخت کے لیے الیکٹرانک پلیٹ فارم بنانے کا حکم
Question
کیا مصنوعات کی تشہیر اور فروخت کے لیے ایک آن لائن پلیٹ فارم بنانا جائز ہے؟ ایک کمپنی الیکٹرانک پلیٹ فارمز ڈیزائن کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور مصنوعات کی نمائش اور فروخت کیلئےای کامرس پلیٹ فارم تیار کرتی ہے ، یہ کسی ایسی کمپنی کے لیے تیار کرتی ہے جس نے اپنی ذاتی آن لائن مارکیٹ لانچ کی ہو، معاہدے کے تحت کمپنی پلیٹ فارم کی ترقی اور اس کے آپریشن - جیسا کہ گاہک کو مناسب لگے - کے لیے ضروری ٹیکنالوجی فراہم کرے گی، جبکہ اس (بنانے والی کمپنی) کا کردار صرف تکنیکی پہلوؤں تک محدود ہوتا ہے، جیسے: سافٹ ویئر ڈھانچے کا ڈیزائن، یوزر انٹرفیس، مواد کی مینجمنٹ کے ٹولز، اور ای-ٹرانزیکشن سسٹم کا قیام، پھر بعد میں کلائنٹ کی درخواست پر سافٹ ویئر کی مزید ترقی اور ترمیم۔ کمپنی کو ان مصنوعات کی نوعیت کا کچھ علم نہیں ہوتا جو پلیٹ فارم پر پیش کی جاتی ہیں۔
یہ پلیٹ فارم محض ایک انٹرفیس ہے جہاں ہزاروں بیچنے والے اپنی مصنوعات اور سامان کی نمائش کرتے ہیں، اور ان بیچنے والوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس پلیٹ فارم کے اندر اپنے اکاونٹ میں حرام مصنوعات دکھاتے ہیں، جبکہ سافٹ ویئر کمپنی کو ان مصنوعات کے انتخاب، انتظام، یا ترسیل اور ذخیرہ جیسے امور پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اس کا کردار صرف کلائنٹ کی درخواست کے مطابق سافٹ ویئر کو ڈویلپ کرنا، وقتِ مقرر پر سافٹ ویئر فراہم کرنا اور پلیٹ فارم کو ٹیکنیکل امور میں معاونت فراہم کرنا ہے تاکہ سسٹم کو بہتر طریقے سے چلایا جا سکے اور کسی بھی ہنگامی تکنیکی مسائل کو حل کیا جا سکے۔
تو کیا اس معاملے میں کمپنی کے انجام دیے جانے والے کاموں میں کوئی شرعی مخالفت ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
لوگوں کے مابین مالی معاملات مشروع کرنے کا مقصد
شریعت میں مالی معاملات کو مخلوق کے مفاد کے حصول اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے مشروع کیا گیا ہے اور یہ شریعت کے ان أوامر ونواہی کے دائرے میں ہے جو معاملات میں ہر فریق کیلئے حصولِ منفعت میں انصاف کو یقینی بناتے ہیں، اور ان چیزوں کو روکتے ہیں جو فریقین کے درمیان جھگڑے، اختلاف اور نزاع کا سبب بنتی ہیں، اس لئے کہ تنازعات ختم کرنا ایک ضرورت ہے کیونکہ وہ فتنہ اور فساد کا باعث بنتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو اصلاً جائز قرار دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں فرمایا: ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ یعنی: اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔ [البقرة: 275]۔ پس اللہ تعالیٰ نے جنسِ بیع کو حلال قرار دیا اور اس حلالیت کا اطلاق تمام اقسام کی خرید و فروخت پر ہوتا ہے سوائے ان بیوع کے جنہیں شریعتِ مطہرہ نے حرام قرار دے کر اسے اصل حکم سے مستثنی کر دیا ہے، جیسے ربا یا دیگر حرام اشیاء پر مشتمل بیع۔
سوال میں پوچھے گئے معاملے کا حکم
جو کام یہ کمپنی کر رہی ہے یہ جدید مالی معاملات کی صورتوں میں سے ایک ہے ، اور اس کمپنی کی وضاحت کے مطابق یہ معاملہ دو امور پر مشتمل ہے:
پہلا: الیکٹرانک پلیٹ فارم کا ڈیزائن تیار کرنا اور اسے کسی مخصوص کلائنٹ کو فروخت کرنا۔
دوسرا: پلیٹ فارم کے ٹیکنیکل سسٹم کو فنی مدد فراہم کرنا تاکہ سسٹم کی کارکردگی بہتر رہے اور کسی بھی تکنیکی مسائل کو حل کیا جا سکے۔
جہاں تک پلیٹ فارم کے ڈیزائن تیار کرنے اور مخصوص کلائنٹ کو فروخت کرنے کی بات ہے، تو یہ اپنی اصل میں جائز اور صحیح ہے بشرطیکہ بیع کے تمام ارکان مکمل ہوں، یعنی: معاہدہ کرنے والے فریقین اور معاہدہ والی چیز ، اور معاہدے کا صیغہ۔ اس کے علاوہ، اس میں ضروری شرائط بھی پوری ہونی چاہئیں جیسے: معاہدہ کرنے والے فریقین کی اہلیت اور ان کی رضامندی، معاہدہ شدہ چیز کا قابل استعمال ہونا، اس کی حوالگی ممکن ہونا، ملکیت میں ہونا اور معلوم اور متعین ہونا جس میں کوئی ابہام نہ رہے، فریقین کے درمیان ایجاب و قبول کا پایا جانا، اور ہر ایسی چیز سے پاک ہونا جو معاہدے کو فاسد یا باطل کر دینے والی ہو، جیسے غرر ونقصان، تنازع کا باعث بننے والی لا علمی، یا غیر معمولی دھوکہ دہی۔
شرعاً یہ مسلم ہے کہ اگر بیچنے والے کو پہلے ہی یہ علم ہو کہ خریدار فروخت شدہ چیز کو شرعاً کسی ممنوع کام میں استعمال کرے گا تو اسے بیچنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ "جو چیز حرام کا سبب بنے، وہ بھی حرام ہوتی ہے"۔ تاہم، اگر بیچنے والے کو یہ علم نہ ہو اور بیچی جانے والی چیز ایسی ہو جس کا استعمال جائز بھی ہو سکتا ہو اور وہ ممنوع استعمال میں بھی آ سکتی ہو تو اسے بیچنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر بیع کے بعد بیچنے والے کو یہ علم ہو جائے کہ خریدار نے بیچی گئی چیز کو شرعاً ممنوع کام میں استعمال کیا ہے، تو بیچنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی بیع حرام ہوگی؛ کیونکہ گناہ بیچی گئی چیز کی ذات پر قائم نہیں بلکہ خریدار کے شرعاً ممنوعہ استعمال سے ہو رہا ہے، اس لیے حرام محض استعمال ہوگا، نہ کہ اس کی خرید و فروخت کا معاملہ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ﴾ ترجمہ: اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے، اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔[الأنعام: 164]۔
امام فخرالدین رازی نے اپنی کتاب "مفاتیح الغیب" (14/ 192، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کا بوجھ گناہ کرنے والے پر ہوتا ہے نہ کہ کسی اور پر، ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾، یعنی کوئی گناہ گار شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاۓ گا۔"
اس پر فقہاء کی نصوص موجود ہیں:
علامہ فخرالدین الزیلاعی نے اپنی کتاب "تبیین الحقائق" (3/ 297، ط. المطبعة الأميرية) میں فرمایا: وہ لکڑی جس سے موسیقی کے آلات بنائے جاتے ہیں اس کا بیچنا مکروہ نہیں ہے؛ کیونکہ عینِ لکڑی میں کوئی معصیت نہیں ہے، اسی طرح گانے والی لونڈی، سینگوں والے بکرے، لڑنے والے مرغے اور اڑنے والی کبوتر کا بیچنا بھی مکروہ نہیں ہے؛ کیونکہ ان چیزوں کی ذات میں کوئی برائی نہیں، برائی ان کے ممنوع استعمال میں ہے۔
علامہ ابو العباس صاوی مالکی نے اپنی کتاب "حاشیہ علی الشرح الصغیر" (3/ 20، ط. دار المعارف) میں فرمایا: ہر ایسی چیز کا بیچنا منع ہے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ خریدار اس سے ناجائز کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اور امام نووی شافعی نے اپنی کتاب "منہاج الطالبین" (ص: 98، ط. دار الفكر) میں فرمایا: وہ چیز بھی بیچنا ممنوع ہے جو خود تو باطل نہ ہو لیکن اس کے پیچھے کوئی حرام مقصد ہو، جیسے کہ شہری کا دیہاتی سے خریدنا۔۔۔ یا شراب بنانے والے کو انگور اور کھجور بیچنا۔
امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی نے اپنی کتاب "المغنی" (4/ 168، ط. مكتبة القاهرة) میں فرمایا: وہ بیع حرام اور باطل ہوتی ہے کہ جب بیچنے والے کو خریدار کے برے کا مقصد علم ہو، چاہے وہ خریدار کے کہنے سے معلوم ہو یا اس پر دلالت کرنے والے قرائن اور علامات سے۔"
جن چیزوں کے استعمالات متعدد ہوں، اور بیچنے والے کو علم نہ ہو کہ خریدار ان چیزوں کو شرعاً ممنوعہ کاموں میں استعمال کرے گا انہیں بیچنے کے جواز پر دلیل یہ ہے کہ اشیاء اور اعیان (عین کی جمع) اصولاً "وضع" کے باب میں آتی ہیں نہ کہ "تکلیف" کے باب میں۔ اس لیے ان کا تعلق اسباب، موانع، شرائط اور علل کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جہاں تک جائز ہونے یا نا جائز ہونے کا تعلق ہے، تو یہ حکم اشیاء اور اعیان سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اس فعل سے متعلق ہوتا ہے جو مکلف انسان ان چیزوں کے استعمال سے کرتا ہے۔
امام غزالی نے اپنی کتاب "المستصفی" (ص: 23، ط. دار الكتب العلمية) میں تکلیفی احکام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: یقیناً ان الفاظ کا اطلاق جوہر پر نہیں بلکہ عَرَض پر ہوتا ہے، اور ہر عرض پر نہیں بلکہ ان میں سے اَفعال پر ہوتا ہے، اور اَفعال میں بھی صرف مکلفین کے افعال پر ہوتا ہے، جانوروں کے افعال پر نہیں۔
اور جہاں تک ٹیکنیکل پلیٹ فارم کو فنی معاونت فراہم کرنے کا تعلق ہے تاکہ سسٹم کی کارکردگی بہتر رہے اور کسی بھی تکنیکی مسائل کو حل کیا جا سکے، تو یہ پلیٹ فارم کی معیار اور حفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے تاکہ وہ اپنے مقصد کو صحیح طور پر پورا کرے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ "وسائل کے احکام مقاصد کے احکام کے مطابق ہوتے ہیں" یہی بات امام عز بن عبد السلام نے اپنی کتاب "قواعد الأحکام" (1/ 53، ط. مكتبة الكليات الأزهرية) میں فرمائی ہے۔اور "کسی چیز کی اجازت دینا اُس کے مقاصد کی تکمیل کی اجازت دینا ہوتا ہے"، جیسا کہ امام ابن دقيق العيد نے اپنی کتاب "إحکام الأحکام" (2/ 289، ط. مطبعة السُّنَّة المحمدية) میں فرمایا۔ اور اس میں یہ فرق کیا جاۓ گا کہ آیا فنی مدد کسی خاص فرد- استعمال کرنے والے صرف ایک شخص کو- کو فراہم کی جا رہی ہے یا یہ مدد غیر معین صارفین–پورے پلیٹ فارم کو یعنی ہر اس شخص کو جو اس پر کاروبار کر رہا ہے۔ کو دی جا رہی ہے اگر فنی مدد کسی خاص فرد کو دی جا رہی ہو، اور وہ فرد اس میں اپنے اکاونٹ کو شرعاً ممنوع مقصد کے لیےاستعمال کر رہا ہو، تو اس شخص کو مدد فراہم کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ گناہ میں معاونت کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن وہ فرد اگر اس کا استعمال شرعاً حلال مقصد کے لیے کر رہا ہے، تو اسے کو فنی مدد فراہم کرنا جائز ہوگا اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
اور اگر فنی معاونت کسی مخصوص فرد کو نہیں بلکہ پورے پلیٹ فارم کو دی جا رہی ہو، جس میں تمام صارفین ایک ہی طرح سے مدد حاصل کر رہے ہوں، اور جو صارفین اس سسٹم میں اپنے اکاونٹ شرعاً ممنوع کاموں میں استعمال کرتے ہیں ان کی تعداد کم ہو (جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے)، تو ایسی حالت میں فنی معاونت فراہم کرنا شرعاً جائز ہوگا اور اس میں کمپنی پر کوئی گناہ نہیں آئے گا؛ کیونکہ یہ مدد کسی ممنوع استعمال کے لیے متعین نہیں کی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا کی بنیاد پر اور واقعۂ سوال کے بارے میں: کمپنی کا پلیٹ فارمز بنانا، ڈیزائن کرنا اور ان کی فروخت شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ انہیں ابتدا میں یہ علم نہ ہو کہ خریدار فروخت کردہ چیز کو شرعی طور پر کسی ممنوع کام میں استعمال کرے گا، چونکہ بیچ دینے سے ملکیت خریدار کو منتقل ہو جاتی ہے، تو اس کے بعد اگر خریدار ان اشیاء کا استعمال ممنوع کاموں میں کرتا ہے تو گناہ صرف خریدار پر ہوگا، بیچنے والے پر نہیں۔ لیکن اگر کمپنی کو بیچتے وقت یہ علم ہو کہ خریدار ان اشیاء کو ممنوع استعمال میں لائے گا تو بیچنا حرام ہو جائے گا کیونکہ یہ گناہ میں معاونت کے مترادف ہوگا۔
اور جہاں تک پلیٹ فارم بیچنے کے بعد اسے فنی مدد فراہم کرنے کا تعلق ہے، تو صارف اگر مخصوص ہو اور یہ اپنا اکاونٹ حرام اشیاء بیچنے کے لیے استعمال کرتا ہو، تو اس کو مدد فراہم کرنا حرام ہوگا، وگرنہ فنی مدد فراہم کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
اگر فنی مدد مکمل پلیٹ فارم کے لیے ایک ہی وقت میں فراہم کی جا رہی ہو، یعنی کوئی صارف دوسرے سے ممتاز نہ ہو، اور ان صارفین کا تناسب جو اپنے اکاؤنٹس کو حرام کاموں میں استعمال کرتے ہیں کم ہو، تو ایسی حالت میں فنی مدد فراہم کرنا شرعاً جائز ہوگا اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.