جس پر کئی سالوں کے روزے ہوں، اس کے ...

Egypt's Dar Al-Ifta

جس پر کئی سالوں کے روزے ہوں، اس کے لیے کسی سال کو متعین کیے بغیر قضا روزے رکھنے کا حکم

Question

جب کسی پر کئی سالوں کے روزے ہوں تو کیا بغیر کسی مخصوص سال کی تعیین کیے اس کیلئے قضا روزے رکھنا درست ہے؟ کیونکہ میرے ذمہ دو رمضانوں کے قضا روزے ہیں، جو میں نے بیماری کی وجہ سے چھوڑے تھے، لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں نے کس سال کے روزے چھوڑے تھے، اس لئے میں نے قضا کی نیت سے روزے رکھ لیے بغیر یہ متعین کیے کہ فلاں رمضان کے قضا روزے رکھ رہا ہوں۔ تو کیا میرے یہ روزے قضا کے طور پر کافی ہو جائیں گے، یا سال کی عدمِ تعیین قضا روزے کی صحت پر اثر انداز ہو گی؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

قضا روزے کیلئے تعیینِ نیت اور رات میں نیت کرنے کا حکم

فرض روزے کی قضا کے بارے میں اصل حکم اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾ ترجمہ: پس تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ [البقرة: 184] اصول یہ ہے کہ قضا روزے، نذر یا کفارے کے روزے کیلئے نیت کا پختہ ہونا، معین ہونا اور رات سے نیت ہونا شرط ہے، یعنی فجر سے پہلے یہ نیت کر لے کہ وہ کل رمضان کا، کفارے کا یا قضا روزہ رکھے گا۔

امام کاسانی حنفیؒ نے "بدائع الصنائع" (2/85، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اگر روزہ دین (یعنی لازم الادا حق) ہو جیسے قضا، کفارات اور مطلق نذریں، تو یہ بغیر نیت کی تعیین کے جائز نہیں۔"

امام حطاب مالکیؒ نے "مواهب الجليل" (2/418، ط. دار الفكر) میں نیت کے بارے میں فرمایا: اور فرضِ عین کے بارے میں کہا کہ اس کی صفت یہ ہے کہ رات میں نیت کر لی جائے... چاہے وہ واجب روزہ ہو، نفلی ہو، نذر کا ہو یا کفارے کا ہو، اور نیت رات میں کرنی ضروری ہے یا کم از کم فجر کے وقت، اور نیت پختہ ہو، کسی شک وتردد کے بغیر ہو، اور روزہ دار فرضِ رمضان کی ادائیگی کی نیت کرے۔

ابن جزیؒ نے فرمایا: اور نیت کا جزم ضروری ہے تاکہ تردد سے بچا جا سکے۔"

شیخ الإسلام زکریا انصاری شافعیؒ نے "أسنى المطالب" (1/411، ط. دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: اور روزے میں جازم اور معیّن نیت واجب ہے، جیسے نماز میں ہوتی ہے، کیونکہ حدیث میں آیا ہے: 'اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے'۔ نیت 'معیّنة' (بکسر یاء) اس لیے ہے کہ وہ روزے کو متعین کرتی ہے، اور 'معيِّنة' (بفتح یاء) اس لیے کہ نیت کرنے والا اس کو معیّن کرتا ہے اور اسے مطلق روزے سے الگ کرتا ہے۔ اور یہ سب کچھ فرض روزے میں فجر سے پہلے واجب ہے، چاہے وہ روزہ نذر کا ہو، قضا ہو یا کفارے کا ہو"

علامہ رحیبانی حنبلیؒ نے "مطالب أولي النهى" (2/185، ط. المكتب الإسلامي) میں فرمایا: روزہ صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ نیت متعین ہو، یعنی یہ اعتقاد کرے کہ وہ رمضان کا روزہ رکھ رہا ہے، یا اس کی قضا، یا نذر کا، یا کفارے کا روزہ رکھ رہا ہے۔

جس پر کئی سالوں کے روزے ہوں، اس کے لیے کسی سال کو متعین کیے بغیر قضا روزے رکھنے کا حکم

اسی اصول پر زیر بحث مسئلے کا حکم بھی لاگو ہوتا ہے کہ اگر کسی پر دو رمضانوں کے قضا روزے لازم ہوں، جو اس نے بیماری کی وجہ سے چھوڑے تھے، اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ان کی قضا اس پر کس سال واجب ہوئی، تو اگر اس نے صرف نیتِ قضا کے ساتھ روزہ رکھا اور کسی مخصوص سال کی تعیین نہیں کی، تو احناف کے اصح قول کے مطابق اس کا یہ روزہ قضاءِ رمضان کے طور پر کافی نہیں ہو گا۔

علامہ زیلعی حنفیؒ نے "تبيين الحقائق" (6/220، ط. الأميرية) میں فرمایا: (اگر کسی نے قضا روزے کی نیت کی، لیکن دن متعین نہیں کیا، تو روزہ درست ہوگا، چاہے وہ دو رمضان کی قضا کی نیت ہو) ... اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی پر ایک یا اس سے زیادہ دنوں کے قضا روزے ہوں جو مختلف رمضانوں کے ہوں، اور اس نے نیت کر کے روزہ رکھ لیا، لیکن دن متعین نہیں کیا، تو روزہ درست ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی نے روزہ رکھا اور دو یا زیادہ دنوں کی نیت کی، تو ایک دن کا روزہ صحیح ہوگا۔ اور اگر کسی نے دو رمضانوں کی قضا کی نیت کی، تب بھی جائز ہوگا... لیکن یہ بعض مشایخ کا قول ہے، جبکہ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ ایک رمضان کی قضا میں تو جائز ہے، لیکن دو رمضانوں کی قضا میں اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ متعین نہ کرے کہ وہ فلاں سال کے رمضان کی قضا کر رہا ہے، جیسا کہ وضاحت کی گئی ہے۔"

جبکہ شافعیہ کا موقف یہ ہے کہ قضا روزے میں سال کی تعیین شرط نہیں، کیونکہ یہ تمام قضا روزے ایک ہی جنس کے ہیں۔ لہٰذا، اگر کسی نے قضا کی نیت کی لیکن مخصوص سال متعین نہیں کیا، تو اس کا روزہ صحیح ہوگا اور قضا ہو جائے گی۔ یہی رائے بعض حنفی مشایخ کی بھی ہے، جیسا کہ امام زیلعی حنفیؒ نے "تبيين الحقائق" (6/220) میں ذکر کیا ہے۔

علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفیؒ نے "فتح القدير" (2/312، ط. دار الفكر) میں اس قول کو مختار قرار دیتے ہوئے فرمایا: اگر کسی پر ایک ہی رمضان کے دو دنوں کی قضا واجب ہو، تو بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے دن کی قضا کی نیت کرے جو اس پر سب سے پہلے واجب ہوئی تھی، لیکن اگر مخصوص دن متعین نہ کرے تب بھی جائز ہوگا۔ اسی طرح، اگر یہ دو دن دو مختلف رمضانوں کے ہوں، تو بھی مختار قول کے مطابق یہی حکم ہے، یہاں تک کہ اگر اس نے محض قضا کی نیت کی اور کسی مخصوص رمضان کا تعین نہیں کیا، تب بھی روزہ جائز ہوگا۔

شیخ الإسلام زکریا انصاری شافعیؒ نے "أسنى المطالب" (1/412) میں فرمایا: اگر کسی پر دو رمضانوں کی قضا ہو اور اس نے کل کے دن قضا کی نیت سے روزہ رکھا، تو یہ جائز ہوگا، چاہے اس نے متعین نہ کیا کہ کس رمضان کی قضا کر رہا ہے، کیونکہ ان سب کی ایک ہی جنس ہے۔

علامہ خطيب شربيني شافعیؒ نے "الإقناع" (1/236، ط. دار الفكر) میں فرمایا: سال کی تعیین شرط نہیں ہے، جیسا کہ ادائیگی کے وقت کی تعیین ضروری نہیں، کیونکہ ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔"

مالکیہ اور حنابلہ کے اقوال سے بھی یہی مفہوم مل رہا ہے کہ روزے میں سال کی تعیین واجب نہیں، بلکہ قضا کی نیت کافی ہے، اور وقت میں غلطی کا کوئی اعتبار نہیں ۔

علامہ نفراوی مالکیؒ نے "الفواكه الدواني" (1/304، ط. دار الفكر) میں فرمایا: نماز کے دن کی طرح رمضان کے سال کی تعیین بھی ضروری نہیں ہے ۔"

امام ابن قدامہ حنبلیؒ نے "المغني" (3/113، ط. مكتبة القاهرة) میں فرمایا: اگر کسی پر پانچویں سال کا روزہ واجب ہو اور اس نے چھٹے سال کا روزہ رکھنے کی نیت کی، یا اتوار کا روزہ رکھنے کی نیت کی حالانکہ وہ دراصل کوئی اور دن تھا، یا اسے یہ گمان تھا کہ کل اتوار ہے حالانکہ وہ پیر تھا، تو اس کا روزہ صحیح ہوگا، کیونکہ نیت میں کوئی خلل نہیں آیا، صرف وقت میں غلطی ہوئی ہے۔

خلاصہ:

اس بناء پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قضا روزے کی نیت میں سال کی تعیین ضروری نہیں ہے، بلکہ واجب روزے کی نیت کافی ہے۔ اگر کسی نے سال متعین کیا اور وقت میں غلطی ہو گئی تو اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ مخصوص سال یا دن کی قضا کی نیت کرے، بلکہ صرف قضا کی نیت کافی ہے۔

واقعۂ سوال میں: آپ کا روزہ بغیر سال کی تعیین کے، صرف قضا کی نیت سے صحیح اور کافی ہے، اور سال یا دن کی تعیین کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ سب ایک ہی جنس کے روزے ہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas