قیام اللیل کی رکعتوں کے درمیان ذکر ...

Egypt's Dar Al-Ifta

قیام اللیل کی رکعتوں کے درمیان ذکر اور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام پڑھنا

Question

قیام اللیل سے پہلے اور ہر دو رکعتوں کے درمیان تسبیحات اور دیگر اذکار کے ساتھ ساتھ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس طرح کا عمل جائز ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
جن سنتوں کی ہمیں نبی اکرم ﷺ نے ترغیب دی ہے، ان میں رمضان کے مہینے میں قیام کرنا یعنی نمازِ تراویح ادا کرنا بھی شامل ہے، اور یہ قیام نماز، ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ نبی کریم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔" (یہ حدیث متفق علیہ ہے) قیام کی نماز یعنی تراویح، اکیلے بھی پڑھی جا سکتی ہے اور جماعت کے ساتھ بھی۔ روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رمضان کی ایک رات مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے رائے دی کہ سب کو ایک قاری کی قراءت پر جمع کر دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے سب کو اُبَیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کر دیا۔ پھر جب اگلی رات تشریف لائے تو فرمایا: "یہ بہت اچھی بدعت ہے!"

جہاں تک افضل الانبیاء اور امام المرسلین ﷺ پر درود و سلام اور دیگر اذکار کا تعلق ہے، تو یہ سب شریعت کے عام دلائل کی روشنی میں مشروع ہیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: ﴿وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ ''اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔" (سورۃ الجمعۃ: 10) اور فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۞ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴾ ''اے ایمان والو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔" (سورۃ الأحزاب: 41-42)

اور فرمایا: ﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ﴾ '' تم میرا ذکر کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔" (سورۃ البقرۃ: 152)۔ اور فرمایا: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ ''وہ لوگ جو ایمان لائے، اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں۔ خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے۔" (سورۃ الرعد: 28) اور قرآنِ کریم میں اس جیسے بہت سے مقامات پر ذکر کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے، میزان میں بھاری، اور رحمٰن کو بہت ہی محبوب ہیں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ"۔ متفق علیہ ہے۔ اسی طرح بہت سی دیگر احادیث بھی موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی مشروعیت اور فضیلت کو بیان کرتی ہیں۔

یقیناً نبی کریم ﷺ ہر حال میں اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ اور جو اذکار مختلف صیغوں کے ساتھ کتبِ حدیث میں وارد ہوئے ہیں، وہ سب مشروع (جائز اور مستحب) ہیں، کیونکہ اس معاملے میں وسعت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی باتوں میں اختلاف نہ کریں، کیونکہ اختلاف مسلمانوں کے درمیان خلل اور تفرقہ پیدا کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: ﴿وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ ''اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" (سورۃ الأنفال: 46)

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas