اقامتِ شعائر میں تخفیف و رعایتِ احو...

Egypt's Dar Al-Ifta

اقامتِ شعائر میں تخفیف و رعایتِ احوال کے متعلق ہدایتِ نبوی ﷺ

Question

نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ﷺ شعائرِ دین اور ان کو قائم کرنے میں بہت پُرعزم تھے اور ساتھ ہی لوگوں کے مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی عبادات اور روزمرہ زندگی کے امور میں تخفیف کرتے تھے؛ لہٰذا ہم آپ سے اس کی وضاحت کی درخواست کرتے ہیں۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
نبی کریم ﷺ کا طریقۂ مبارکہ یہ تھا کہ آپ ﷺ شعائرِ دین کو ان کے مناسب طریقے سے قائم کرتے تھے، اور لوگوں کی حالتوں کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ ﷺ انسانوں کے مفادات اور ان کے جذبات کا بہت لحاظ رکھتے تھے، خاص طور پر ان کے آرام و سکون کے اوقات کا۔ چناںچہ آپ ﷺ نے فرمایا: « میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے لمبی کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو اسے مختصر کر دیتا ہوں، اس اندیشہ سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں »۔ یہ حدیث بخاری اور دیگر کتب میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی "صحیحین" میں روایت کیا ہے - اور الفاظ بخاری کے ہیں - کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں آتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔ انہوں نے (ایک مرتبہ) نماز میں سورۃ البقرہ پڑھی۔ اس پر ایک صاحب جماعت سے الگ ہو گئے اور ہلکی نماز پڑھی۔ جب اس کے متعلق معاذ کو معلوم ہوا تو کہا وہ منافق ہے۔ معاذ کی یہ بات جب ان کو معلوم ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ محنت کا کام کرتے ہیں اور اپنی اونٹنیوں کو خود پانی پلاتے ہیں معاذ نے کل رات ہمیں نماز پڑھائی اور سورۃ البقرہ پڑھنی شروع کر دی۔ اس لیے میں نماز توڑ کر الگ ہو گیا، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں منافق ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے معاذ! تم لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کرتے ہو، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا (جب امام ہو تو) سورۃ ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ جیسی سورتیں پڑھا کرو۔

امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی "صحیحین" میں روایت کیا ہے - اور الفاظ بخاری کے ہیں - کہ سیدنا ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔
یہ تمام نصوص اور دیگر اسی طرح کی روایات لوگوں کو اذیت دینے سے منع کرتی ہیں، اور ان کی حالتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے شعائر اسلام کو سنانے اور ادا کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، کسی بھی قسم کی تکلیف یا زیادتی، خواہ وہ قول سے ہو یا عمل سے، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جو کچھ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے، اس کا جواب ان ہی نکات سے واضح ہو جاتا ہے۔

یہ تمام نصوص اور دیگر اسی طرح کی روایات لوگوں کو اذیت دینے سے منع کرتی ہیں، اور شعائر اسلام ادا کرانے میں ان کے احساسات کا لحاظ رکھتی ہیں، اور ان پر ہر قسم کی  قولی اورعملی زیادتی کرنے سے ڈراتی ہیں۔ اور ان باتوں سے اس سوال کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم

Share this:

Related Fatwas