حج کے مناسک انجام دیتے وقت حاجی کو ...

Egypt's Dar Al-Ifta

حج کے مناسک انجام دیتے وقت حاجی کو کن آداب کا پابند ہونا چاہیے؟

Question


حاجی کو حج کے مناسک انجام دیتے ہوئے کون سے آداب اختیار کرنے چاہئیں؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ تعالیٰ نے سورة البقرة میں ارشاد فرمایا: ﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ [البقرة: 197] ترجمہ: حج کے مہینے معلوم اور مقرر ہیں، پس جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے اور  اپنے اوپر حج فرض کرے اور احرام باندھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہر ایسے فعل اور قول سے بچے جو اسلام کےآداب کے خلاف ہو اور جو ساتھیوں اور بھائیوں کے درمیان جھگڑے اور اختلاف کا سبب ہو۔ سب حاجی دعوتِ الٰہی کی مجلس میں جمع ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے لازم ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں نہ کہ گناہ اور ظلم و ستم کے کاموں میں۔

امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص اللہ کی رضا کے لیے حج کیا اور نہ بدزبانی کی اور نہ فسق وفجور کیا، وہ (حج سے) اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک اور صاف ہو کر) لوٹتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے پیدا کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے حج کے مہینوں کو «معلومات» سے تعبیر کیا ہے کیونکہ عرب جاہلیت میں بھی انہیں جانتے تھے، اور وہ ہیں: ماہِ شوال، ذوالقعدہ، اور ذی الحجہ کے پہلے دس دن۔ اور شریعتِ اسلام نے ان (مہینوں) کو اسی طرح برقرار رکھا جیسے وہ جاہلیت میں معروف تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے برائی سے روکنے کے بعد بھلائی کے کاموں کی ترغیب دی، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ﴾[البقرہ: 197]۔ترجمہ: ''اور تم جو بھی نیکی کرو گے اللہ اسے جانتا ہے، اور اپنی تیاری کر لو، بے شک بہترین تیاری تقویٰ ہے، پس اے صاحبان عقل، اللہ سے ڈرو'' ۔

یعنی اے مسلمانو! ہر وہ قول یا عمل چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو، اور خاص طور پر ان مخصوص اوقات اور مقامات پر نیک عمل میں جلدی کرو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خوب واقف ہے۔اور زادِ راہ کے طور پر تقویٰ و خشیتِ الٰہی جیسے روحانی توشے کو اپنے ساتھ رکھو، اور ایسا مادی زاد بھی ساتھ رکھو جو تمہیں لوگوں سے سوال کرنے سے بے نیاز رکھے، اور اے عقلِ سلیم اور سمجھ دار دل و دماغ رکھنے والو! اپنے دلوں اور نیتوں کو میرے لیے خالص کر لو۔

پھر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ روحانی زادِ راہ (یعنی تقویٰ) کا ساتھ لینا، مادی زادِ راہ لینے کے منافی نہیں، بشرطیکہ تقویٰ موجود ہو۔ پس اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ﴾ترجمہ: ''تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل (رزق) تلاش کرو''۔ [البقرہ: 197]۔ یعنی: تم پر کوئی گناہ یا حرج نہیں کہ تم حج کے موسم میں تجارت یا دیگر جائز ذرائع سے حلال روزی اور پاکیزہ مال تلاش کرو، جب تک کہ یہ تمہیں حج کے مناسک ادا کرنے سے نہ روکے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایامِ حج میں خرید و فروخت سے اجتناب کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت دی بشرطیکہ وہ ان تجارتی لین دین کے محتاج ہوں تاکہ وہ لوگوں سے مانگنے کی ذلت سے بچ سکیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی کہ جب عرفات سے روانہ ہوں تو کیا کرنا چاہیے، فرمایا: ﴿فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ﴾ ترجمہ: ''پس جب تم عرفات سے روانہ ہو جاؤ تو مشعرِ حرام پر اللہ کا ذکر کرو﴾ [البقرہ: 198]۔

یعنی: جب تم عرفات میں وقوف سے فارغ ہو جاؤ اور وہاں سے تیزی کے ساتھ مزدلفہ کی طرف بڑھو اور وہاں بھیڑ ہو تو اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ ذکر اور اس کی اطاعت کرو، جیسے تلبیہ، تہلیل، تسبیح، تکبیر اور دعا کے ذریعے۔ پھر فرمایا: ﴿وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ﴾ ترجمہ: '' اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے، اگرچہ اس سے پہلے تم گمراہ تھے۔'' [البقرہ: 198]۔ یعنی: اور اللہ تعالیٰ کا ذکر ہمیشہ خوبصورت انداز میں اور اس کی ہدایت کے مطابق کرتے رہو؛ کیونکہ اگر یہ ہدایت نہ ہوتی تو تم اسی جہالت اور گمراہی میں رہتے۔ ﴿ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ ترجمہ: ''پھر تم اس جگہ سے روانہ ہو جاؤ جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں، اور اللہ سے مغفرت طلب کرو، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے'' [البقرہ: 199]۔

یعنی: اے مسلمانو! تم پر لازم ہے کہ تمہاری واپسی (إفاضہ) عرفات سے ہو، نہ کہ مزدلفہ سے، کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے واپسی کے مقام کے طور پر منتخب فرمایا ہے۔ اور تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، کیونکہ وہ عزوجل بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد بندوں کو کیسا سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا﴾ [البقرة: 200]۔ ترجمہ: جب تم نے اپنے مناسک مکمل کر لیے اور حج کے فرائض ادا کر لیے، تو اللہ کا ذکر اس طرح کرو جیسے تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے ہو، بلکہ اللہ کا ذکر تمہارے آباؤ کے ذکر سے بھی زیادہ شدت اور محبت کے ساتھ ہونا چاہیے۔

یعنی: جب تم اپنی عبادت مکمل کر لو اور حج کے اعمال ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت میں کثرت سے مشغول ہو جاؤ، جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں اور ان کی شان و شوکت کا بکثرت ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ تم پر لازم ہے کہ اپنے خالق عزوجل کا ذکر ان آبائی فخریہ باتوں سے کہیں زیادہ اور عظیم تر کرو۔ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں کثرت کرو اور غرور، تکبر اور نسبی فخر سے بچتے رہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

 

Share this:

Related Fatwas