ماہِ محرم کی فضیلت اور اس پورے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم
Question
ماہِ محرم کی کیا فضیلت ہے؟ میں اس مہینے میں عبادات کا خاص اہتمام کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے بعض دینی دروس میں سنا ہے کہ پورے محرم کے روزے رکھنا درست نہیں، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ ماہِ محرم اُن مہینوں میں سے ہے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سال کے بہت سے مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اور اسی مہینے میں یومِ عاشوراء آتا ہے۔ اس مہینے میں خصوصاً عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کے دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اس کے روزوں کو مستحب اور پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ جو شخص محرم کے پورے مہینے کے روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ مستحب عمل کو پا لے گا، اور جو اس کی قدرت نہیں رکھتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
تفصیلات...
اللہ کی سنت: بعض مہینوں میں عبادات کا ثواب بڑھا کر انہیں فضیلت دینا
اللہ عز وجل نے زمان و مکان کو پیدا فرمایا، اور ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔ انہی مظاہرِ فضیلت میں سے بعض مہینوں کو بعض پر فضیلت دینا بھی ہے، جیسے رمضان المبارک اور حرمت والے مہینوں کو باقی مہینوں پر فضیلت دینا۔
شریعتِ اسلامیہ نے ان بابرکت مہینوں کا خاص اہتمام کرنے، ان میں عبادت، ذکر، تلاوت، روزہ، صدقہ اور دیگر نیک اعمال کے ذریعے انہیں زندہ رکھنے کی ترغیب دی ہے؛ کیونکہ ان مہینوں میں خیر و برکت، اللہ کی طرف سے انعامات اور عبادت کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے اور ان کی برکتوں کو سمیٹنے کا حکم وارد ہوا ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ لمحات بندے کی حالت کو بدل دیں اور وہ ایسی راہ پا جائے جس کے بعد وہ کبھی بدبخت نہ ہو۔ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''''تمہارے رب کی تمہارے زمانے کے دنوں میں کچھ خاص عنایات آتی ہیں، لہٰذا تم ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ، شاید تمہیں ان میں سے کوئی ایک عنایت مل جائے، تو پھر تم کبھی بھی بدبخت نہ رہو گے۔"
اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الأوسط اور المعجم الكبير میں روایت کیا ہے۔
ماہِ محرم کی فضیلت
وہ مہینے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک خاص فضیلت رکھتے ہیں اور جنہیں عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے، ان میں سے ایک "شہرُ الله المحرَّم" یعنی "اللہ کا مہینہ محرم" ہے۔ ماہِ محرم کی فضیلت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ان چار حرمت والے مہینوں میں شامل ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ ترجمہ: " بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ " سورۃ التوبہ: 36۔ ان حرمت والے مہینوں سے مراد ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب ہیں۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں: تین مسلسل مہینے — ذو القعدہ، ذو الحجہ، اور محرم — اور رجبِ مُضَر، جو جمادی اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔" صحیح بخاری و صحیح مسلم۔
ماہِ محرم کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اسی مہینے میں یومِ عاشوراء آتا ہے، جو دس محرم کو ہوتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھیوں کو ان کے دشمن فرعون کے ظلم سے نجات دی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا: ﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ﴾ ترجمہ: "اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی۔" سورۃ طہ: 80۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا: ﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ ترجمہ: "انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ"۔ [ابراہیم: 5]، اور مفسرین کے نزدیک "اللہ کے دنوں" سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر خاص انعامات فرمائے، جیسے کسی بڑی مصیبت سے نجات دینا یا دشمن پر فتح عطا کرنا۔ انہیں دنوں میں ایک یومِ عاشوراء (دس محرم) کا بھی دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات عطا فرمائی۔ جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ نے بنی اسرائیل کو نجات دی تھی، اس لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر روزہ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہم موسیٰ پر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں"، پھر آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: "میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی دن کے روزے کا اتنا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا آپ ﷺ یومِ عاشوراء (دس محرم) اور اس مہینے یعنی ماہِ رمضان کے روزے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔" (اس روایت کو امام بخاری نے روایت کیا ہے اور الفاظ بھی بخاری شریف کے ہیں، اور امام مسلم نے بھی اسے روایت کیا ہے۔)
یومِ عاشوراء کے روزے میں ایک خاص ربانی برکت ہے، کیونکہ یہ سابقہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں یومِ عرفہ کے روزے میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی بدولت پچھلے اور اگلے سال کے گناہوں کو مٹا دے گا، اور یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی بدولت پچھلے سال کے گناہوں کو مٹا دے گا۔" (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔)
ماہِ محرّم کو "اللہ کا مہینہ" کہنے کی خصوصیت
نبی کریم ﷺ نے ماہِ محرم کو ایک عظیم و جلیل لقب سے نوازا ہے، چنانچہ اسے "شہرُ الله" یعنی "اللہ کا مہینہ" فرمایا۔ اس مہینے میں ایک ایسا دن آتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی، اور اسی دن میں دیگر لوگوں کی توبہ بھی قبول کی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین! مجھے ایک ایسا مہینہ بتائیے جس میں رمضان کے بعد میں روزے رکھوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے ایک ایسا سوال کیا ہے جو میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں سنا، سوائے ایک شخص کے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کرتے ہوئے سنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم رمضان کے بعد کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھو، کیونکہ وہ اللہ کا مہینہ ہے، اور اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی، اور اس دن میں دیگر لوگوں کی توبہ بھی قبول کی جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، امام احمد، اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے اپنی کتاب "شعب الإيمان" میں روایت کیا ہے، اور مذکورہ الفاظ امام بیہقی کے ہیں۔
علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے "مرقاة المفاتيح" (جلد 4، صفحہ 1411، دار الفكر) میں لکھا: "علامہ طیبی رحمہ اللہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے قول ’شہرُ الله‘ کے روزے سے مراد یومِ عاشوراء کا روزہ ہے۔" یعنی یہ تعبیر کل کو ذکر کرکے جز مراد لینے کے انداز پر مبنی ہے۔ تاہم، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ماہِ محرّم کو عاشوراء کے دن کی برکت کی بنا پر فضیلت حاصل ہے، لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں محرم الحرام کا پورا مہینہ مراد ہے۔
ماہِ محرم میں روزے رکھنے کی شرعی ترغیب
چونکہ ماہِ محرم کو بلند فضیلت حاصل ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے اس میں روزے رکھنے کی خاص ترغیب دی ہے اور اسے رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے، محرم کا ہے۔" صحیح مسلم۔
امام محیی الدین نووی رحمہ اللہ نے "شرح صحیح مسلم" (8/55، دار إحیاء التراث العربی) میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اس حدیث میں واضح طور پر یہ بیان ہے کہ محرم، روزے کے لیے سب سے افضل مہینہ ہے۔" نیز، نبی کریم ﷺ کا اس میں ماہِ محرم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا (شہرُ اللهیعنی اللہ کا مہینہ کہنا) اس کی فضیلت، شرف اور عظمت پر دلالت کرتا ہے۔
علامہ لَخمی مالکی رحمہ اللہ نے "التبصرة" (2/815، مطبوعہ وزارت الأوقاف والشؤون الإسلامية) میں فرمایا: تین مہینے ایسے ہیں جن میں روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے: محرم، رجب اور شعبان... اور اس قاعدے کی اصل نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے: 'رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے، محرم کا ہے۔'"
پورے ماہِ محرم کے روزوں کا حکم
اگر کوئی شخص محرم الحرام کا پورا مہینہ روزے رکھنے پر قادر ہو تو اس کے لیے ایسا کرنا مستحب ہے، کیونکہ وہ جتنے زیادہ روزے رکھے گا، اتنا ہی زیادہ ثواب اور اجر پائے گا۔ چنانچہ عمل جتنا زیادہ ہو، اس کا اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوتا ہے۔
امام محیی الدین نووی شافعی رحمہ اللہ نے "المجموع" (6/386-387، دار الفكر) میں فرمایا: ہمارے اصحاب نے کہا: مستحب روزوں میں سے حرمت والے مہینوں کے روزے رکھنا ہے، یعنی: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب کے روزے ہیں۔ اور ان میں سب سے افضل محرم ہے... اور جو شخص ان مہینوں کے روزے رکھنے پر قادر ہو تو ان سب کے روزے رکھنا فضیلت والا عمل ہے۔"
علامہ ابن مفلح حنبلی رحمہ اللہ "المبدع" (3/51، دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے، محرم کا ہے۔’ (صحیح مسلم)۔ اس میں اس مہینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف شرف و عظمت کی خاطر کی گئی ہے، جیسے کہ 'اللہ کی اونٹنی' (ناقَةُ الله) کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود محرم میں زیادہ روزے نہیں رکھے، شاید کسی عذر کی بنا پر یا آپ ﷺ کو اس کے فضائل بعد میں معلوم ہوئے ہوں۔ اور مراد یہ ہے کہ رمضان کے بعد جس پورے مہینے کے نفلی روزے افضل ہیں، وہ ماہِ محرم ہے۔"
بعض سلف صالحین پورے ماہِ محرم کے روزے رکھتے تھے۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ "لطائف المعارف" (ص:119) میں لکھتے ہیں: "بعض سلف صالحین پورے حرمت والے مہینوں کے روزے رکھتے تھے، ان میں حضرت ابن عمر، حسن بصری، اور ابو اسحاق سبیعی شامل ہیں۔ سفیان ثوری نے کہا: حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنا مجھے بہت پسند ہے۔ ابن ماجہ نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ حرمت والے مہینوں کے روزے رکھا کرتے تھے۔"
رہی وہ حدیث جس میں حضرت الباہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں وہی شخص ہوں جو پچھلے سال آپ کی خدمت میں آیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے تمہارا جسم کمزور کیوں نظر آ رہا ہے؟" میں نے عرض کیا: میں دن میں کھانا نہیں کھاتا رہا، صرف رات کو کھاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کس نے تمہیں اپنی جان پر یہ مشقت ڈالنے کا حکم دیا؟" میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: "صبر کا مہینہ روزے رکھو اور اس کے بعد تین دن کے روزے رکھو، اور حرمت والے مہینوں کے روزے بھی رکھو۔" ایک روایت میں ہے: ”صبر کے مہینہ (رمضان) کے روزے رکھو، اور ہر مہینہ ایک روزہ رکھو“ انہوں نے کہا: اور زیادہ کیجئے کیونکہ میرے اندر طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو“، انہوں نے کہا: اس سے زیادہ کی میرے اندر طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن کے روزے رکھ لو“، انہوں نے کہا: اور زیادہ کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ کیا، پہلے بند کیا پھر چھوڑ دیا۔ اس حدیث کو ابو داود، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
پس رسول اللہ ﷺ کا حضرت باہلی رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا: "حرمت والے مہینوں میں روزے رکھو اور کچھ دن چھوڑ بھی دو" اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محرم کے پورے مہینے کے روزے رکھنا مستحب نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ نے انہیں روزے چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا کیونکہ ان کے لیے روزوں کی کثرت مشقت کا باعث تھی۔ امام نووی رحمہ اللہ نے "المجموع" (6/387) میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ یہاں علت مشقت ہی ہے۔ انہوں نے کہا: "[نبی ﷺ نے روزہ چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا کہ ان کے لیے روزوں کی کثرت مشقت کا باعث تھی، جیسا کہ حدیث کے آغاز میں ذکر ہوا، اور جو شخص اس پر قادر ہو اس کے لیے پورے مہینے کے روزے رکھنا افضل ہے] ۔
خلاصہ
اس بنا پر، سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ محرم کا مہینہ ان مہینوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اور اسی میں عاشوراء کا دن آتا ہے۔ اس مہینے میں بالخصوص یومِ عاشوراء کے روزے کی بطورِ استحباب بہت فضیلت آئی ہے، پس جس شخص نے اس میں پورا مہینہ روزہ رکھے، اس نے مستحب عمل کو پا لیا ہے، اور جو نہ رکھ سکا اس پر کوئی گناہ نہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.