والدین کی وفات کے بعد ان سے حسنِ سلوک
Question
میں جوانی میں اپنے والد کے ساتھ بدسلوکی کرتا رہا، ان کی قدر کا احساس مجھے ان کی وفات کے بعد ہوا، خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ اب میں اپنے والد کے ساتھ ان کی وفات کے بعد کیسے نیکی کر سکتا ہوں؟ اور کیا اس کا مجھے کوئی فائدہ ہوگا؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ سائل کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرے، اپنی سابقہ بدسلوکی پر ندامت محسوس کرے، اور خوب استغفار کرے۔ والد کے لیے رحمت، معافی اور مغفرت کی بکثرت دعا کرے، ان کی قبر کی زیارت کرتا رہے، ان کی طرف سے صدقہ دے، قرآنِ کریم یا اس کا کچھ حصہ تلاوت کر کے اس کا ثواب انہیں ہدیہ کرے، ان کے رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلق جوڑے رکھے، ان کی وصیت پر عمل کرے، ان کے وعدوں کو پورا کرے، ان کے ذمے واجب الادا قرض یا وہ عبادات جن کا میت کی طرف سے ادا کرنا درست ہے، ادا کرے، اور اسی طرح کی دیگر نیکی اور صلہ رحمی کے کام انجام دے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کے ذریعے والد کے ساتھ پہلے کیے گئے بدسلوکی کا بوجھ اس سے ہلکا فرما دے گا۔
تفاصیل ۔۔۔
اسلامی شریعت کا والدین کے ساتھ حسن سلوک پر زور
اسلام تمام نیکیوں کو قائم کرنے اور تمام برائیوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے، اور جن نیکیوں کو اسلام نے مضبوطی سے قائم کیا، ان میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک بھی شامل ہے۔ والدین ہی اولاد کے وجود کا سبب ہوتے ہیں، اور انہی کی بدولت اولاد دین، اخلاق اور ہر اچھی خوبی کو سیکھتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے مواقع پر والدین کے ساتھ نیکی کرنے اور ان سے احسان کا حکم دیا ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ ترجمہ: " اور تیرا پروردگار حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ " سورۃ الإسراء: 23-24۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو اپنی عبادت کے ساتھ جوڑ دیا، اور اُن کی نافرمانی کو شرک کے ساتھ ملایا؛ جیسا کہ فرمایا: ﴿وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ ترجمہ: ''اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔" سورۃ النساء: 36۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکر ادا کرنے کا بھی حکم دیا: ﴿أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْك﴾ ترجمہ: '' کہ میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا (بھی)۔" سورۃ لقمان: 14۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو اس احسان اور حسنِ سلوک کو اس وقت بھی باقی رکھا جب والدین اولاد کو شرک کا حکم دیں؛ جیسا کہ فرمایا: ﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ ترجمہ :''اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہ۔" سورۃ لقمان: 15۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا یحییٰ علیہ السلام کی مدح فرمائی تو فرمایا: ﴿وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا﴾ ترجمہ: ''اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور نہ سرکش تھے اور نہ ہی نافرمان۔" سورۃ مریم: 14۔
امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «رَغِمَ أنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أنْفُ، قيلَ: مَنْ يا رَسولَ اللهِ؟ قالَ: مَن أدْرَكَ أبَوَيْهِ عِنْدَ الكِبَرِ أحَدَهُما أوْ كِلَيْهِمَا، فَلَمْ يَدْخُلِ الجَنَّةَ».ترجمہ:"ذلیل ہو، ذلیل ہو، ذلیل ہو (تین بار فرمایا)"، صحابہؓ نے عرض کیا: "یا رسولَ الله! کون؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، ان دونوں یا کسی ایک کو، پھر بھی وہ جنت میں داخل نہ ہو سکا۔"
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی اطاعت کی حدود:
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک فرضِ عین ہے، یہ ایسی عبادت ہے جس میں کسی کی نیابت قابلِ قبول نہیں، جیسا کہ علامہ برہان الدین ابن مازہ بخاری حنفی نے اپنی کتاب (المحيط البرهاني في الفقه النعماني جلد 5، صفحہ 386، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "والدین کی اطاعت اور ان سے حسنِ سلوک ایک خاص فرض ہے، اس میں کوئی کسی کی طرف سے قائم مقام نہیں ہو سکتا"۔ برخلاف ان کی خدمت و دیکھ بھال کے، جو کہ فرضِ کفایہ ہے ۔
اسلام نے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے، سوائے اس صورت کے جب وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ ترجمہ: ''اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہ۔" لقمان: 15۔
والدین کی نافرمانی سے تنبیہ اور اس کی سزا
اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے، اور اس کے انجام کو سخت اور ہلاکت خیز قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "دو گناہوں کی سزا دنیا میں جلد ملتی ہے: ظلم اور والدین کی نافرمانی۔" اسے امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح والدین کی نافرمانی جنت میں داخلے سے بھی مانع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ عزوجل قیامت کے دن نظر نہیں فرمائے گا: والدین کا نافرمان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت، اور بے غیرت شخص۔ اور تین لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے: والدین کا نافرمان، شراب کا عادی، اور وہ جو کسی کو کچھ دے کر اُس پر احسان جتاتا ہے۔ " (نسائی)
والدین کی ممنوع نافرمانی کا اصول
علماء نے وضاحت کی ہے کہ ماں باپ کی نافرمانی سے مراد ہر وہ بات یا عمل ہے جو والدین یا ان میں سے کسی ایک کو — اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سوا کاموں— ایذا دے۔ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے الزواجر عن اقتراف الكبائر (2/115) میں لکھا ہے: اور وہ پہلو جس کی طرف ان (علماء) کے کلام نے رہنمائی کی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ (یعنی والدین کو ایذا دینا) کبیرہ گناہ ہے، جیسا کہ عقوق کے ضابطے سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ عقوق کبیرہ گناہ ہے، اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ انسان کی طرف سے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو ایسی ایذا پہنچے جو معمولی نہ ہو، یعنی عرف (عام طور پر) میں اسے معمولی نہ سمجھا جاتا ہو۔"
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباري (10/406) میں فرمایا: "عقوق" (عين کے ضمہ کے ساتھ) "عَقّ" سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں: کاٹنا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بیٹے یا بیٹی کی طرف سے والد کو ایسا قول یا فعل پہنچے جس سے وہ تکلیف محسوس کرے، سوائے شرک یا گناہ کے حکم کی صورت میں، بشرطیکہ والد ضد پر نہ ہو۔ ابن عطیہ نے اس کی حد بندی یوں کی ہے کہ جائز امور میں والدین کی اطاعت واجب ہے، چاہے وہ کسی کام کو کرنے کا حکم دیں یا چھوڑنے کا، اور مستحب اور فرض کفایہ جیسے کاموں میں ان کی اطاعت مستحب ہے۔
اسی طرح علامہ مناوی رحمہ اللہ نے التيسير بشرح الجامع الصغير (1/251) میں فرمایا: "عقوق" اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جس سے (والدین میں سے کسی) اصل کو اذیت پہنچے، اگرچہ وہ قول یا فعل شرعاً حرام نہ ہو، بشرطیکہ والدین میں سے کوئی بلاوجہ سختی یا زیادتی نہ کر رہا ہو۔
والدین کی وفات کے بعد ان سے حسن سلوک اور اس کی صورتیں
قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ میں جہاں والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اس نیکی کو صرف ان کی زندگی تک محدود نہیں کیا گیا، بلکہ اس کا دائرہ اُن کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی سے والدین کی زندگی میں خدمت اور حسنِ سلوک کا حق ادا نہ ہو سکا تو اُسے چاہیے کہ وہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے لیے نیکی کا اہتمام کرے۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا والدین کے انتقال کے بعد بھی اُن کے ساتھ حسن سلوک کا کوئی طریقہ باقی رہتا ہے جس کے ساتھ میں اُن سے نیکی کر سکوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں! ان کے لیے دعا کرنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، ان کے قرابت داروں سے صلہ رحمی کرنا جن سے تعلق صرف ان کے ذریعے قائم تھا، اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔" (سنن ابی داؤد)
لہٰذا جس شخص کے والدین وفات پا چکے ہوں، اسے چاہیے کہ ان کے لیے کثرت سے دعا اور استغفار کرے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ ترجمہ: اور کہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما، جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔ [الاسراء: 24] اور اس حدیث میں بھی ہے جسے امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین کے..." اور ان میں سے ایک نیک اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے۔"
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: مرنے والے کے درجات کو بلند کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: اے رب! یہ بلندی کہاں سے آئی؟ جواب دیا جاتا ہے: تیرے بیٹے نے تیرے لیے استغفار کیا ہے" الأدب المفرد للبخاری
والدین کی وصیت اور وعدے کو پورا کرنا بھی حسنِ سلوک کی ایک صورت ہے
اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک کسی چیز کی وصیت کرے یا کوئی وعدہ کرے، تو ان کی وصیت کو پورا کرنا اور وعدے کو نبھانا بھی ان سے حسن سلوک ہے۔ اسی طرح ان کے رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا بھی والدین کے ساتھ نیکی کی ایک صورت ہے۔
اسی طرح والدین کے دوستوں کی عزت کرنا، اگر وہ فقیر ہوں تو ان کی مالی مدد کرنا اور اگر فقیر نہ بھی ہوں تو ان سے ملاقات اور حال احوال پوچھتے رہنا، یہ سب بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں شامل ہے۔ اس کی مثال حدیث سے بھی ثابت ہے، جو امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی کہ وہ مکہ مکرمہ کے لیے نکلتے تو جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو ان کا گدھا (ساتھ ہوتا) تھا جس پر وہ سہولت کے لیے سواری کرتے۔ اور ایک عمامہ (ہوتا) تھا جو اپنے سر پر باندھتے تھے۔ تو ایسا ہوا کہ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ ایک بادیہ نشیں ان کے قریب سے گزرا، انہوں نے اس سے کہا: تم فلاں بن فلاں کے بیٹے نہیں ہو؟ اس نے کہا: کیوں نہیں (اسی کا بیٹا ہوں) تو انہوں نے گدھا اس کو دے دیا اور کہا: اس پر سوار ہو جاؤ اور عمامہ (بھی) اسے دے کر کہا: اسے سر پر باندھ لو۔ تو ان کے کسی ساتھی نے ان سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ نے اس بدو کو وہ گدھا بھی دے دیا جس پر آپ سہولت (تکان اتارنے) کے لیے سواری کرتے تھے اور عمامہ بھی دے دیا جو اپنے سر پر باندھتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”والدین کے ساتھ بہترین سلوک میں سے یہ (بھی) ہے کہ جب اس کا والد رخصت ہو جائے تو اس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والے آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔“ اور اس کا والد (میرے والد) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی ایک صورت: صدقہ کر کے اس کا ثواب انہیں ہبہ کرنا
والدین کے ساتھ نیکی کی ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان صدقہ کرے اور اس صدقے کا ثواب ان کو ہدیہ کرے، خصوصاً اگر وہ صدقہ جاریہ ہو، تو اس کا فائدہ والدین کو ضرور پہنچتا ہے۔ امام بخاری نے اپنی "صحیح" میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: "میری ماں فوت ہو گئی ہے، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ ہوگا؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔" اس نے کہا: "میرے پاس ایک باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا ہے۔"
اور امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: "میری ماں کی ناگہانی موت ہو گئی، اور اس نے وصیت نہیں کی، لیکن میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو ضرور صدقہ کرتی، تو کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے اجر ملے گا؟ اور مجھے بھی ملے گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔"
اسی طرح امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: "میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور انہوں نے مال چھوڑا ہے لیکن وصیت نہیں کی، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کے لیے کفارہ بنے گا؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔"
ما بعد وفات والدین ان کے ساتھ نیکی کرنے کی چند صورتیں یہ ہیں: ان کی طرف سے نذر یا کفارے کا روزہ رکھنا، ان کی قبروں کی زیارت کرنا، اور ان کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزہ واجب ہو، تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔
اسی طرح حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ ان کی زیارت موت کی یاد دلاتی ہے" (سنن ابی داود، سنن بیہقی)۔
نیز، والدین کی طرف سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا بھی ایک نیکی کا کام ہے۔ عبدالرحمٰن بن علاء بن لجلّاج نے اپنے والد سے روایت کی، وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد (لجلّاج ابو خالد) نے مجھ سے کہا: "بیٹے! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے لحد میں اتارنا، اور جب مجھے میری لحد میں رکھ دو تو یہ کہنا: باسم الله، وعلى مِلَّة رسول الله (اللہ کے نام سے، اور رسول اللہ ﷺ کی ملت پر)، پھر میرے اوپر مٹی آسانی سے ڈالنا، پھر میرے سر کے قریب سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اور اس کی آخری آیات پڑھنا؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔"(اسے امام طبرانی نے "المعجم الکبیر" میں روایت کیا ہے، اور ہیثمی نے فرمایا: اس کے راوی قابلِ اعتماد ہیں۔)
یہ حدیث موقوفًا حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کی گئی ہے، جیسا کہ امام خلال نے اپنی کتاب "القراءة على القبور" میں اور امام بیہقی نے "السنن الكبرى" میں اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے، اور امام نووی اور ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسے روک کر نہ رکھو، بلکہ جلدی اسے اس کی قبر کی طرف لے جاؤ، اور اس کے سرہانے سورۃ الفاتحہ اور پاؤں کی طرف سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔" اسے طبرانی اور بیہقی نے "شعب الإيمان" میں روایت کیا ہے، اور حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ ایک اور روایت میں "سورۃ الفاتحہ" کی بجائے "سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات" کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
خلاصہ
اس بنا پر اور سوال کے سیاق میں کہا جا سکتا ہے: سائل کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرے، اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرے، اور بکثرت استغفار کرے، اپنے والد کے لیے مغفرت، رحم اور بخشش کی دعا کرے، ان کی قبر کی زیارت کرتا رہے، ان کی طرف سے صدقہ کرے، قرآنِ کریم یا اس کا کچھ حصہ پڑھے اور اس کا ثواب والد کو بخش دے، ان کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے صلہ رحمی کرے— امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کے ذریعے والد کے ساتھ کی گئی سابقہ بدسلوکی کا بوجھ اس سے ہلکا فرما دے گا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.