متعدی بیماری سے فوت ہونے والے شخص ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

متعدی بیماری سے فوت ہونے والے شخص کو غسل دینے کا حکم

Question

اگر کسی شخص کا انتقال کسی متعدی بیماری سے ہوا ہو، اور ڈاکٹر یہ قرار دیں کہ اس بیماری سے زندہ لوگوں میں بھی انفیکشن منتقل ہو سکتا ہے، تو کیا ایسے متوفی کو غسل دینا ترک کیا جا سکتا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر میت نے کسی متعدی بیماری کی وجہ سے وفات پائی ہو اور اس سے بیماری کے پھیلنے کا خدشہ ہونے کی وجہ سے اسے غسل دینا متعذر ہو، تو اس میت کو غسل دینا واجب نہیں۔ ایسی حالت میں جب غسل دینا ممکن نہ ہو، تو شریعت کا اگلا حکم تیمم ہے۔ اگر بیماری کے پھیلاؤ کی وجہ سے تیمم کرانا بھی ممکن نہ ہو، تو تیمم بھی ترک کر دیا جائے گا اور اس کا مطالبہ بھی شرعًا ساقط ہو جائے گا۔ البتہ ایسی صورت میں میت کے لیے جو امور ممکن ہوں — جیسے کفن دینا، جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا — وہ باقی رہیں گے اور ان پر عمل کیا جائے گا۔

تفصیلات...

میت کو غسل دینے کا شرعی حکم

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان میت کو غسل دینا اُس کا شرعی حق ہے، اور یہ مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے؛ یعنی اگر کچھ لوگ اس فرض کو ادا کر لیں تو باقی سب سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے،
البتہ اگر میت غیر مسلم ہو، تو مسلمانوں پر اُسے غسل دینا واجب نہیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب الأم (1/312، طبع دار المعرفة) میں فرماتے ہیں: میت کو غسل دینا، اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا اس کا لوگوں پر حق ہے، ان کے لیے مجموعی طور پر ان چیزوں کا ترک کرنا جائز نہیں ، اور جب ان میں سے بعض لوگ یہ کام اس تعداد میں انجام دیں جو اس کے لیے کافی ہو، تو ان شاء اللہ تعالی یہ سب کے لیے کافی ہو جائے گا۔"

امام نووی رحمہ اللہ المجموع (5/119، طبع المنيرية) میں فرماتے ہیں: کافر میت کو غسل دینا نہ مسلمانوں پر واجب ہے اور نہ غیر مسلموں پر، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔"

میت کو غسل دینا متعذر ہونے کی صورت میں فقہاء کے اقوال

فقہاء کرام نے میت کو غسل دینے کے معاملے میں اصل سے بدل (تیمم) کی طرف تدریجی انتقال کا اصول اختیار کیا ہے، چنانچہ جب میت کو مکمل طور پر پانی سے غسل دینا ممکن نہ ہو۔ انہوں نے اس بات کا حکم دیا کہ جو اعضا دھوئے جا سکتے ہوں، انہی کو دھونا واجب ہے۔ یہ حکم اس اصول پر مبنی ہے: ''الميسور لا يسقط بالمعسور" یعنی: جو چیز میسر ہو، وہ اس وجہ سے ساقط نہیں ہوتی کہ باقی چیز میسر نہیں۔ یہ قاعدہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشادِ گرامی سے ماخوذ ہے: "إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ" ترجمہ: جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک تمہارے لئے ممکن ہو، اس پر عمل کرو۔ الأشباه والنظائر لابن السبكي، 1/155، طبع دار الكتب العلمية۔

میت کو غسل دینے میں تعذر مختلف وجوہ سے ہو سکتا ہے: کبھی یہ تعذر خود میت کی حالت کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسے اگر وہ جلی ہوئی ہو، کبھی یہ تعذر غسل دینے والے اور میت دونوں کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً مرد کے فوت ہونے کی صورت میں اگر صرف عورتیں موجود ہوں اور کوئی محرم نہ ہو، یا اس کے برعکس، اور کبھی یہ تعذر اس اندیشے کی وجہ سے ہوتا ہے کہ غسل دینے سے غسل دینے والے کو نقصان یا بیماری لاحق ہو سکتی ہے، یعنی میت سے غسل دینے والے تک بیماری کے منتقل ہونے کا خطرہ ہو، اور موجودہ سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے، وہ تیسری قسم سے تعلق رکھتی ہے — یعنی جب غسل دینے سے غاسل کو نقصان (بیماری) منتقل ہونے کا خطرہ ہو۔

امام نوویؒ نے المنهاج میں اور شیخ الاسلام ابن حجر ہیتمیؒ نے اس کی شرح تحفة المحتاج (ج: 3، ص: 184، طبع: المکتبة التجاریة الکبرى، مصر) میں لکھا:(اور اگر میت کو غسل دینا ممکن نہ ہو) مثلاً پانی نہ ملے، یا وہ جلا ہوا ہو، یا کسی زہریلی چیز نے ڈسا ہو، اور اگر غسل دیا جائے تو جسم گل جائے، یا غسل دینے والے پر بیماری یا زہر کے سرایت کرنے کا خوف ہو، اور وہ خود کو محفوظ بھی نہ رکھ سکے، تو ایسی صورت میں واجب ہے کہ میت کو تیمم کرایا جائے، جیسے زندہ انسان کے لیے تیمم واجب ہوتا ہے۔" اس پر علامہ الشروانی نے حاشیہ لگاتے ہوئے لکھا: یعنی: اگر غسل دینے سے میت کا جسم گلنے لگے، یا غسل دینے والے پر زہر کے پھیلنے کا خوف ہو — جیسے کہ سانپ یا زہریلی چیز کے اثر سے — تو دونوں صورتوں میں غسل ساقط ہو گا اور تیمم کیا جائے گا۔ "

اور اگر میت کو غسل دینے سے زہر یا بیماری کے پھیلنے کا خوف ہو، اور اس سے غسل دینے والے زندہ شخص کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں غسل کو ترک کر دینا صریح نص کے مطابق جائز ہے، کیونکہ شریعت نے زندہ انسان کو ضرر پہنچانے والی چیز سے بچانے کو مقدم رکھا ہے۔

بلکہ فقہائے مالکیہ نے اس سے بھی ہلکی صورت میں غسل ساقط ہونے کا فتویٰ دیا ہے: مثلاً جب میتوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے اور ہر ایک کو غسل دینا دشوار یا مشقت والا ہو — جیسے وبا یا کسی بڑے حادثے کے وقت — تو ایسی صورت میں بھی میت کو غسل دینا ساقط ہو جاتا ہے۔

علامہ موّاق رحمہ اللہ نے التاج والإكليل (ج: 3، ص: 46، طبع دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اگر شدید حالات پیش آ جائیں اور میتوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے، تو ان کو بغیر غسل دیے دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں، جب ان کو غسل دینے والے موجود نہ ہوں، اور ان میں سے کئی افراد کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا جائے۔ یہ قول امام اصبغ اور دیگر علماء کا بھی ہے۔"

علامہ احمد دَردیر رحمہ اللہ نے مختصر خلیل اور اس کی شرح (ج: 1، ص: 420، مع حاشیۃ الدسوقی، طبع دار إحياء الكتب العربية) میں فرمایا: (اور) جب میتوں کی کثرت ایسی ہو کہ سخت مشقت لاحق ہو، تو بدن کوملنا (دَلک) ترک کرنا جائز ہے، بلکہ اگر مشقت بہت شدید ہو — جیسا کہ ظاہر ہے — تو غسل نہ دینا بھی جائز ہے۔ ایسی صورت میں جن میتوں کو تیمم کرانا ممکن ہو، انہیں تیمم کرایا جائے، اور اگر تیمم کرانا بھی ممکن نہ ہو تو ان پر بغیر غسل اور بغیر تیمم کے جنازہ پڑھا جائے، اور یہی زیادہ صحیح قول ہے۔ علامہ دَسوقی رحمہ اللہ حاشیہ میں فرماتے ہیں: (قوله: المشقة الفادحة) سے مراد بدن کو ملنے (دَلک)سے پیش آنے والی غیر معمولی مشقت ہے (قوله: وكذا عدم الغسل)" یعنی اسی طرح غسل کا ترک کرنا بھی جائز ہے، اگر میتوں کی کثرت ایسی ہو کہ ان کو غسل دینا سخت غیر معمولی مشقت بن جائے، اگرچہ مَلا نہ بھی جائے۔ (قوله: وإلا صلى)" یعنی اگر تیمم دینا بھی مشقتِ شدیدہ کی وجہ سے ممکن نہ ہو، تو ان میتوں پر بغیر غسل اور بغیر تیمم کے نمازِ جنازہ پڑھ لی جائے۔ اور یہ بات اس قول سے متعارض نہیں کہ "غسل اور نمازِ جنازہ لازم و ملزوم ہیں"، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں شریعت میں مطلوب ہیں، اور اس میں شک نہیں کہ جب میتوں کی کثرت ہو تو ابتداءً غسل مطلوب ہوتا ہے، اگرچہ شدید مشقت کی بنا پر اس کا ترک معاف ہو۔"

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مشقت کا تعلق حاجیّات (ضرورت سے کم درجے کی حاجتوں) سے ہے، جو کہ ضروریّات سے کم درجے پر آتی ہیں۔ پس جو چیز محض حاجت کی وجہ سے ترک کرنا جائز ہو، وہ ضرورت کے وقت بدرجہ اولیٰ ترک کی جا سکتی ہے، اور جان کی حفاظت تو بنیادی ضروریات میں سے سب سے اہم ہے۔

مراد یہ ہے کہ ہم یہ اصول طے کریں کہ اگر کسی میت کو کسی شرعی عذر کی بنا پر غسل دینا ممکن نہ ہو، تو اسے تیمم دیا جائے گا، اور اگر تیمم بھی ممکن نہ ہو، تو وہ بھی ساقط ہو جائے گا۔ البتہ اس کے بعد جو امور ممکن ہوں، جیسے کفن دینا، نمازِ جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا، وہ کیے جائیں گے؛ " جو چیز میسر ہو، وہ اس وجہ سے ساقط نہیں ہوتی کہ باقی چیز میسر نہیں۔

خلاصہ
جن افراد کی وفات کسی متعدی بیماری کے باعث ہوئی ہو اگر ان کی میتوں کو غسل دینا بیماری کے پھیلنے کے خدشے کی بنا پر ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں شریعت غسل کا وجوب ساقط کر دیتی ہے۔ اس کے بعد شرعی ترتیب کے مطابق تیمم کا حکم آتا ہے، چنانچہ اگر تیمم ممکن ہو تو کیا جائے، اور اگر وہ بھی متعدی مرض کے پھیلاؤ کے اندیشے کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو وہ بھی ساقط ہو جاتا ہے اور شرعًا اس کا مطالبہ نہیں رہتا۔ البتہ اس کے بعد جو امور ممکن ہوں، جیسے کفن دینا، نمازِ جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا، وہ ضرور انجام دیے جائیں گے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas