مغربی ممالک میں قرآنِ مجید کی توہین...

Egypt's Dar Al-Ifta

مغربی ممالک میں قرآنِ مجید کی توہین کی سنگینی اور مسلمان کا صحیح طرزِ عمل

Question

میں ایک مغربی ملک میں مقیم مسلمان ہوں۔ میں نے ایک غیر مسلم کو دیکھا کہ اُس نے میرے سامنے مصحف قرآنِ مجید کو شہید کیا، تو مجھے بہت غصہ آیا، میں نے اس پر ردعمل ظاہر کیا، یہاں تک کہ میں قریب تھا کہ اسے پیٹوں اور اُس کی اُس کتاب بے حرمتی کروں جسے وہ مقدس مانتا ہے۔ تو کیا میرا یہ عمل شرعاً درست تھا؟

Answer

تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید کا احترام، اس کی حفاظت اور اس کی تعظیم واجب ہے، اور اس کی توہین کرنا حرام ہے۔ قرآنِ مجید کی توہین کرنا اور اُسےشہید کرنا (پھاڑنا) ایک دینی، اخلاقی اور سماجی جرم ہے، اور موجودہ بین الاقوامی عرف میں یہ "نفرت انگیز جرائم" (Hate Crimes) کے زمرے میں آتا ہے، جو دشمنی اور تشدد پر اکسانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور سائل کو — اور دیگر مسلمانوں کو بھی — چاہیے کہ وہ اس قسم کے عمل کی مذمت اور مجرم کی گرفت کے لیے قانونی راستے اختیار کریں، اور اس فعل کا جواب گالی گلوچ، سبّ و شتم یا غیر مسلموں کی اُس کتاب کو پھاڑنے سے نہ دیں جسے وہ مقدس اور قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہر وہ کتاب جس پر کسی انسان کا عقیدہ ہو، اُس کے احترام اور اُس کی توہین سے اجتناب کا تقاضا خود اسی عقیدے کے احترام کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔  اس کے علاوہ ان کتابوں میں عموماً اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ، انبیائے کرام کے اسمائے گرامی اور دیگر الہامی کتب کا ذکر بھی ہوتا ہے۔

پھر اس سوال میں ذکر کیے گئے ردعمل کے انداز میں ایک سنگین خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں حملہ آور کے علاوہ ان لوگوں کو بھی (بلا امتیاز اور بلا انصاف) نشانہ بنایا گیا ہے جو اس کتابِ مقدس پر ایمان رکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کی بے حرمتی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ایسا طرزِ عمل دین کی ساکھ اور اس کے وقار کو اس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے جس کی گہرائی کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

مصحف کا مفہوم

لغوی معنی: ''المُصْحَف" اور "المِصْحَف" دونوں لفظ صحیح ہیں، ان کا مطلب ہے: وہ مجموعہ جو دو جلدوں کے درمیان لکھے گئے صحیفوں (اوراق) کو جمع کیے ہو۔ لفظ "مصحف" کا "کسرہ" اور "ضمہ" دونوں طریقے سے تلفظ لغت میں ثابت ہیں۔ امام ابو عبید کہتے ہیں کہ قبیلہ تمیم اسے زیر کے ساتھ (مِصحف) اور قبیلہ قیس اسے پیش کے ساتھ (مُصحف) پڑھتے ہیں۔ جبکہ کس نے اسے زبر (مَصحف) کے ساتھ پڑھا ہو اس کا ذکر نہیں ملتا، یہ صرف لَحیانی نے کسائی سے نقل کیا ہے۔ امام ازہری فرماتے ہیں: قرآن کو "مصحف" اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے "أصحف" کیا گیا ہے، یعنی مختلف مکتوب صحیفوں کو ایک جگہ دو جلدوں کے درمیان جمع کر دیا گیا ہے۔ لسان العرب لابن منظور، ج: 9، ص: 186، طبع دار صادر۔

اصطلاحی معنی: شرعی اصطلاح میں "مصحف" اُس چیز کو کہا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا کلام دو جلدوں کے درمیان لکھا ہوا ہو۔ یہ تعریف اُس صورت میں صادق آتی ہے جب پورا قرآن موجود ہو، اور اس پر بھی جب کچھ حصہ ہو — جیسے ایک حزب — بشرطیکہ عرفاً اُسے "مصحف" کہا جاتا ہو۔ حاشیۃ القلیوبی علی شرح المحلی للمنہاج، ج: 1، ص: 39، طبع دار الفكر۔

مصحف کے احترام اور اس کی تعظیم کا وجوب

تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید کا احترام، اس کی حفاظت اور تعظیم واجب ہے، اور اس کی کسی بھی قسم کی بے حرمتی کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر، ارادے اور اختیار کے ساتھ قرآنِ مجید کی توہین کرے تو یہ فعل اسے دائرۂ اسلام سے خارج کر سکتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب التبيان في آداب حملة القرآن (ص: 190، طبع دار ابن حزم) میں لکھتے ہیں: "تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قرآنِ مجید کی حفاظت اور اس کا احترام واجب ہے"۔

بے شک قرآنِ مجید کی حفاظت، اس کی تعظیم، اور اس مقصد کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم میں شامل ہے، خواہ یہ تعظیم مسلمانوں کے درمیان آپس میں ہو یا عام انسانوں کے سامنے قرآن کے مقام و مرتبے کو بلند رکھنے کے لیے — چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ ترجمہ: یہ (بات طے شدہ ہے) اور جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے۔  [الحج: 32]
امام آلوسی رحمہ اللہ اپنی تفسیر روح المعاني (9/141، طبع دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: (حُرُماتِ الله) حرمات حرمۃ کی جمع ہے ان سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا شرعاً احترام لازم ہے۔"

مغربی ممالک میں قرآنِ مجید کو شہید کرنے پر ردِّ عمل

جب سوال میں ذکر کردہ عمل پر غور کیا جائے، تو یہ اس چیز پر دلالت کرتا ہے جسے "نفرت" (Hate) کہا جاتا ہے، اور اسلام ایسی نفرت کا جواب نفرت سے دینے کا قائل نہیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو محبت، باہمی رواداری کی ترغیب دیتا ہے اور انسانیت کے درمیان نفرت اور اس کے مظاہر کو ختم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اصل تعلقات کی بنیاد امن، سلامتی، تعارف اور باہمی تعاون پر ہے، نہ کہ نفرت اور تشدد پر۔

لہٰذا اگر کوئی غیر مسلم نفرت اور دشمنی کا مظاہرہ کرے، تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ نفرت، جھگڑے اور کینہ پروری کے اسباب کو ختم کرے، اور جواب میں ایسے الفاظ یا افعال نہ کرے جن میں گالی، توہین یا کسی کے عقیدے کی تحقیر ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ترجمہ: اور تم انہیں گالی مت دو جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ورنہ وہ بھی جہالت سے دشمنی میں اللہ کو گالی دینے لگیں گے۔ [الأنعام: 108]
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ (تفسیر مفاتيح الغيب، 13/109) میں فرماتے ہیں: جان لو کہ یہ بات اس قول سے بھی تعلق رکھتی ہے جو کفار نے رسولِ اکرم ﷺ سے کہا تھا: "آپ نے تو یہ قرآن لوگوں سے سن سن کر اور ان کے ساتھ مذاکرہ کرتے ہوئے جمع کر لیا ہے۔" تو ممکن تھا کہ کچھ مسلمان جب کفار کی یہ باتیں سنتے، تو محض ردعمل کے طور پر غصے میں آ کر ان کے معبودوں کو گالیاں دے دیتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا، کیونکہ اگر تم ان کے معبودوں کو برا کہو گے تو وہ بھی غصے میں آ کر اللہ تعالیٰ کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں گے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے اس طرح کی باتوں سے احتراز کرنا لازم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر تمہارا مخالف تم سے جہالت اور بے ہودگی سے پیش آئے تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم بھی اسی انداز میں جواب دو، کیونکہ اس سے گالی گلوچ اور بے ادبی کا دروازہ کھلتا ہے، اور یہ بات اہلِ عقل کے شایانِ شان نہیں۔

اگرچہ جب کسی مسلمان کے دین، عقیدے یا مقدّسات کو نشانہ بنایا جائے تو اُس کا غصہ فطری اور شرعی طور پر درست ہوتا ہے، کیونکہ یہ اُس کے دینی وابستگی اور ایمان کا اظہار ہوتا ہے، تاہم اس غصے کے اظہار کا طرزِ عمل شریعت اور زمانے کے لحاظ سے نافذ قوانین و ضوابط کی حدود میں ہونا چاہیے، تاکہ اس کا نتیجہ دین کی شائستہ، مہذب اور باوقار تصویر پیش کرنے کی صورت میں ظاہر ہو، اور اسی طرح اسے انسانیت کے درمیان طے شدہ ضوابط اور ان اداروں کے اصولوں کی پاسداری بھی لازم ہے جن کا مشن نفرت انگیزی اور نسلی تعصب کا خاتمہ ہے۔

اور شرعاً کسی غیر مسلم کے اس قبیح فعل کے بدلے میں اُس کی کتاب کو — خواہ وہ کوئی بھی کتاب ہو — پھاڑنا یا اس کی بے حرمتی کرنا جائز نہیں، کیونکہ ہر وہ کتاب جس پر کسی انسان کا عقیدہ ہو، اُس کے احترام اور اُس کی توہین سے اجتناب کا تقاضا خود اسی عقیدے کے احترام کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔  نیز ان کتابوں میں اکثر اللہ تعالیٰ کے اسماء، انبیائے کرام علیہم السلام کے نام، اور دیگر الہامی کتب کا ذکر بھی ہوتا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ سوال میں ذکر کیے گئے ردعمل کے انداز میں ایک سنگین خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں حملہ آور کے علاوہ ان لوگوں کو بھی (بلا امتیاز اور بلا انصاف) نشانہ بنایا گیا ہے جو اس کتابِ مقدس پر ایمان رکھتے ہیں اور انہوں نے قرآن کی بے حرمتی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ایسا طرزِ عمل دین کی ساکھ اور اس کے وقار کو اس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے جس کی گہرائی کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

اور اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ قرآنِ کریم کو شہید کرنے جیسا عمل موجودہ بین الاقوامی عرف کے مطابق "نفرت انگیز جرائم" (Hate Crimes) کے زمرے میں آتا ہے، جنہیں جرم قرار دینا اور ان کی روک تھام کرنا اب ایک متفقہ عالمی اصول بن چکا ہے۔ چنانچہ "عہدِ بین الاقوامی برائے حقوقِ انسانی" (International Covenant on Civil and Political Rights) کی شق (20)، پیراگراف (2) میں صراحت ہے: قانون کے ذریعے ہر اُس دعوت پر پابندی عائد کی جائے گی جو قومی، نسلی یا مذہبی نفرت پر مبنی ہو اور جو امتیاز، دشمنی یا تشدد پر اکسانے کا باعث بنے۔"

جب عقلاء اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اس قسم کا فعل ایک جرم ہے، اور جب پُرامن بقائے باہمی کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کا جواب پُرامن، قانونی اور مہذب طریقے سے دیا جائے، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ردعمل میں وہی قانونی اور بین الاقوامی راستے اختیار کریں جو اُن کے پُرامن قومی اور عالمی کردار کی ترجمانی کرتے ہوں۔

اور پُرامن بقائے باہمی، تشدد اور نفرت سے گریز — یہ سب وہ اقدار ہیں جن پر دنیا بھر کے دینی اداروں اور فتویٰ جاری کرنے والی تنظیموں کی نمائندہ عالمی تنظیم "الأمانة العامة لدُور وهيئات الإفتاء في العالم" نے زور دیا ہے، اور یہی اقدار "وثیقۃ التسامح الفقهي والإفتائي" (فقہی و افتائی رواداری کی دستاویز) کی بنیاد بھی ہیں۔ اس دستاویز میں بیان کیا گیا ہے: پُرامن بقائے باہمی: یہ قدر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مسلکی اختلافات اور فقہی تنوع کو سمجھداری، اخلاق اور مثبت طرز عمل کے ساتھ برتا جائے، انسانی ارتقاء کے لیے کوشش کی جائے، متفقہ عالمی معاہدوں اور دستاویزات کا احترام کیا جائے، نفرت کی مذمت کی جائے، اور فقہ و فتویٰ کو انتہاپسندی کے مقابلے، امن و استحکام کے فروغ، اور علمائے شریعت کے بارے میں حسنِ ظن کو عام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

خلاصہ

اس بنیاد پر، اور سوال میں مذکور واقعے کے پیشِ نظر کہا جائے گا کہ قرآنِ کریم کی توہین اور اُسے شہید کرنا دینی، اخلاقی اور عرفی اعتبار سے ایک سنگین جرم ہے۔ لہٰذا سائل اور دیگر مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس جرم کی مذمت کے لیے قانونی راستے اختیار کریں، اور اس کے ردعمل میں نہ تشدد کا راستہ اپنائیں، نہ گالی گلوچ یا بد زبانی کریں، اور نہ ہی غیر مسلموں کی اُس کتاب کو پھاڑیں جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں یا جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas