ناگوار حالات کے باوجود مکمل وضو کرن...

Egypt's Dar Al-Ifta

ناگوار حالات کے باوجود مکمل وضو کرنے کا حکم

Question

ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس کی کیفیت کیا ہے؟ اور سردیوں کے موسم میں وضو میں آسانی کے لیے گرم پانی کے استعمال کا کیا حکم ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ پس کامل وضو کا مطلب یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر انجام دیا جائے، ہر عضو کو اس کا حق دیا جائے۔یہ کامل وضو ٹھنڈے اور گرم دونوں طرح کے پانی سے یکساں طور پر حاصل ہو سکتا ہے۔ اور "ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنے"  کا مطلب یہ ہے کہ مکلف مسلمان مشقت کے باوجود اپنے اعضاء کو اچھی طرح دھوئے، اپنے سر اور کانوں کا مکمل مسح کرے، خواہ وضو کرتے وقت اسے کسی قابلِ برداشت مشقت کا سامنا ہو، جیسے سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا، یا کسی ایسی حالت میں وضو کرنا جب طبیعت سستی کی وجہ سے کچھ بوجھ محسوس کر رہی ہو۔ شرط یہ ہے کہ وضو پر قدرت ہو اور اس سے کسی قسم کا ضرر یا نقصان نہ ہو۔اور اگر کسی کو سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں ضرر (نقصان) ہو تو اس کے لیے گرم پانی کا استعمال زیادہ مناسب ہے، بلکہ وہ شخص اس بات پر ثواب کا مستحق ہوتا ہے کہ وہ ایسے سخت ٹھنڈے پانی سے وضو نہ کرے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو یا کامل وضو کرنے سے مانع ہو۔ اور "ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا" (إسباغ الوضوء على المكاره) والی حدیث ایسی مشقت کے ساتھ مخصوص ہے جو شدید نہ ہو۔

کامل اور احسن طریقے سے وضو کرنے کی فضیلت کا بیان

شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو کامل وضو کرنے اور اسے خوبصورتی کے ساتھ انجام دینے کی ترغیب دی ہے، اور اس عمل کو ایسی عظیم عبادت قرار دیا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، لغزشوں کو معاف فرما دیتا ہے، اور بندے کے درجات کو جنت میں بلند کرتا ہے؛ خصوصاً جب سرد موسم میں ٹھنڈا پانی اعضائے وضو کو چھوتا ہے، یا جب کسی عضو میں تکلیف کے باوجود بندہ وضو کا اہتمام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس عمل کی عظمت اس حد تک پہنچتی کہ نبی کریم ﷺ نے اسے اللہ کی راہ میں پہرہ دینے (رباط) کے عمل سے تشبیہ دی، جو عبادات میں سب سے اعلیٰ اور مقرب ترین عمل ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟» قالوا: بلى يا رسول الله، قال: «إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ» ترجمہ: " کیا میں تم لوگوں کو ایسی چیز نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات بلند کرتا ہے، وہ ہے: ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا، زیادہ قدم چل کر مسجد جانا، اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا، یہی «رباط» ہے"(یعنی: سرحد کی حفاظت و نگہبانی ہے) (مسلم)۔

امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "شرح صحیح مسلم" (جلد 3، صفحہ 141، طبع دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: "إسباغ الوضوء" سے مراد وضو کو مکمل کرنا ہے، اور "المكاره" سے مراد وہ تکالیف ہیں جو انسان کو لاحق ہو سکتی ہیں، جیسے سخت سردی اور جسمانی درد وغیرہ۔ اور آپ ﷺ کے ارشاد: «فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ» یعنی یہ وہی رباط ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور "رباط" کا اصل مطلب ہے کسی چیز پر پابندی اور قیام، یعنی گویا اس نے اپنے آپ کو اس عبادت پر قائم رکھا اور اسی میں مشغول کر دیا۔

ناگواری کے وقت کامل وضو کرنے کے مفہوم اور اس کی کیفیت کا بیان

"إسباغ" ایک ایسا لفظ ہے جس کے کئی معانی ہیں، جن میں سے ایک معنی ہے: مکمل کرنا اور پورا پورا ادا کرنا۔ کہا جاتا ہے: "شیئ سابغ "، یعنی مکمل اور بھرپور ۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب ہے: ﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً﴾ [لقمان: 20]، یعنی: اللہ نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے پوری کر دی ہیں۔ پس وضو میں "إسباغ" سے مراد ہے: وضو کو مکمل اور کامل طور پر کرنا، جیسا کہ امام رازی کی کتاب "مختار الصحاح" (ص: 141، طبع: المكتبة العصرية) میں ذکر کیا گیا ہے۔

امام بغوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "معالم التنزيل" (جلد 6، صفحہ 290، طبع دار طیبہ) میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ﴾ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وضو کو مکمل کرنے سے مراد – جیسا کہ اوپر ذکر ہوا – یہ ہے کہ اعضائے وضو کو دھونے میں پورے طور پر اتمام و اکمال کیا جائے، یعنی ہر عضو پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے اور ہر حصے کو صحیح طریقے سے دھویا جائے، یہاں تک کہ ہر عضو کو اس کا پورا حق دیا جائے۔ یہ مفہوم سنتِ نبویہ مطہرہ سے ثابت ہے۔چنانچہ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی نماز پوری (مکمل) نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اچھی طرح وضو کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے، (یعنی) وہ اپنا منہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر «الله اكبر» کہے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر قرآن میں سے جو اس کیلئے ممکن اور آسان ہو اسے پڑھے۔'' اس حدیث کو امام ابوداؤد اور امام نسائی رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔

حدیث  مبارکہ میں موجود لفظ "مَکَارِہ"، "مَكْرَهَة" کی جمع ہے، اور اس سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کیلئے ناگوار ہو اور اس پر شاق گزرتی ہے۔ "کُرْه" اور "كَرْه" دونوں کا مطلب ہے: مشقت، جیسا کہ ابن الأثیر کی کتاب "النهاية" (جلد 4، ص 168، ط: المكتبة العلمية) میں ہے۔

اور "إسباغِ الوضوء على المكاره" سے مراد یہ ہے کہ مکلف شخص وضو کے تمام اعضا کو اچھی طرح دھوئے، سر اور کانوں کا مکمل مسح کرے، باوجود اس کے کہ وضو کے دوران اسے کوئی ناگواری یا تکلیف پیش آئے۔ اس کا مفہوم ہر اس مشقت کو شامل ہے جو مکلف کو وضو مکمل کرتے وقت پیش آتی ہو، چاہے وہ مشقت سخت سردی میں بہت زیادہ ٹھنڈے پانی کے استعمال سے ہو، یا فرض کی حد سے کچھ زیادہ اعضا دھونے میں ہو، یا وضو کے پانی کی تلاش اور خریدنے کی زحمت میں ہو، یا اس جیسی کوئی اور تکلیف ہو۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ "الاستذکار" میں فرماتے ہیں کہ حدیث میں "إسباغ الوضوء على المكاره" کا مطلب ہے وضو کو مکمل اور پورا کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ﴾ یعنی اللہ نے تم پر اپنی نعمتیں پوری اور مکمل کردیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وضو میں ہر اس عضو پر پانی بہایا جائے جس کا دھونا فرض ہے، اور ساتھ ہاتھ بھی پھیرا جائے۔ اگر ایک مرتبہ پورا وضو کیا، یعنی مکمل انداز میں ہر عضو کو دھویا تو ایک بار کا وضو مکمل ہوگیا آپ ﷺ کے فرمان"علی المکاره" کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شدید سردی اور ہر وہ حالت ہے جس میں انسان اپنے نفس کو وضو پر مجبور کرتا ہے، اور اس میں شیطان کی جانب سے پیدا کی گئی سستی کو دور کرنا بھی شامل ہے۔

لہٰذا، کامل وضو یعنی ہر عضو کو اس کا پورا حق دینا، اچھی طرح دھونا اور وضو کو مکمل کرنا، یہ سب ٹھنڈے اور گرم دونوں طرح کے پانی سے حاصل ہو سکتا ہے، لیکن اگر وضو کے وقت کوئی ایسی چیز پیش آجائے جو مشقت یا ناگواری کا باعث ہو — جیسے سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا — اور پھر بھی مکلف شخص ان حالات میں وضو کرے، تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادہ اجر و ثواب کا موجب ہوگا۔

سخت سردی میں وضو کے لیے گرم پانی استعمال کرنے کا حکم

سخت سردی کے موسم میں اگر کوئی شخص ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کی وجہ سے نقصان محسوس کرے تو ایسی صورت میں گرم پانی کا استعمال کرنا اولیٰ ہے، کیونکہ شریعت میں ضرر کو دور کرنا منفعت حاصل کرنے پر مقدم ہے۔ نیز، گرم پانی وضو کو مکمل طریقے سے ادا کرنے میں مدد دیتا ہے، خاص طور پر آج کے دور میں جب سہولیات عام ہیں۔ بلکہ اگر کوئی شخص سخت ٹھنڈے پانی کے استعمال سے تکلیف یا نقصان محسوس کرے یا اس سے مطلوبہ مکمل وضو ادا نہ ہو سکے، تو اس صورت میں ٹھنڈے پانی کو ترک کر دینا ثواب کا باعث ہوگا۔ یہی حکم شدید گرم پانی کے بارے میں بھی ہے۔ جہاں تک حدیث ("إسباغ الوضوء على المكاره" یعنی ناگواری یا مشقت کے باوجود وضو مکمل کرنا) کا تعلق ہے، تو اس حدیث کا اطلاق صرف اُن مشقتوں پر ہوتا ہے جو بہت زیادہ شدید نہ ہوں، کیونکہ معمولی مشقت عبادت کی کما حقہ ادائیگی میں مانع نہیں ہوتی۔

شیخ زرقانی رحمہ اللہ نے "شرح مختصر خلیل" (1/33) میں فرمایا: اگر کوئی شدید گرمی یا سردی کی وجہ سے وضو چھوڑے اور اس کا مقصد شریعت کی پیروی ہو، مثلاً اس وجہ سے کہ یہ شدت وضو کے مکمل کرنے سے مانع ہے یا نقصان دہ ہے، تو اسے اجر ملے گا، اور حدیث (إسباغ الوضوء على المكاره"ناگواری اور مشقت میں وضو مکمل کرنا") اس پر محمول ہے کہ مشقت ایسی نہ ہو جو مطلوبہ طریقے سے عبادت کے ادا کرنے میں مانع ہو۔

علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ "تحفۃ المحتاج" (1/74) میں فرماتے ہیں: شدید گرمی یا سردی کی حالت میں اگر ان سے وضو مکمل نہ ہو سکتا ہو یا نقصان پہنچتا ہو تو ترکِ وضو پر ثواب ملتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ حدیث "ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا" کے خلاف ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ حدیث ان مشقتوں کے بارے میں ہے جن میں شدت نہ ہو، کیونکہ شدت عبادت کے کامل طور پر ادا ہونے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

اور علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المغني" (1/14) میں فرمایا: پاک چیز کے ساتھ گرم کیے گئے پانی سے وضو کرنا مکروہ نہیں، الاّ یہ کہ وہ اتنا گرم ہو کہ اس کی گرمی وضو کو مکمل کرنے سے مانع ہو۔ جن صحابہ کرام سے گرم پانی سے وضو کرنا مروی ہے اُن میں حضرت عمر، ان کے صاحبزادے، حضرت ابن عباس اور حضرت انس رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اور یہی اہلِ حجاز اور اہلِ عراق کا قول ہے۔

خلاصہ
اوپر کی وضاحت کی روشنی میں اور سوال کے مطابق: کامل اور مکمل وضو  کا مطلب یہ ہے کہ وضو کو اچھی طرح مکمل کیا جائے، ہر عضو کو پورے طریقے سے دھویا جائے، اور اس کے ہر حصے کو اس کا حق دیا جائے۔ یہ کامل وضو ٹھنڈے اور گرم دونوں طرح کے پانی سے یکساں طور پر حاصل ہو سکتا ہے۔ اور "ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنے"  کا مطلب یہ ہے کہ مکلف مسلمان مشقت کے باوجود اپنے اعضاء کو اچھی طرح دھوئے، اپنے سر اور کانوں کا مکمل مسح کرے، خواہ وضو کرتے وقت اسے کسی قابلِ برداشت مشقت کا سامنا ہو، جیسے سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا، یا کسی ایسی حالت میں وضو کرنا جب طبیعت سستی کی وجہ سے کچھ بوجھ محسوس کر رہی ہو۔ شرط یہ ہے کہ وضو پر قدرت ہو اور اس سے کسی قسم کا ضرر یا نقصان نہ ہو۔اور اگر کسی کو سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں ضرر (نقصان) ہو تو اس کے لیے گرم پانی کا استعمال زیادہ مناسب ہے، بلکہ وہ شخص اس بات پر ثواب کا مستحق ہوتا ہے کہ وہ ایسے سخت ٹھنڈے پانی سے وضو نہ کرے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو یا کامل وضو کرنے سے مانع ہو۔ اور "ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا" (إسباغ الوضوء على المكاره) والی حدیث ایسی مشقت کے ساتھ مخصوص ہے جو شدید نہ ہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas