بغیر رسمی الفاظ کہے اجرت ادا کرنے ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

بغیر رسمی الفاظ کہے اجرت ادا کرنے کا حکم

Question

بغیر رسمی الفاظ کہے اجرت دینے کا کیا حکم ہے؟ ایک شخص روزانہ عام گاڑی لیتا ہے جو اسے اسے دفتر تک پہنچا دیتی ہے، اور وہ ڈرائیور یا کسی اور کے ساتھ ایجاب و قبول کے الفاظ نہیں بولتا۔ وہ صرف اس ٹیکسی میں بیٹھ جاتا ہے جس کے بارے میں اسے پہلے سے معلوم ہے کہ یہ اسی سمت جا رہی ہے جہاں وہ جانا چاہتا ہے، پھر وہ معروف کرایہ ادا کر دیتا ہے، یا تو براہِ راست ڈرائیور کو دیتا ہے یا کسی سواری کے ذریعے ڈرائیور تک پہنچا دیتا ہے، جیسا کہ لوگوں میں رائج ہے۔ تو کیا یہ معاملہ شرعاً صحیح شمار ہوگا؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اس صورت میں ہونے والا اجارہ (اجرت کا عقد) شرعاً درست ہے، اور یہ اجارہ بالمعاطات (بغیر رسمی الفاظ کہے لین دین کرنے) کی ایک صورت ہے۔ لہٰذا مذکورہ شخص کے لیے ان گاڑیوں میں سوار ہونا اور مقررہ کرایہ ادا کرنا جائز ہے، چاہے وہ خود براہِ راست کرایہ دے یا کسی دوسرے مسافر کے ذریعے ڈرائیور تک پہنچائے، بشرطیکہ کرایہ معلوم ہو اور منزلِ مقصود بھی متعین ہو۔

تفصیلات:

اجارہ کی مشروعیت کا بیان
اللہ تعالیٰ نے اجارہ اس لیے مشروع کیا کہ لوگوں کی ضروریات اس سے وابستہ ہیں، کیونکہ ہر شخص اپنی ضرورت کی ہر چیز خریدنے پر قادر نہیں ہوتا، لہٰذا اجارہ اسے یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ کسی چیز سے خریدے بغیر ہی فائدہ اٹھا سکے۔

اجارہ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ معلوم اجرت کے بدلے معلوم منفعت کی بیع ہے، جیسا کہ امام زیلعی کی تبیین الحقائق (5/105، مطبعہ کبریٰ امیریہ) اور امام ابن عرفہ کی المختصر الفقهي (8/159، مؤسسہ خلف) میں بیان کیا گیا ہے۔

اور اجارہ کی مشروعیت کی اصل قرآنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ ہے: ﴿قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ﴾ ترجمہ: ان دونوں (لڑکیوں) میں سے ایک نے کہا: ابا جان! اسے خادم رکھ لیجیے، بے شک بہتر خادم وہی ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔ [القصص: 26]

امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: «رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما نے بنو دِیل کے ایک شخص کو راہنمائی کے لیے اجرت پر رکھا» (امام بخاری نے روایت کیا)۔

اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اجارہ بالکل مشروع ہے، جیسا کہ امام ابن قدامہ کی کتاب المغنی (5/321، مکتبہ القاہرہ) میں ہے۔

سفر کیلئے گاڑیوں پر بیٹھنے اور بغیر لفظی ایجاب و قبول کے کرایہ ادا کرنے کا حکم

پوچھی گئی صورت عقدِ اجارہ ہی کی ایک شکل ہے، کیونکہ اس میں معاہدہ گاڑی پر بیٹھ کر ایک مقررہ جگہ تک پہنچنے کی منفعت کے عوض متعین کرایہ دینے پر ہوتا ہے۔ فقہاء نے اس صورت کو جائز قرار دیا ہے، کیونکہ لوگوں کا قدیم زمانے سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ سواری کے لیے جانور کرایے پر لیتے تھے اور سامان اٹھانے کے لیے حمّالوں کو اجرت پر رکھتے تھے۔

امام ابو الحسین القدوری حنفی نے المختصر (ص: 101، ط. دار الكتب العلمية) میں عقدِ اجارہ میں منافع کی تعیین کے طریقوں پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: منافع کبھی مدت کے ذریعے معلوم ہو جاتے ہیں … اور کبھی عمل اور اس نام کے ذریعے، جیسے کسی نے کسی آدمی کو کپڑا رنگنے یا سینے پر اجرت پر رکھا، یا کسی جانور کو اس شرط پر اجرت پر لیا کہ وہ اس پر ایک معلوم بوجھ لادے یا ایک متعین مسافت تک سوار ہو۔ اور کبھی منافع تعیین اور اشارہ کے ذریعے متعین ہوتے ہیں، جیسے کسی نے کسی آدمی کو اجرت پر رکھا کہ یہ کھانا فلاں جگہ پہنچا دے۔"

امام ابو عبد الله المواق المالکی نے التاج والإكليل (7/568، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اجارہ کی تیسری قسم جانوروں کو کرایہ پر لینا ہے، اور یہ چار مقاصد کے لیے کرائے پر لیے جاتے ہیں: سواری کے لیے، بوجھ لادنے کے لیے، پانی کھینچنے کے لیے، اور کھیت میں جوتنے کے لیے۔"

اور امام نووی شافعی نے روضۃ الطالبین (5/173، المكتب الإسلامي) میں فرمایا: اجارہ دو قسموں پر تقسیم ہوتا ہے:

عین (متعین چیز) پر، جیسے کسی خاص جانور کو سواری یا بوجھ لادنے کے لیے اجرت پر لینا۔

ذمّہ پر، جیسے کسی غیر متعین وصف والے جانور کو سواری یا بوجھ لادنے کے لیے اجرت پر لینا۔"

امام ابن قدامہ حنبلی نے الكافي (2/173-174، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: منفعت کا معلوم ہونا شرط ہے... اور اس کو جاننے کے دو طریقے ہیں:
پہلا یہ کہ کام کو متعین کر دیا جائے، جیسے کسی خاص کپڑے کی سلائی کرنا، یا سواری کرنا، یا کسی معلوم چیز کو کسی متعین جگہ تک پہنچانا۔"

اور اجارہ اس وقت تک صحیح طور پر منعقد نہیں ہوتا جب تک اس کے ارکان اور اس کی شرعی شرائط پوری نہ ہوں۔ ان ارکان میں سے ایک رکن، جس پر فقہاء کا اتفاق ہے، صیغۂ ایجاب و قبول (رسمی الفاظ ادا کرنا) ہے۔ اگر یہ رکن موجود نہ ہو تو اس کو اجارہ نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ غصب شمار ہو گا۔ جیسا کہ امام ابن نجیم حنفی نے البحر الرائق (7/297، دار الكتاب الإسلامي)، امام ابوالبرکات دَردیر مالکی نے الشرح الكبير (4/2، دار الفكر)، امام نووی شافعی نے روضة الطالبين (5/173، المكتب الإسلامي)، اور امام بُہوتی حنبلی نے شرح منتهى الإرادات (2/241، عالم الكتب) میں بیان فرمایا ہے۔

اور صیغہ ہی دراصل وہ علامت ہے جو فریقین کے درمیان شرعاً مطلوب رضامندی و رغبت پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ امام ابوعبد اللہ خَرَشی نے شرح مختصر خلیل (7/3، دار الفكر) میں بیان فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾ ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ، مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت ہو۔ [النساء: 29]
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''بے شک خرید و فروخت باہمی رضا مندی سے ہوتی ہے۔" اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے (اور یہ الفاظ ابنِ ماجہ کے ہی ہیں) اور امام ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے۔

اور اجارہ بیع کے عموم میں شامل ہے، کیونکہ یہ دراصل عوض کے بدلے کسی منفعت کو بیچنے کا نام ہے، جیسا کہ امام ابن نجیم نے البحر الرائق (7/297) میں ذکر کیا ہے۔

امام شهاب الدین زنجانی نے تخريج الفروع على الأصول (ص: 143، مؤسسه الرسالة) میں فرمایا: مالی معاملات میں ہونے والے عقود کی بنیاد اصلًا باہمی رضا مندی پر ہے...لیکن چونکہ حقیقتِ رضا ایک پوشیدہ امر ہے اور دل کا معاملہ ہے، اس لیے حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ لوگوں کو ایک جامع اور واضح معیار کی طرف لوٹایا جائے جس سے اس رضا پر استدلال کیا جا سکے، اور وہ ہے ایجاب و قبول، جو دونوں فریقین کی رضا پر دلالت کرتے ہیں۔"

اجارہ کے عقد میں صیغہ کبھی قولی ہوتا ہے اور یہی اصل ہے، مثلاً سوار کہے: "میں نے تمہیں اجرت پر لیا ہے کہ تم مجھے فلاں جگہ پہنچا دو، اتنی رقم پر"، اور ڈرائیور جواب دے: "میں نے قبول کیا"، یا اس جیسی اور کوئی عبارت جو معاہدہ کرنے کی نیت پر دلالت کرے۔ اور صیغہ کبھی فعلی بھی ہوتا ہے، یعنی ایسا فعل صادر ہو جو دونوں طرف سے باہمی رضامندی کے پائے جانے پر دلالت کرے، بغیر اس کے کہ کوئی ایجاب و قبول کی لفظی صورت اختیار کی جائے، جبکہ عرف یا کوئی معتبر قرینہ لفظ کی جگہ قائم ہو۔ جیسے کہ سوار ایسی گاڑی میں بیٹھ جائے جس کی سمت اور کرایہ معلوم ہو، اور وہ وہی اجرت ادا کرے جو معمول کے مطابق دی جاتی ہے، بغیر اس کے کہ کوئی لفظی ایجاب و قبول ہو۔ تو یہ عمل عرف میں دونوں فریقوں کی رضامندی کے پائے جانے پر واضح قرینہ ہے،

فقہاء اسے "معاطاة" یا "تعاطي" سے تعبیر کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ لین دین محض لینا اور دینا (ادائیگی اور قبضہ) کے ذریعے منعقد ہو جائے، بغیر کلام یا اشارے کے۔ جیسا کہ امام ابوالبرکات دَردِیر نے الشرح الكبير (3/3، دار الفكر) میں ذکر کیا ہے۔
جمہور فقہاء یعنی احناف، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اجارہ کا عقد مطلقاً معاطات کے ذریعے منعقد ہوجاتا ہے، اور شوافع کے بعض آئمہ مثلاً امام نووی، امام متولی اور امام بغوی کا بھی یہی قول ہے۔ اس لئے کہ صیغے کا مقصد یہ ہے کہ رضا مندی کے پائے جانے کا علم ہوجائے، اور جیسے یہ رضا مندی قول سے معلوم ہوجاتی ہے ویسے ہی فعل سے بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ نیز لوگ اجارہ میں اس طریقے پر عادی اور متعارف ہیں اور اسی پر معاملات کرتے آئے ہیں، بالخصوص موجودہ زمانے میں۔
امام حصکفی حنفی نے "الدر المختار" (ص: 395، طبع دار الكتب العلمية) میں فرمایا: ہم نے "شرح الملتقى" میں وضاحت کی ہے کہ اِقالہ، اجارہ اور صَرف (کرنسی کا تبادلہ) معاطاة کے ذریعے درست ہیں، لہٰذا اسے یاد رکھا جائے۔

امام ابو البرکات دَردیر مالکی نے "الشرح الكبير" (ج 4، ص 2) میں عقدِ اجارہ کے ارکان ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے چار اَرکان ہیں: عاقد، اجر (اجرت)، منفعت، اور صیغہ۔ اور صیغہ سے مراد وہ ہے جو عوض کے بدلے منفعت کی ملکیت پر دلالت کرے، اور اس میں معاطاة بھی شامل ہے۔
امام زرقانی مالکی نے "شرح مختصر خلیل" (7/4) میں عقدِ اجارہ کے رکنِ صیغہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "جیسا کہ کتاب 'اللباب' میں ہے: 'ایسا لفظ یا اس کے قائم مقام کوئی چیز جو عوض کے بدلے منفعت کی ملکیت دینے پر دلالت کرے'، اور 'معاطاة' اس کے قول 'یا اس کے قائم مقام کوئی چیز' کے تحت داخل ہے، اسی طرح ہر وہ امر بھی جو رضا پر دلالت کرے۔
امام خطیب شربینی شافعی نے "مغنی المحتاج" (2/326) میں فرمایا: "بیع میں معاطاة کے متعلق جو اختلاف ہے، وہی اجارہ، رَہن، ہبہ اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں بھی جاری ہے... اور مصنف نے اور ایک جماعت نے – جن میں امام متولی اور امام بغوی بھی شامل ہیں – یہ اختیار کیا ہے کہ جس چیز کو لوگ بیع شمار کرتے ہیں اس میں معاطاة کے ذریعے عقد منعقد ہو جاتا ہے۔

امام رحیبانی حنبلی نے "مطالب أولي النهى" (3/582) میں فرمایا: "اور صحیح بات یہی ہے کہ اجارہ درست ہے اور یہ معاطاة کے ذریعے منعقد ہو جاتا ہے۔
خلاصہ

اس بنا پر اور سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق: اس معاملے میں ہونے والا اجارہ شرعاً صحیح ہے، اور یہ اجارہ بالمعاطاة کی قبیل سے ہے۔ اس شخص کے لیے ایسی گاڑیوں میں سوار ہونا اور مقررہ کرایہ ادا کرنا بالکل جائز ہے، خواہ وہ خود براہِ راست کرایہ دے یا کسی دوسرے مسافر کے ذریعے ڈرائیور کو پہنچا دے، بشرطیکہ کرایہ معلوم ہو اور منزلِ مقصود بھی متعین ہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas