نمازِ کسوف اور نمازِ خسوف کے لیے ند...

Egypt's Dar Al-Ifta

نمازِ کسوف اور نمازِ خسوف کے لیے نداء دینا

Question


نمازِ کسوف اور خسوف کے لیے کس طرح نداء جائے؟ کیا ’الصلاةُ جامعة‘ کے الفاظ کے ساتھ ندا دی جاۓ یا کہ اس کے لیے اذان دی جائے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
نداء اور اذان اور کسوف کا مفہوم:
نماز کے لیے نداء کا مطلب ہے نماز کے وقت کی اطلاع دینا۔ عربی زبان میں اذان کا مطلب ہے: اطلاع دینا؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالحَجِّ﴾ [الحج: 27]، یعنی لوگوں کو حج کے بارے میں اطلاع وو۔ اور شرعی اصطلاح میں اذان کا مطلب ہے: فرض نماز کے وقت کی معین اور ماثور الفاظ کے ساتھ، مخصوص طریقے سے اطلاع دینا۔

لغوی اعتبار سے کسوف کے بارے میں – جیسا کہ المجموع شرح المهذب (ج 5، ص 37، مطبعہ منیریہ) میں آیا ہے – کہا جاتا ہے: كَسَفَت الشمس (کاف وسین کے فتحہ کے ساتھ) یعنی سورج گرہن لگ گیا، اور كَسَف القمر یعنی چاند گرہن لگ گیا، اور' كُسِفا' بھی کہا جاتا ہے (کاف کے فتحہ اور سین کے کسرہ کے ساتھ)، اور یہ بھی کہا جاتا ہے: انكسفا، خَسَفا، خُسِفا اور انخسفا۔ پس سورج اور چاند کے بارے میں چھ لغات ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے: كَسَفَت الشمس (سورج گرہن) اور خَسَف القمر (چاند گرہن)۔ اور بعض نے کہا: دونوں کے کسوف ابتداءِ گرہن کو کہتے ہیں اور خسوف انتہا کو، اور اس طرح آٹھ لغات ہوگئیں۔ یہ چھ لغات صحیحین میں آئی ہیں۔ اور لغت کی کتابوں میں صحیح اور مشہور یہ ہے کہ دونوں لفظ سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں کیلئے مستعمل ہیں، مگر فقہاء کی زبان میں زیادہ مشہور یہ ہے کہ کسوف سورج کے لیے اور خسوف چاند کے لیے مخصوص ہے۔ اور جوہری نے الصحاح میں دعویٰ کیا ہے کہ یہی زیادہ فصیح ہے۔

سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز باجماعت پڑھنے کا حکم اور اس پر دلیل

نمازِ خسوف وکسوف میں جماعت کرانا سنت ہے، کیونکہ صحیحین میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کی زندگی سے، پس جب تم ان کو گرہن لگا ہوا دیکھو تو نماز پڑھو۔" پس آپ ﷺ نے دونوں کی نماز کے لیے ایک ہی حکم دیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بصرہ کے لوگوں کے ساتھ چاند گرہن میں دو رکعت نماز ادا کی اور فرمایا: "میں نے صرف اس لیے نماز پڑھی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔" اور چونکہ چاند گرہن دونوں میں سے ایک گرہن ہے، لہذا یہ سورج گرہن کی مانند ہے۔ اس لیے اس نماز کو جماعت کے ساتھ اور انفرادی طور پر دونوں طرح پڑھنا سنت ہے۔ ملاحظہ ہو: المغنی لابن قدامہ (2/142، دار إحياء التراث العربي)۔

اذان اور اقامت کی مشروعیت کا صرف فرض نمازوں کے ساتھ خاص ہونا

اذان صرف فرض نمازوں کے لیے مشروع ہے، اس پر کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ اذان کا مقصد ان کے وقت کے داخل ہونے کی اطلاع دینا ہے؛ کیونکہ یہ نمازیں وقت کے ساتھ خاص ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے، جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: "جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تمہاری امامت تم میں سے سب سے بڑے (عمر والے) کریں۔" اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان کو صرف فرض نماز کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔ جنازے کی نماز اور نفل نمازوں کے لیے اذان نہیں دی جاتی۔ اسی پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز ایک دو بار نہیں بلکہ کئی بار پڑھی ہے، اور بغیر اذان واقامت کے پڑھی ہے۔"

امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (ج 3، ص 83، مطبعہ منیریہ) میں فرماتے ہیں: " پس نصوصِ صحیحہ اور اجماع کے مطابق اذان اور اقامت صرف پانچ فرض نمازوں کے لیے مشروع ہیں۔ ان پانچ نمازوں کے علاوہ کسی اور نماز کے لیے نہ اذان مشروع ہے اور نہ اقامت، اس میں کوئی اختلاف نہیں؛ چاہے وہ نماز نذر کی ہو یا جنازے کی یا سنت۔ اور چاہے وہ ایسی نماز ہو جس کے لیے جماعت مسنون ہے، جیسے عیدین، کسوفین اور استسقاء (بارش کی نماز)، یا وہ نماز ہو جس کے لیے جماعت مسنون نہیں، جیسے اشراق و چاشت (ضحیٰ) کی نماز۔"

نمازِ کسوف اور نمازِ خسوف کے لیے نداء دینے کا طریقہ

جہاں تک نمازِ کسوف وخسوف کا تعلق ہے تو اس کے لیے ندا "الصلاةُ جامعة" کے الفاظ کے ساتھ دی جاتی ہے؛ کیونکہ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سورج گرہن ہوا تو اعلان کیا گیا: "إن الصلاةَ جامعة"۔ امام شافعی رحمہ اللہ "الأم" (ج 1، ص 269، دار المعرفہ) میں فرماتے ہیں: "میں پسند کرتا ہوں کہ امام مؤذن کو حکم دے کہ عیدوں میں اور ہر ایسی نماز میں جو لوگوں کو جمع کرتی ہے، یہ کہے: الصلاة جامعة۔"

شیخ الاسلام زکریا الانصاری شافعی رحمہ اللہ نے "أسنى المطالب شرح روض الطالب" (ج 1، ص 126، دار الکتاب الإسلامي) میں فرمایا: "عیدین اور کسوفین کی نماز کے لیے’الصلاةُ جامعة‘ کے الفاظ کے ساتھ ندا دی جائے گی؛ کیونکہ یہ صحیحین میں نمازِ کسوفِ شمس کے بارے میں وارد ہے اور اس پر باقی کو قیاس کیا گیا ہے۔"

اور علامہ مرداوی حنبلی رحمہ اللہ نے "الإنصاف" (ج 1، ص 428، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: "چوتھی بات: مذہب کے صحیح قول کے مطابق کسوف کے لیے الصلاةُ جامعة‘کے الفاظ کے ساتھ ندا دی جاۓ گی۔

امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے "المغنی" (ج 2، ص 142، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: نمازِ کسوف کے لیے ’ الصلاةُ جامعة‘ کے الفاظ کے ساتھ ندا دینا سنت ہے؛ کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سورج گرہن ہوا تو ’الصلاةُ جامعة‘ کے الفاظ کے ساتھ ندا دی گئی۔ یہ روایت متفق علیہ ہے۔ اور اس نماز کے لیے نہ اذان سنت ہے اور نہ اقامت؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اذان اور اقامت کے بغیر ادا فرمایا، اور اس لیے بھی کہ یہ نماز پانچ فرض نمازوں میں سے نہیں ہے، لہٰذا یہ باقی نوافل کی مانند ہے۔"

علامہ بہوتی حنبلی رحمہ اللہ نے "كشاف القناع عن متن الإقناع" (ج 1، ص 233، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: نمازِ عید، استسقاء (بارش کی نماز) اور  کسوف کی نماز کے لیے ’الصلاةُ جامعة‘ کے الفاظ کے ساتھ ندا دی جاتی ہے۔ آپ نے 'الفروع' میں فرمایا: کسوف کے لیے ندا دی جائے؛ کیونکہ یہ صحیحین میں وارد ہے۔"

خلاصہ
اس بنا پر اور سوال میں مذکورہ صورتِ حال کے مطابق: کسوف وخسوف کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور ان کے لیے’ الصلاةُ جامعة‘کے الفاظ کے ساتھ ندا دی جائے گی، جبکہ ان کے لیے اذان نہیں دی جائے گی؛ کیونکہ اذان صرف فرض نمازوں کے لیے مخصوص ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas