قسم کے کفارے میں قیمت ادا کرنے کا ح...

Egypt's Dar Al-Ifta

قسم کے کفارے میں قیمت ادا کرنے کا حکم

Question


کیا قسم کے کفارے میں طعام یا لباس دینے کی بجائے ان کی قیمت نقدی کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے، یا نص کے ظاہر پر ہی اکتفا کرنا لازم ہے اور اس سے ہٹ کر کسی اور صورت کو اختیار نہیں کیا جا سکتا؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
جس شخص نے اپنی قسم توڑ دی ہو، وہ کفارے کے طور پر فقراء کو طعام یا لباس دینے کے بجائے ان کی قیمت نقدی کی صورت میں ادا کر سکتا ہے، اور یہی طریقہ کفارے میں طعام ولباس کو واجب قرار دینے کے بارے میں شارع کے مقصد کے زیادہ قریب ہے۔

تفصیل....

قسم کے کفارے کی مشروعیت کا سبب

اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارے کو اس لیے مشروع فرمایا ہے تاکہ قسموں کی حرمت پامال نہ ہو، لوگوں کے نفوس کو قسم کھانے میں بے احتیاطی سے روکا جائے، اور قسم توڑنے سے پیدا ہونے والے نقصان کی تلافی ہو سکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کفارے کو قسم کے وجوب سے مشروع طریقے سے نکلنے کا ذریعہ بنا دیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ﴾ [التحریم: 2] (یعنی: یقیناً اللہ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کو توڑنے کا کفارہ مقرر فرما دیا ہے)۔

امام بغوی رحمہ اللہ نے معالم التنزیل (5/117، دار احیاء التراث العربی) میں فرمایا: [یعنی اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا اور لازم قرار دے دیا ہے کہ اگر تم قسم توڑ دو تو اس کا کفارہ ادا کرو، اور وہ کفارہ وہی ہے جس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے]۔

قسم کے کفارے کا بیان

قسم کے کفارے میں تین چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت ہے: دس مسکینوں کو ویسا کھانا کھلانا جیسا انسان اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہے، یا انہیں ایسا لباس دینا جو عرف کے اعتبار سے کافی سمجھا جائے، یا ایک مؤمن غلام آزاد کرنا۔ پھر اگر کفارہ دینے والا ان تینوں میں سے کسی چیز پر بھی قادر نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، اور یہ روزے اختیار کے طور پر نہیں بلکہ ترتیب کے طور پر ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾ [المائدہ: 89] ترجمہ: (اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو۔ اس کا کفاره دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفاره ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو)۔

امام ابو بکر بن المنذر رحمہ اللہ نے الاشراف على مذاهب العلماء (7/128، مکتبہ مکۃ الثقافیۃ) میں فرمایا: اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص اپنی قسم توڑ دے، وہ اختیار رکھتا ہے کہ چاہے تو مسکینوں کو کھانا کھلائے، چاہے تو انہیں کپڑے دے، اور چاہے تو غلام آزاد کرے، ان میں سے جو بھی کام کرے گا، وہ اس کے لیے کافی ہو جائے گا]۔

قسم کے کفارے میں قیمت ادا کرنے کا حکم

مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے جمہور فقہاء نے کفارے میں مذکور خصال کے بارے میں وارد نص کے ظاہر کو لازم پکڑا ہے، اس لیے انہوں نے قیمت ادا کرنے کو جائز قرار نہیں دیا، کیونکہ کفارہ ایک مخصوص انداز پر مقرر کی گئی مالی عبادت ہے جس کی مقدار اور اجزاء کو شریعت نے واضح طور پر بیان کر دیا ہے، اس لیے رائے اور اجتہاد سے ان (مقررہ صورتوں) کے علاوہ کسی اور صورت کی طرف منتقل نہیں ہوا جا سکتا۔

امام ابو عمر بن عبد البر المالکی رحمہ اللہ نے الکافی (1/453، مکتبۃ الریاض) میں فرمایا: جو شخص اللہ عزوجل کی قسم کھائے اور پھر اسے توڑ دے تو اس پر کفارہ لازم ہے… اور اس میں قیمت دینا جائز نہیں ہے]۔

امام ابو الحسن ماوردی شافعی رحمہ اللہ نے الحاوی الکبیر (15/301، دار الکتب العلمیۃ) میں فرمایا: کفارہ میں کھانے کی قیمت دینا جائز نہیں ہے]۔

اور امام ابو السعادات بہوتی حنبلی رحمہ اللہ نے کشاف القناع (5/388، عالم الکتب) میں قسم کے کفارے کے بیان کے ضمن میں فرمایا: (اور قیمت دینا کافی نہیں ہے) کیونکہ واجب تو کھانا کھلانا ہے، اور قیمت دینا کھانا کھلانا نہیں کہلاتا]۔

جبکہ احناف اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے قسم کے کفارے میں قیمت دینا جائز قرار دیا ہے، اور انہوں نے اسے اس وقت کافی (کفایت کرنے والا) قرار دیا جب وہ کھانے یا کپڑے کے برابر مقدار کو پہنچ جائے، کیونکہ ان کے نزدیک اصل اعتبار معنی (مقصد) کے پورا ہونے کا ہے نہ کہ ظاہری صورت کے پابند رہنے کا، اور مقصد فقراء تک نفع پہنچانا ہے نہ کہ ادائیگی کی مخصوص شکل کو لازم پکڑنا۔

شمس الأئمہ سرخسی رحمہ اللہ نے المبسوط (2/156، دار المعرفۃ) میں فرمایا: ہمارے نزدیک زکوٰۃ، صدقات، عشر اور کفارات میں منصوص اشیاء کی جگہ ان کی قیمت ادا کرنا جائز ہے]۔

اور امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنی (9/542، مکتبۃ القاہرہ) میں فرمایا: کفارہ میں کھانے یا کپڑے کی قیمت دینا کافی نہیں ہے… اور امام اوزاعی اور اصحاب الرائے (احناف) نے اسے جائز قرار دیا ہے، کیونکہ مقصود مسکین کی حاجت کو دور کرنا ہے، اور یہ مقصد قیمت سے بھی حاصل ہو جاتا ہے]۔

کفارۂ قسم میں قیمت ادا کرنے کے حکم میں فتویٰ کے لیے قولِ مختار اور سببِ اختیار

ہمارے نزدیک احناف کا موقف، جس کی تائید امام اوزاعی رحمہ اللہ نے بھی کی ہے، راجح ہے، اور ہم اسے کفارے میں طعام ولباس کو واجب قرار دینے میں شارع کے مقصد کے سب سے قریب سمجھتے ہیں، اور اس کی دو وجوہ ہیں:

پہلی وجہ: کفارے کا مقصد فقیر کو بےنیاز کرنا اور اس کی حاجت پوری کرنا ہے، اور یہ مقصد قیمت سے بھی حاصل ہو جاتا ہے جیسے کہ کھانے یا کپڑے سے حاصل ہوتا ہے، بلکہ بہت سے مواقع پر قیمت دینا کفایت کے حصول میں زیادہ مؤثر، حاجت پوری کرنے میں زیادہ تیز تر اور فقیر کی مصلحت کے زیادہ موافق ہوتا ہے، جیسا کہ شمس الأئمہ سرخسی رحمہ اللہ نے المبسوط (2/157) میں بیان کیا ہے۔

دوسری وجہ: زبان اور عرف کے اعتبار سے اس شخص پر بھی (اطعام اور کسوت) کھلانے اور پہنانے کا اطلاق کرنے میں کوئی مانع نہیں جو فقیر کو اتنی رقم دے دے جس سے وہ کھانے یا پہننے کی چیز خرید سکے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اسے کھلایا اور پہنایا۔ اور جب یہ اطلاق عرفاً درست ہے تو یہ قرآنی لفظ کے عموم میں شامل ہوگا، اس کے مفہوم میں داخل ہوگا اور اس سے خارج شمار نہیں ہوگا۔

پھر اگر فقیر کو کھانے کی چیز دے دی جائے اور وہ اسے نہ کھائے بلکہ بیچ دے، تو بالاتفاق یہ کفایت کر جائے گی، اسی طرح اگر اسے کپڑا دیا جائے اور وہ اسے نہ پہنے بلکہ بیچ دے تو بھی کفایت مانع نہیں ہوگی، حالانکہ یہاں ظاہری طور پر نہ کھلانے کی صورت پائی گئی ہے نہ پہنانے کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصود بالذات کھلایا یا پہنایا جانا نہیں بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ فقیر کے ہاتھ میں ایک مقررہ مقدار کا مال پہنچ جائے، جیسا کہ امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن (2/575، دار الکتب العلمیۃ) میں بیان کیا ہے۔

خلاصہ

اس بنا پر اور سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق: جس شخص نے اپنی قسم توڑ دی ہو، وہ کفارے کے طور پر فقراء کو طعام یا لباس دینے کے بجائے ان کی قیمت نقدی کی صورت میں ادا کر سکتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas