زکوٰۃ اور صدقات کے اموال مریضوں کی طبی نگہداشت پر خرچ کرنے کا حکم
Question
کیا مریضوں کی صحت کی دیکھ بھال پر زکوٰۃ اور صدقات کے اموال خرچ کرنا جائز ہے؟ ایک فلاحی ادارہ ہے جو مرکزی عام انتظامیہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اور وزارتِ سماجی بہبود میں باضابطہ طور پر درج ہے، اور فلاحی و رفاہی سرگرمیوں کے ضابطۂ قانون نمبر (149) سنہ 2019ء اور اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرتا ہے۔ ادارہ مختلف فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور اس نے ایک طبی منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد ضرورت مند اور مستحق طبقات کو اعلیٰ معیار کی مفت طبی سہولیات فراہم کرنا ہے، جو میڈیکل کیمپس کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں۔اس منصوبے کے تحت مفت طبی معائنہ، ادویات کی فراہمی، اور جراحی آپریشن کروائے جاتے ہیں، یہ سب متعلقہ ہسپتالوں اور طبی مراکز کے تعاون سے اور منظور شدہ طبی نگرانی میں ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طبی منصوبے پر زکوٰۃ اور صدقات کے اموال خرچ کرنا جائز ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ مذکورہ طبی منصوبے کے ذریعے فقراء ومساکین کے علاج پر زکوٰۃ کے اموال خرچ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ خرچ اس طرح ہو کہ مال ان کے نام پر ملکیت میں دیا جائے تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق علاج، دوائی اور آپریشن پر صرف کرسکیں، یا پھر ان سے اجازت لے کر ان کی طرف سے وکالت کے طور پر یہ مال براہِ راست ان کے علاج پر خرچ کیا جائے، کیونکہ یہ انہی کا حق ہے۔ اسی طرح اس منصوبے پر صدقات کی وہ رقوم بھی بلا قید خرچ کی جا سکتی ہیں جو خاص اسی مقصد کے لیے دی گئی ہوں، اور یہ سب کچھ متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پاسداری کے ساتھ ہونا چاہیے۔
اسلام میں زکوٰة کے مصرف
زکوٰۃ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے اس کی ادائیگی کا طریقہ متعین کرتے ہوئے اس کے مصارف کو قرآنِ کریم میں واضح فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ ترجمہ: صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے۔ [التوبة: 60]
زکوٰۃ میں تملیک (مالک بنانے) کی شرط
جمہور فقہاء کے نزدیک زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک شرط ہے یعنی زکوٰۃ کا مال فقیر یا مسکین کو اس کی ملکیت میں دیا جائے تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اسے خرچ کرے کیونکہ اپنی حاجت اور ضرورت کو وہ دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ اسی بنا پر فقہاء نے واضح کیا ہے جیسا کہ شمس الأئمہ امام سرخسی حنفیا رحمہ اللہ نے المبسوط (2/202، دار المعرفة) میں امام شمس الدین خطيب شربيني شافعی نے مغني المحتاج (4/173، دار الكتب العلمية) میں اور امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی نے المغني (2/500، مكتبة القاهرة) میں اس شرط کو ذکر کیا ہے۔
چنانچہ زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ فقراء و مساکین کی ضروریات پوری کی جائیں، انہیں محتاجی سے نکال کر خوشحال بنایا جائے اور ان کی زندگی اور گزر بسر کا انتظام کیا جائے؛ گویا زکوٰۃ عمارتوں تعمیر سے پہلے انسان کی تعمیر کے لیے ہے۔ اس لیے فقراء ومحتاجوں کی لباس، خوراک، رہائش، روزمرہ ضروریات، تعلیم، علاج اور زندگی کے دیگر امور میں کفایت واعانت کو سب سے پہلی ترجیح دینی چاہیے، تاکہ زکوٰۃ کے بنیادی مقصد کو پورا کیا جا سکے، جسے علما نے "سَدِّ خَلَّةِ المُسلِمِينَ(مسلمانوں کی حاجت روائی)" کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسا کہ امام ابو جعفر طبری کی کتاب "جامع البيان" (14/316، مؤسّسة الرسالة) میں ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ان ہی (فقراء) کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوۓ فرمایا: ’’انہیں (یمن کے لوگوں کو) بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان ہی کے فقراء کو دی جائے گی‘‘۔ (متفق علیہ)۔
مریضوں کی طبی نگہداشت پر زکوٰۃ اور صدقات خرچ کرنے کا حکم
فقراء و مساکین کی کفایت میں ان کے علاج کا بندوبست بھی شامل ہے، چاہے وہ میڈیکل کیمپس کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام ان کو مال کا مالک بنایا جائے تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق علاج پر خرچ کریں، یا پھر ان کی اجازت سے ان کی طرف سے اس مال کو علاج کی مد میں خرچ کیا جائے، تاکہ زکوٰۃ کے مال کو فقراء و مساکین کی ملکیت میں دینے اور انہیں اس میں براہِ راست یا وکالت کے ذریعے تصرف کا اختیار دینے کا اصول پورا سکے۔
اور جب زکات کے مال کو مذکورہ مصرف پر خرچ کرنا جائز ہے تو اس مقصد کے لیے مختص کیے گئے اموال تبرعات اور صدقات اس مد میں خرچ کرنا بطریقِ اولیٰ جائز ہے، کیونکہ صدقہ کا دائرہ زکات سے زیادہ وسیع ہے، وہ فقیر ارو غیر فقیر سب پر خرچ کیا جا سکتا ہے اور اس میں تملیک (ملکیت دینا) کی بھی شرط نہیں ہے۔ اسی طرح اگر واقف (مال وقف کرنے والا) نے شرط لگائی ہو تو اوقاف کے مال سے بھی اس پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے''۔ اسے امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اور صدقۂ جاریہ ہر وہ صدقہ ہے جس کا نفع اور اجر مسلسل جاری رہے اور باقی رہے، جیسا کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے مشارق الأنوار (1/145، ط. دار التراث) میں اس کی تعریف کی ہے، اور متعدد علماء نے صدقۂ جاریہ کو وقف پر محمول کیا ہے کیونکہ وقف ہی اس کی سب سے واضح مثال ہے جس میں اس کا مفہوم مکمل طور پر پایا جاتا ہے۔
خلاصہ
مذکورہ طبی منصوبے کے ذریعے فقراء ومساکین کے علاج پر زکوٰۃ کے اموال خرچ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ خرچ اس طرح ہو کہ مال ان کے نام پر ملکیت میں دیا جائے تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق علاج، دوائی اور آپریشن پر صرف کرسکیں، یا پھر ان سے اجازت لے کر ان کی طرف سے وکالت کے طور پر یہ مال براہِ راست ان کے علاج پر خرچ کیا جائے، کیونکہ یہ انہی کا حق ہے۔ اسی طرح اس منصوبے پر صدقات کی وہ رقوم بھی بلا قید خرچ کی جا سکتی ہیں جو خاص اسی مقصد کے لیے دی گئی ہوں، اور یہ سب کچھ متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پاسداری کے ساتھ ہونا چاہیے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.