اگر دوسروں کو نقصان کا اندیشہ ہو تو...

Egypt's Dar Al-Ifta

اگر دوسروں کو نقصان کا اندیشہ ہو تو ڈاکٹر کے لیے مریض کے راز ظاہر کرنے کا حکم

Question


کیا ڈاکٹر کے لیے جائز ہے کہ وہ مریض کا راز افشا کرے اگر دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ بنیادی حکم یہ ہے کہ ڈاکٹر کے لیے اپنے مریضوں کے راز افشا کرنا، جن پر وہ اپنے پیشے کی وجہ سے مطلع ہوتا ہے، حرام ہے، الا یہ کہ کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جس میں راز افشا کرنا ناگزیر ہو۔ پس اگر ایسی ضرورت پیدا ہو جائے کہ کسی دوسرے تک سنگین نقصان کے پہنچنے کا یقین ہو، تو ڈاکٹر پر لازم ہے کہ متعلقہ حکام کو اطلاع دے تاکہ اس ضرر کو دور کیا جا سکے، اور اس صورت میں وہ اپنے مریضوں کے راز کی حفاظت کے باب میں امین ہونے کے خلاف نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ راز افشا کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے،ورنہ وہ امانت میں خیانت کرنے والا اور گناہگار شمار ہوگا۔

تفصیلات۔۔۔

راز کو چھپانا ان امانتوں میں سے ہے جن کی حفاظت واجب ہے

ان اعلیٰ ترین اقدار میں سے جن پر شریعتِ اسلامیہ نے زور دیا ہے "امانت" ہے۔ اسی کے ذریعے حقوق اللہ اور حقوق العباد محفوظ رہتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت سے پہلے ہی "صادق" اور "امین" کے لقب سے پہچانا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی مدح فرماتے ہوئے ان کی امانتوں کی حفاظت کو بیان کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ﴾ ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا پاس رکھتے ہیں۔ [المؤمنون: 8]، اور اللہ تعالیٰ نے امانت میں خیانت کرنے سے منع فرمایا ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی خیانت مت کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو جبکہ تم جانتے ہو۔ [الأنفال: 27]۔ امانت کا مفہوم ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی حفاظت اور ادائیگی ضروری ہے، لہٰذا اس میں امانت کے طور پر رکھی گئی چیزوں کی حفاظت، کام میں دیانت داری، اور راز کی حفاظت شامل ہے، بلکہ ان سب میں سے راز کی حفاظت سب سے ضروری اور عظیم ترین ہے۔

امام ابو البقاء کَفَوی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الکلیات" (ص: 187، طبع: مؤسسۃ الرسالہ) میں امانت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: "جو کچھ بندوں پر فرض کیا گیا ہے وہ سب امانت ہے، جیسے نماز، زکوٰۃ، روزہ اور قرض کی ادائیگی، اور ان میں سب سے زیادہ اہم امانت ودیعتیں (جو چیز کسی کے پاس امانتاً رکھیں جائیں) ہیں، اور ودیعتوں میں سب سے اہم راز کو چھپانا ہے"۔

اور "سر" راز اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے پوشیدہ اور مخفی رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: [﴿وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى﴾ ترجمہ: اور اگر تو بات کو ظاہر کرے تو وہ (اللہ) جانتا ہے چھپی ہوئی بات اور بھی زیادہ چھپی ہوئی۔ طه: 7] میں بھی یہی مفہوم ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر (16/16، ط: دار ہجر) میں فرمایا: "ابن زید نے آیت ﴿يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى﴾ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے راز جانتا ہے اور اپنے راز کو زیادہ چھپا کر رکھا ہے تاکہ معلوم نہ ہو۔ ابو جعفر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا، ان کے نزدیک راز وہی ہے جو انسان نے کسی کو خفیہ طور پر بتایا ہو۔

دوسروں کے راز کی حفاظت کرنا ایک واجب امانت ہے، جس کا ثواب عیوب چھپانے کے برابر ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے (ظالموں) سپرد کرتا ہے… اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا" (روایت بخاری و مسلم)۔

اسی طرح راز افشا کرنا امانت میں خیانت ہے، اور یہ منافق کی خصلتوں میں سے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "چار چیزیں جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان میں سے کوئی ایک صفت ہو، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جب جھگڑا کرے تو بد زبانی پر اتر آئے" (بخاری و مسلم)۔

اگرچہ نصوص واضح ہیں کہ امانت کی حفاظت لازمی ہے، بشمول دوسروں کے راز کی حفاظت، مگر یہ اُن کے لیے اور زیادہ اہم اور واجب ہو جاتی ہے  جو اپنے کام یا ملازمت کی وجہ سے لوگوں کے راز معلوم ہوتے ہیں، جیسے ڈاکٹر، کیونکہ اس کا پیشہ مریض کی حالت دیکھنے اور اس کے مرض کی تفصیلات جاننے کا متقاضی ہوتا ہے، اور یہی موجودہ سوال میں مذکور صورت ہے۔

مریض کا راز افشا کرنے کا حکم

ڈاکٹر پر لازم ہے کہ وہ اپنے مریضوں کے راز کی حفاظت کرے، اور ان کا افشا کرنا اس کے لیے حرام ہے، کیونکہ مریض کا راز ظاہر کرنا غیبت کے زمرے میں آتا ہے، جسے قرآن نے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ﴾ ترجمہ: ور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے واﻻ مہربان ہے (الحجرات: 12)

امام قرطبی رحمہ اللہ "الجامع لأحكام القرآن" (16/337) میں فرماتے ہیں: "اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور جو کسی کی غیبت کرے، اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے۔"

وجہِ استدلال یہ ہے کہ مریض کا راز افشا کرنا—جو وہ نہیں چاہتا کہ کوئی جانے—غیبت کی ایک قسم ہے، کیونکہ اس میں مریض کے بارے میں وہ بات بیان کی جاتی ہے جو اسے ناپسند ہے، اور یہی عینِ غیبت ہے، جو شرعاً حرام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی خیانت مت کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو جبکہ تم جانتے ہو۔ [الأنفال: 27]

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: انسان کے تعلقات تین پہلوؤں سے ہوتے ہیں: ایک اپنے رب کے ساتھ، دوسرا مخلوق کے ساتھ، اور تیسرا اپنے نفس کے ساتھ۔ ان تینوں میں امانت کی رعایت ضروری ہے۔ رب کے ساتھ امانت کی رعایت یہ ہے کہ اس کے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب کرے۔ مخلوق کے ساتھ امانت یہ ہے کہ امانتیں ان کے حوالے کرے، ناپ تول میں کمی نہ کرے، اور لوگوں کے عیوب کو فاش نہ کرے۔ (مفاتيح الغيب 10/109)

پس "اداء الامانات" کے حکم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس پر کسی کو امین بنایا گیا ہو۔ ڈاکٹر کو مریض کے راز پر امین بنایا جاتا ہے، لہٰذا ان رازوں کی حفاظت کرنا اس پر واجب ہے۔ ان کا افشا اور تشہیر کرنا بغیر ضرورت کے حرام ہے، اور ایسا کرنے والا خائنِ امانت شمار ہوگا۔

کیونکہ مریض کے راز کو ظاہر کرنا دراصل اس کے پردے کو چاک کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ شریعت کی نصوص مسلمان بھائی کے عیب کو چھپانے کا حکم دیتی ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يستر الله على عبد في الدنيا، إلا ستره الله يوم القيامة» (اللہ تعالیٰ جس بندے کے عیوب کو دنیا میں چھپاتا ہے، قیامت کے دن بھی اس پر پردہ ڈالے گا)۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے کے عیوب اور گناہوں کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرے گا، اور ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر اس کا محاسبہ نہیں کرے گا اور اس کے گناہوں کا ذکر ہی نہیں کرے گا، اور پہلا مفہوم زیادہ ظاہر ہے۔ (إكمال المعلم بفوائد مسلم 8/61)

امام ابن الحاج المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: طبیب کو چاہیے کہ وہ مریضوں کے راز کا امین ہو اور ان باتوں کو کسی پر ظاہر نہ کرے جو مریض نے اس کے سامنے بیان کی ہیں، کیونکہ مریض نے اسے دوسروں پر ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ اگر مریض اجازت بھی دے دے، تب بھی مناسب یہی ہے کہ طبیب اس پر عمل نہ کرے۔ (المدخل 4/135)

طبیب و مؤرخ ابن أبي أصیبعة نے اپنی مشہور کتاب عيون الأنباء في طبقات الأطباء میں بقراط کی قسم (حلف) بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: جو باتیں میں مریضوں کے علاج کے اوقات میں دیکھوں یا ان کے علاج کے اوقات کے علاوہ لوگوں کے معاملات میں سنوں، اور وہ ایسی ہوں جنہیں ظاہر کرنا مناسب نہ ہو، تو میں انہیں اپنے تک محدود رکھوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ ان جیسے امور کا اظہار کرنا درست نہیں۔" (عيون الأنباء، ص 45، ط. دار مكتبة الحياة)

اسی کتاب میں ابن أبي أصیبعة نے مصری طبیب علی بن رضوان کا قول بھی نقل کیا ہے: بقراط کے قول کے مطابق حقیقی طبیب وہ ہے جس میں سات خوبیاں جمع ہوں... ان میں تیسری یہ ہے کہ وہ مریضوں کے رازوں کا امین ہو اور ان کے امراض میں سے کسی چیز کو ظاہر نہ کرے۔" (عيون الأنباء، ص 564-565)

اگر دوسروں کو نقصان کا اندیشہ ہو تو ڈاکٹر کے لیے مریض کے راز ظاہر کرنے کا حکم

ڈاکٹر اور اس کے حکم میں آنے والے افراد کے لیے مریض کے راز افشا کرنا جائز نہیں، ورنہ وہ امانت میں خیانت کرنے والا اور گناہگار شمار ہوگا، اور یہی اصل قاعدہ ہے۔ البتہ بعض مخصوص حالات میں اس اصول سے استثناء پایا جاتا ہے، جن میں ڈاکٹر مریض کے راز ظاہر کر سکتا ہے، اور یہ اس کے راز محفوظ رکھنے کے التزام کے منافی نہیں ہوگا، بشرطیکہ اس سے کوئی مصلحت حاصل ہوتی ہو یا کوئی نقصان اور فساد دور ہوتا ہو۔ انہی صورتوں میں سے ایک صورت دوسروں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ بھی ہے، اور یہی اس سوال کا محل ہے۔یعنی جب دوسروں کو نقصان پہنچنے کا حقیقی خطرہ موجود ہو؛ مثلاً مریض کسی وبائی مرض میں مبتلا ہو جس کے پھیلنے کا خدشہ ہو اور اس سے معاشرہ متاثر ہو سکتا ہو، یا مریض کسی مجرمانہ فعل کے دوران زخمی ہوا ہو اور علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس آیا ہو، یا اس جیسی دوسری صورتیں جہاں یقینی طور پر دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورتوں میں ڈاکٹر پر لازم ہے کہ متعلقہ حکام کو اطلاع دے تاکہ وہ نقصان کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کر سکیں۔ یہ افشا امانت میں خیانت شمار نہیں ہوگا اور نہ ہی راز کی حفاظت کے اصول کے منافی ہوگا؛ کیونکہ یہ عمل فقہی اس قاعدے کے مطابق ہے: "ضررِ عام کو روکنے کے لیے ضررِ خاص برداشت کیا جاتا ہے۔" چنانچہ علامہ ابن نجیم حنفی نے الأشباه والنظائر (ص 74، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "يتحمل الضرر الخاص لأجل دفع ضرر العام" یعنی "عام نقصان کو دور کرنے کے لیے خاص نقصان برداشت کیا جاتا ہے۔"

چونکہ ایسے معاملات میں ڈاکٹر کا اطلاع دینا معاشرے کے امن و سکون کی حفاظت کا ذریعہ ہے، اور اس کے امن و سکون کو نقصان پہنچانا ایک عمومی ضرر ہے جس کا دور کرنا واجب ہے، لہٰذا مریض کے راز کو ظاہر کرنا اس موقع پر ایک جزوی اور محدود نقصان ہے جو عام نقصان کے مقابلے میں کم تر ہے، اس لیے اسے برداشت کیا جائے گا تاکہ بڑے نقصان کو روکا جا سکے۔

ایسی صورت میں مریض کی حالت کو متعلقہ حکام تک پہنچانا ایک شرعی طور پر معتبر مصلحت ہے، کیونکہ یہ مصلحت عامہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں مفاسد کو دور کرنے کا پہلو ہے۔ اسی بنیاد پر فقہاء نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ اگر کسی کی برائیاں بیان کرنے میں بڑے نقصان کو دور کرنے اور بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کا پہلو موجود ہو تو یہ غیبتِ حرام کے حکم میں نہیں آتا۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم (2/113، ط۔ دار إحياء التراث) میں فرمایا کہ اگر چغلی اور خبر پہنچانے میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو یہ ممنوع ہے، لیکن اگر اس میں کوئی ضرورت یا شرعی مصلحت ہو تو اس میں ممانعت نہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو خبر دے کہ فلاں تمہیں یا تمہارے گھر والوں یا مال کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے، یا امام اور حکام کو اطلاع دے کہ فلاں ایسا فعل کر رہا ہے جس سے فساد پیدا ہوگا، تو صاحبِ اختیار پر واجب ہے کہ اس کی تحقیق کرے اور فساد کو دور کرے۔ لہٰذا ایسی تمام صورتیں حرام نہیں، بلکہ بعض مواقع پر یہ واجب ہوتی ہیں اور بعض میں مستحب، یہ حالات پر منحصر ہے، واللہ اعلم۔

اور یہ بات واضح رہے کہ جن صورتوں میں مریض کے حالات اور راز کی اطلاع دینا جائز ہو، وہاں اطلاع دینا صرف متعلقہ ذمہ دار اداروں تک محدود ہونا چاہیے، اور اسے دوسروں تک نہیں پہنچانا چاہیے؛ کیونکہ مریض کے راز کا افشا یہاں حاجت کے دائرے میں آتا ہے، اور حاجت کو شرعاً ضرورت کے درجے میں رکھا جاتا ہے، جبکہ ضرورت اپنی مقدار کے مطابق ہی معتبر ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر طبیب مریض کے راز کو متعلقہ اداروں کے علاوہ کسی اور کو بتاۓ تو اسے امانت میں خیانت کرنے والا، اپنے فرضِ منصبی میں کوتاہی کرنے والا شمار کیا جائے گا اور وہ اپنے آپ کو قانونی مؤاخذے میں ڈالے گا۔

خلاصہ:
اس بنا پر اور مذکورہ سوال کے حوالے سے: بنیادی حکم یہ ہے کہ ڈاکٹر کے لیے اپنے مریضوں کے راز افشا کرنا، جن پر وہ اپنے پیشے کی وجہ سے مطلع ہوتا ہے، حرام ہے، الا یہ کہ کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جس میں راز افشا کرنا ناگزیر ہو۔ پس اگر ایسی ضرورت پیدا ہو جائے کہ کسی دوسرے تک سنگین نقصان کے پہنچنے کا یقین ہو، تو ڈاکٹر پر لازم ہے کہ متعلقہ حکام کو اطلاع دے تاکہ اس ضرر کو دور کیا جا سکے، اور اس صورت میں وہ اپنے مریضوں کے راز کی حفاظت کے باب میں امین ہونے کے خلاف نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ راز افشا کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے،ورنہ وہ امانت میں خیانت کرنے والا اور گناہگار شمار ہوگا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

 

Share this:

Related Fatwas