جمعے کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ پڑھنے کا حکم
Question
جمعے کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ جمعۃ المبارک کے دن نمازِ فجرمیں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان کی تلاوت شریعت کی رو سے مستحب ہے، اور ان دونوں پر مداومت (یعنی ہمیشہ پڑھتے رہنا) بھی مستحب ہے۔ بہتر اور کامل صورت یہ ہے کہ دونوں سورتیں پوری پڑھی جائیں، لیکن اگر لوگوں پر تخفیف کی وجہ سے ان میں سے کچھ حصہ، چاہے صرف آیتِ سجدہ ہی کیوں نہ ہو، پڑھ لیا جائے تو بھی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
تفصیلات:
جمعے کی نمازِ فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان کی تلاوت کے شرعی دلائل
صحیح سنت سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: “نبی ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں ﴿آلم تَنزِيلُ السَّجْدَةِ﴾ اور ﴿هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔” (بخاری)
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں ﴿آلم تَنزِيلُ﴾ سورۃ السَّجْدَةِ اور ﴿هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنسَانِ﴾ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم)
امام ابن دقیق العید نے إحكام الإحكام (1/339، مطبعة السنة) میں فرمایا: “اس حدیث سے اس بات پر دلیل ملتی ہے کہ ان دونوں سورتوں کی تلاوت اس موقع پر مستحب ہے۔
ان دونوں سورتوں کی قراءت اور اس پر مداومت کے حکم میں فقہاء کا اختلاف
فقہاء کے درمیان جمعے کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان کی تلاوت اور اس پر ہمیشگی اختیار کرنے کے حکم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
حنفیہ اور حنابلہ کے مذہب سے اجمالاً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ان دونوں سورتوں کی تلاوت مستحب ہے، البتہ ان پر ہمیشہ پابندی اختیار کرنا (یعنی ہر جمعے کو لازمی پڑھنا) مکروہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کبھی پڑھے اور کبھی چھوڑ دے، تاکہ نبی کریم ﷺ کے عمل کی برکت حاصل ہو مگر اس کو لازم نہ سمجھے۔
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ علاء الدین حصکفی (جو فقہِ حنفی کے مشہور عالم ہیں) نے اپنی کتاب الدر المختار (ص: 74-75، ط. دار الكتب العلمية) میں لکھا ہےکہ نماز میں قرآنِ مجید کی کوئی مخصوص سورت اس طرح فرض یا لازمی نہیں کہ ہر نماز میں وہی پڑھی جائے۔ صرف سورۃ الفاتحہ واجب ہے۔ اورکسی مخصوص سورت کو ہمیشہ ایک ہی نماز میں پڑھنے کو مکروہ کہا گیا ہے، جیسے کہ سورۃ السجدہ اور ﴿هَلْ أَتَى﴾ کو ہر جمعے کی فجر کے لیے مخصوص کرنا، بلکہ ان دونوں کی قراءت کبھی کبھار مستحب ہے؛ تاکہ نبی کریم ﷺ کے عمل کی برکت حاصل ہو۔ جیسا کہ علامہ کمال بن الہمام نے فتح القدیر (1/337، ط. دار الفكر) میں وضاحت فرمائی ہے۔
علامہ بہوتیؒ (فقہِ حنبلی کے بزرگ عالم) نے شرح منتهى الإرادات میں لکھا ہے کہ جمعہ کے دن کی فجر میں سنت یہ ہے کہ امام پہلی رکعت میں سورۃ الم سجدة اور دوسری رکعت میں سورۃ هل أتى على الإنسان پڑھے، کیونکہ نبی کریم ﷺ ایسا کرتے تھے، جیسا کہ حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ طور پر ثابت ہے۔ شیخ تقی الدین نے فرمایا کہ ان دونوں سورتوں میں آسمان و زمین کی پیدائش اور انسان کی تخلیق سے لے کر اس کے جنت یا دوزخ میں داخل ہونے تک کا بیان موجود ہے، اور ان دونوں سورتوں پر ہمیشہ مداومت کرنا مکروہ ہے۔
جبکہ مالکیہ کے نزدیک (ان کے معتمد قول کے مطابق) فرض نماز میں سورۂ سجدہ کی آیات کو قصداً پڑھنا مکروہ ہے، خواہ وہ نماز فجر ہو یا کوئی اور، اور خواہ مداومت کے ساتھ ہو یا بغیر اس کے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ آیتِ سجدہ پڑھ کر سجدہ کرے تو نماز کی سجدوں کی تعداد بڑھ جائے گی، اور اگر سجدہ نہ کرے تو وہ اس ملامت میں داخل ہو گا جس کی طرف قرآن میں اشارہ ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ﴾ ترجمہ: ''اور جب اُن کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے۔'' (الانشقاق: 21)، اس لیے بہتر یہی ہے کہ نماز میں ایسی آیات کی تلاوت بالکل نہ کی جائے تاکہ ان دونوں صورتوں سے بچا جا سکے۔
شیخ دَردِير نے الشرح الكبير میں امام دَسوقی کی حاشیہ (1/310، ط. دار الفكر) کے ساتھ فرمایا: [(و) كره (تعمدها) أي السجدة أي قراءة آيتها (بفريضة) ولو صبح جمعة] فرض نماز میں جان بوجھ کر سجدے والی آیت کی قراءت مکروہ ہے، اگرچہ وہ جمعے کی فجر ہی کیوں نہ ہو۔
علامہ دَسوقی نے اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرمایا: “ان کے قول'وتعمدها بفريضة' کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وہ مداومت کے طور پر نہ ہو بلکہ اتفاقاً ایک مرتبہ ہی ایسا کرے، تب بھی مکروہ ہے۔اور فرض نماز میں قصداً آیتِ سجدہ پڑھنا مکروہ اس لیے ہے کہ اگر اس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر وہ ملامت وارد ہوگی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ﴾ [الانشقاق: 21]، اور اگر اس نے سجدہ کرلیا تو نماز کے سجدوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا — جیسا کہ کہا گیا۔ (اور ان کے قول 'ولو صبح جمعة ' کا مطلب یہ ہے کہ) یہ حکم جمعہ کی فجر کی نماز کے بارے میں بھی ہے، برخلاف اُن کے جو اس میں (سجدہ کی آیت پڑھنے کو) سنت کہتے ہیں، کیونکہ اہلِ مدینہ کا عمل اس کے خلاف ہے، لہٰذا اس سے اس سنت کا منسوخ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
اسی طرح بعض مالکیہ کے نزدیک فرض نماز میں سجدے والی سورت کی قراءت مطلق طور پر جائز ہے، اور اسی میں جمعہ کی فجر میں سورۂ سجدہ کی قراءت بھی شامل ہے۔ امام ابن وَہبؒ سے یہی روایت منقول ہے، اور اِسے امام لَخمیؒ، ابن یونسؒ، ابن بشیرؒ اور دیگر علماء نے درست قرار دیا ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ سجدہ کی قراءت پر مداومت فرمایا کرتے تھے۔ امام ابن بشیرؒ فرماتے ہیں: "اور اسی عمل پر میرے شیوخ اور ان کے اساتذہ میں سے نیک لوگ ہمیشہ کاربند رہے۔" (دیکھئے: شرح الزرقانی على مختصر خليل بحاشية البناني، 1/485، دار الكتب العلمية)
اور شافعیہ کے نزدیک جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان کی قراءت مستحب ہے، اور ان پر مداومت کرنا بھی مستحب ہے۔ امام نووی شافعیؒ فرماتے ہیں: “جمعہ کے دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۂ ''الم تنزيل'' (سورۃ السجدہ) اور دوسری رکعت میں سورۃ ''هل أتى'' (سورۃ الإنسان) کی قراءت سنت ہے، صحیح حدیث کی بنا پر، اور بہتر یہ ہے کہ دونوں سورتیں مکمل پڑھی جائیں۔” (المجموع، 3/385، دار الفكر)
علامہ سلیمان جمل شافعیؒ نے اپنی کتاب حاشیۃ شرح المنہج (1/359، دار الفكر) میں فرمایا: “ان دونوں سورتوں (السجدہ اور الإنسان) کی مداومت سنت ہے، اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی کہ عوام اسے واجب سمجھنے لگیں، ان لوگوں کے برخلاف جنہوں نے اس کو (یا اس مسئلے کو) اس زاویے سے دیکھا؛ کیونکہ اس میں وارد سنت کی مخالفت لازم آتی ہے، نیز اس بنا پر اکثر سنن کو ترک کرنا بھی لازم آئے گا، جیسا کہ علامہ بکری دمیاطی نے حاشیہ إعانة الطالبين (1/177، ط. دار الفكر) میں بیان فرمایا ہے۔
فتویٰ کے لیے قولِ مختار اور سورۃ کے بعض حصے پر اکتفا کرنے کا حکم
فتویٰ کے لیے راجح قول شافعیہ کا موقف ہے، اور یہی بعض مالکیہ کے کلام سے بھی مستفاد ہوتا ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، نیز یہ رائے بہت سے صحابہ اور سلف سے بھی منقول ہے۔
امام ابن رجب حنبلی نے شرح صحیح البخاری (8/132-133، ط. مكتبة الغرباء الأثرية) میں فرمایا: ان علماء میں سے جنہوں نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۂ "الم تنزیل" (السجدہ) اور سورۂ "هل أتى" (الإنسان) کی قراءت کو مستحب قرار دیا ہے، ان میں سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ابو خیثمہ، ابن ابی شیبہ، سلیمان بن داود ہاشمی، الجوزجانی اور دیگر محدث فقہاء شامل ہیں۔ یہی قول بعض صحابہ کرام سے بھی مروی ہے، جیسے حضرت علی، حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم۔ اور جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ان سورتوں کی قراءت پر مداومت (ہمیشگی) مستحب ہے، اور یہی امام شافعی کا قول ہے۔
افضل اور سنت کے مطابق یہی ہے کہ جمعہ کے دن نمازِ فجرمیں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان دونوں مکمل پڑھی جائیں، لیکن اگر لوگوں پر تخفیف اور ان کے حالات کی رعایت کے لیے ان میں سے کچھ حصے ہی پڑھے جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ علامہ سلیمان الجمل شافعی نے حاشیہ شرح المنہج (1/359) میں فرمایا: اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ پوری سورۂ "الم تنزیل" نہ پڑھی جا سکے تو جتنا ممکن ہو، اتنا حصہ پڑھ لینا کافی ہے، چاہے صرف آیتِ سجدہ ہی کیوں نہ ہو، اور دوسری رکعت میں بھی سورۂ "هل أتى" کا جتنا ممکن ہو حصہ پڑھ لینا چاہیے۔ اگر ان کے بجائے کوئی اور سورت پڑھ لی جائے تو سنت ترک کرنے والا شمار ہوگا، اور یہی معتمد قول ہے اگرچہ اس پر کچھ اعتراض کیا گیا ہے۔
خلاصہ
اس بنیاد پر، اور سوال میں ذکر کی گئی صورت میں: جمعہ کے دن نمازِ فجرمیں سورۂ سجدہ اور سورۂ انسان کی تلاوت شریعت کی رو سے مستحب ہے، اور ان دونوں پر مداومت (یعنی ہمیشہ پڑھتے رہنا) بھی مستحب ہے۔ بہتر اور کامل صورت یہ ہے کہ دونوں سورتیں پوری پڑھی جائیں، لیکن اگر لوگوں پر تخفیف کی وجہ سے ان میں سے کچھ حصہ، چاہے صرف آیتِ سجدہ ہی کیوں نہ ہو، پڑھ لیا جائے تو بھی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.