قرض کی ضمانت کیلئے زندگی کے بیمے کی شرط لگانے کا حکم
Question
قرض کی ضمانت کیلئے زندگی کے بیمے (Life Insurance) کی شرط لگانے کا کیا حکم ہے؟ میں ایک ایسی کمپنی میں کام کرتا ہوں جو اپنے ملازمین کو بغیر سود کے قرض دیتی ہے تاکہ وہ فلیٹ خرید سکیں، لیکن وہ اس شرط کے ساتھ قرض دیتی ہے کہ ملازم اپنی زندگی کا بیمہ کروائے، تاکہ اگر وہ قرض کی مکمل ادائیگی سے پہلے فوت ہو جائے تو کمپنی کو اپنی رقم بیمہ کمپنی سے مل جائے۔ اس صورت میں کیا حکم ہے؟ اور کیا قرض کی ضمانت کے لیے قرض لینے والے پر ایسی شرط لگانا جائز ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر کوئی کمپنی بغیر سود کے قرض لینے والوں پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ زندگی کا بیمہ (Life Insurance)کروائیں تاکہ کمپنی اپنی رقم کے حق کو محفوظ رکھ سکے، تو یہ شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ یہ شرط قرض دینے والے کے لیے نفع حاصل کرنے کے معنی میں نہیں آتی، بلکہ محض اس کے حق کے تحفظ اور ضمانت کے طور پر ہے۔
تفصیلات...
اسلامی شریعت کی حقوق کے تحفظ پر تاکید کا بیان
شریعتِ اسلامی کی مالی معاملات کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کا مقصد فریقین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ حقوق کی ضمانت ہی باہمی انصاف کے قیام کی بنیاد ہے۔ اسی لیے اسلامی شریعت نے افراد کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ضیاع یا انکار سے بچانے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اور اس مقصد کے لیے مختلف عقود مقرر کیے ہیں، جیسے ضمان (ضمانت) اور رہن (گروی)، جو اپنی لچک اور مالی و اقتصادی معاملات کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ موافقت رکھنے کی صلاحیت کے باعث نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
ضمان، جسے بعض اہلِ علم کفالت بھی کہتے ہیں، دراصل یہ عہد و ذمہ داری ہے کہ اگر مقروض (یا ذمہ دار شخص) کسی وجہ سے قرض ادا کرنے یا اپنے ذمہ واجب الادا کام پورا کرنے سے عاجز آجائے یا انکار کر دے، تو ضامن اس کی طرف سے ادائیگی کرے گا۔ اس سے قرض دینے والے کو یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اس کا حق ضائع نہیں ہوگا۔ اس کی اصل قرآنِ کریم کی اس آیت میں ہے: ﴿وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ﴾ (یوسف: 72)، یعنی “جو اسے لے کر آئے گا، اسے ایک اونٹ کا بوجھ (انعام) ملے گا، اور میں اس کا ضامن ہوں۔”
اسی طرح رہن (گروی) کا معاملہ بھی ہے، جس کے ذریعے کسی خاص مال کو قرض کی ضمانت کے طور پر روک لیا جاتا ہے تاکہ اگر مقروض ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو قرض خواہ کا حق محفوظ رہے۔ اس کی بنیاد قرآنِ کریم کی اس آیت میں ہے: ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ﴾ (البقرہ: 283)، یعنی “اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو قبضہ میں لیا ہوا رہن (گروی مال) کافی ہے۔” نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی، جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے “صحیحین” میں منقول ہے، اور آپ ﷺ کا وصال اس حالت میں ہوا کہ آپ کی زرہ اسی کے پاس گروی تھی، جیسا کہ بخاری کی روایت میں مذکور ہے۔
سوال میں مذکور صورت میں بیمہ سے متعلق وضاحت
عصرِ حاضر میں ضمانت کی مختلف صورتوں میں سے ایک وہ ہے جو سوال میں بیان کی گئی ہے، یعنی قرض دینے والے کے حق کے تحفظ کے لیے بیمہ کی شرط لگانا۔ یہاں مراد زندگی کا بیمہ (Life Insurance) ہے، جو بیمے کی معروف اقسام میں سے ایک ہے۔ اس کی تعریف مصری دیوانی قانون (قانون نمبر 131، سنہ 1948ء) کی دفعہ 747 میں یوں بیان کی گئی ہے: ''یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت بیمہ کنندہ (Insurer) اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اگر طے شدہ حادثہ یا خطرہ پیش آ جائے تو وہ بیمہ شدہ شخص یا اس کے مقرر کردہ مستفید (Beneficiary) کو ایک مخصوص رقم، یا باقاعدہ آمدنی، یا کسی دیگر مالی معاوضے کی ادائیگی کرے، اور یہ اس کے بدلے میں جو بیمہ کروانے والا شخص مقررہ قسط یا کوئی اور مالی ادائیگی کرتا ہے۔”
قرض کی ضمانت کیلئے زندگی کے بیمے کی شرط لگانے کا حکم
فتویٰ کے طور پر اختیار کی گئی رائے یہ ہے کہ زندگی کا بیمہ (Life Insurance) ایک تبرعی یعنی عطیاتی (رضاکارانہ تعاون کا)معاہدہ ہے جو فریقین کے درمیان سماجی تعاون اور باہمی مدد کے اصول پر قائم ہوتا ہے، نہ کہ معاوَضے (خرید و فروخت) پر مبنی عقد ہے۔ اس میں بیمہ کمپنی بیمے کی رقم بطور تبرع ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے، اور بیمہ کرانے والا (Insured) بھی قسطوں یا معاہدے کی رقم بطور تبرع ادا کرتا ہے۔
رہا قرض، تو وہ بھی باہمی تعاون، ہمدردی اور سہولت رسانی کی ایک صورت ہے، اور یہ قرض دینے والے کی طرف سے محض تبرع ہی ہوتا ہے۔اور قرض کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قرض دینے والے کے لیے کسی نفع یا فائدے کا سبب نہ بنے۔ اسی لیے اگر قرض دینے والا اپنے قرض کے بدلے کسی زیادتی یا فائدے کی شرط لگائے تو یہ حرام سود (ربا) میں داخل ہو جاتا ہے، کیونکہ اس صورت میں قرض کا مقصد — جو دراصل حاجت مند کی مدد کرنا، تنگی دور کرنا اور اجر وثواب حاصل کرنا ہے — بدل کر ایک تجارتی لین دین بن جاتا ہے۔ شریعت کا اصول ہے کہ "ہر وہ قرض جو نفع کا باعث بنے، وہ سود ہے"۔
علامہ کاسانی نے بدائع الصنائع (جلد 7، صفحہ 395، دار الکتب العلمیة) میں قرض کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرمایا: اور وہ شرط جو خود قرض کی حقیقت سے متعلق ہے یہ ہے کہ قرض میں کوئی نفع شامل نہ ہو، اگر اس میں نفع ہو تو وہ جائز نہیں۔ جیسے اگر کسی کو ایسی دراہم (سکے) قرض دیے جائیں جو رائج سکوں سے کم قدر کے ہوں، اس شرط پر کہ وہ واپس صحیح اور مکمل سکے لوٹائے، یا اسے قرض دیا جائے اور اس میں کوئی ایسی شرط رکھی جائے جس میں قرض دینے والے کے لیے نفع ہو۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے اس قرض سے منع فرمایا جو نفع کا سبب بنے۔”
علامہ خطّاب نے مواهب الجليل (جلد 4، صفحہ 546، دار الفکر) میں فرمایا: اگر قرض سے مقروض کے علاوہ کسی اور کو نفع حاصل ہو تو وہ جائز نہیں ہے۔”
امام شيرازی نے المهذب (جلد 2، صفحہ 83–84، دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: ایسا قرض جائز نہیں جو نفع کا باعث بنے، جیسے یہ کہ کوئی شخص دوسرے کو ایک ہزار قرض دے اس شرط پر کہ وہ قرض دینے والے کا مکان تعمیر کرے، یا یہ کہ اسے اس سے بہتر یا زیادہ واپس کرے۔”
علامہ موفق ابن قدامہ نے المغني (جلد 4، صفحہ 240، مکتبة القاہرہ) میں فرمایا: ہر وہ قرض جس میں زیادتی کی شرط رکھی جائے، وہ بالاتفاق حرام ہے… کیونکہ قرض دراصل احسان اور نیکی کا عمل ہے، تو جب اس میں زیادتی کی شرط لگا دی جائے تو یہ اپنے اصل مقصد سے خارج ہو جاتا ہے۔”
رہا یہ معاملہ کہ قرض دینے والا اپنے حق کے حصول کی ضمانت کے لیے بیمہ کی شرط لگائے، تو اس میں قرض دینے والے کے لیے قرض سے کوئی اضافی نفع حاصل نہیں ہو رہا، بلکہ یہ صرف اس کے حق کی تحفظ اور توثیق کے لیے ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اور قرض کی توثیق کے ذریعے قرض دینے والے کے حق کی ضمانت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے، جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے کھانے کا سامان خریدا اور اپنی زرہ بطور رہن (گروی) اس کے پاس رکھ دی۔”
چاروں فقہی مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرض میں ضمانت کی شرط لگانا — تاکہ قرض دینے والے کا حق محفوظ رہے — جائز ہے۔
علامہ مرغینانی حنفی رحمہ اللہ نے الہدایہ (جلد 3، صفحہ 90، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: “جہاں تک مال کی ضمانت (کفالت) کا تعلق ہے، تو وہ جائز ہے، خواہ ضمانت کی رقم معلوم ہو یا مجہول، بشرطیکہ وہ صحیح قرض ہو۔ جیسے کوئی کہے: ‘میں اس کے ذمے ایک ہزار کی ضمانت لیتا ہوں’ یا ‘جو کچھ تجھ پر واجب ہے، اس کی کفالت لیتا ہوں’ یا ‘اس بیع میں جو کچھ تجھ پر لازم آئے گا، اس کی ضمانت لیتا ہوں’۔ کیونکہ کفالت کا مدار وسعت اور سہولت پر ہے، اس لیے اس میں قدرے جہالت (ابہام) برداشت کی جاتی ہے۔”
علامہ دردیـر مالکی نے الشرح الكبير (جلد 3، صفحہ 331، دار الفكر) میں، اور اس کے ساتھ حاشیہ دسوقی میں فرمایا: (اور) مؤجل (مدت والے) قرض کی ضمانت فوری طور پر (حالًّا) دینا درست ہے، یعنی ضمانت دینے والے پر فوراً ادائیگی لازم ہوگی، بشرطیکہ مقروض اپنی مدت کے حق سے دستبردار ہونے پر راضی ہو۔ بشرط یہ کہ وہ قرض ایسی چیز کا ہو جس کی ادائیگی میں جلدی کرنا جائز ہو، جیسے نقد رقم، یا وہ چیزیں جو بطور قرض دی جاتی ہیں جیسے مال یا کھانے کی اشیاء۔”
شیخ الاسلام زکریا الانصاری شافعی نے أسنى المطالب (جلد 2، صفحہ 143، دار الکتاب الإسلامی) میں فرمایا: قرض دینا اس شرط کے ساتھ بھی صحیح ہے کہ اس کے بدلے رہن (گروی)، کفیل (ضامن)، گواہی، یا حاکم کے سامنے اقرار ہو، کیونکہ یہ سب چیزیں محض توثیقِ حق کے لیے ہیں، نہ کہ کوئی زائد نفع حاصل کرنے کے لیے۔”
اور علامہ تغلبی حنبلی نے نيل المآرب (جلد 1، صفحہ 368، مکتبة الفلاح) میں فرمایا: قرض میں رہن یا ضامن کی شرط لگانا جائز ہے۔”
ان نصوصِ فقہاء سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرض دینے کے وقت ضمانت لینا شرعاً جائز ہے، کیونکہ اس کا مقصد صرف توثیق اور قرض خواہ کو اس اطمینان تک پہنچانا ہے کہ مقروض ادائیگی کی قدرت رکھتا ہے۔ یہی مفہوم بیمے (تأمين) کی شرط میں بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں بھی قرض خواہ کے حق کے حصول کی ضمانت موجود ہوتی ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں کوئی فرق یا تضاد نہیں۔
خلاصہ
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں، سوال میں بیان کی گئی صورت کے مطابق: اگر کوئی کمپنی بغیر سود کے قرض لینے والوں پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ زندگی کا بیمہ (Life Insurance) کروائیں تاکہ کمپنی اپنی رقم کے حق کو محفوظ رکھ سکے، تو یہ شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ یہ شرط قرض دینے والے کے لیے نفع حاصل کرنے کے معنی میں نہیں آتی، بلکہ محض اس کے حق کے تحفظ اور ضمانت کے طور پر ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.