اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ میں مذکور صلاة کا معنی اور اس کے متعلق ایک شبہ کا ازالہ
Question
ایک سائل پوچھ رہا ہے: میں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی، جس میں ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کے معنی اور طریقے پر اشکال پیش کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب ہم کہتے ہیں: “اللهم صل على محمد” یا “اللهم صل على النبي” تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ سے نبی ﷺ پر درود بھیجنے کی دعا ہے۔ اس نے کہا: جب اللہ خود ہی نبی ﷺ پر درود بھیجتا ہے، تو مسلمان اللہ سے کیسے کہہ سکتا ہے کہ "آپ درود بھیجیں"؟ یہ تو گویا "حکم کو حکم دینے والے کی طرف لوٹانا" ہے۔ پھر اس نے یہ بات کہی کہ درود سے مراد دراصل نبی ﷺ کے لیے دعا کرنا ہے، مثلاً یہ کہنا: “اللهم آت محمداً الوسيلة والفضيلة” وغیرہ۔ اس کے مطابق جب ہم نبی ﷺ کے لیے ایسی دعا کرتے ہیں، تو یہی درود شمار ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم اس امر میں وضاحت اور راہنمائی کی گزارش کرتے ہیں ۔
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛
اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ﴾ کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کریم ﷺ کے لیے مطلقاً کوئی بھی دعا کی جائے، بلکہ اس سے مراد ایک خاص معنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے اور عرض کرے کہ وہ خود اپنے نبی محمد ﷺ پر درود بھیجے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "اللهم صلِّ على سيدنا محمد" یا "صلَّى الله على سيدنا محمد" وغیرہ۔یہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ رفیع کے اعتراف، آپ کے حق کی ادائیگی، آپ کی عظمت کے اظہار، اور اللہ کی جانب سے آپ پر ہمیشہ جاری رہنے والی رحمت و تعظیم میں اضافے کی التجا ہے، جو اللہ کی بادشاہت کے دوام کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے گی۔
تفصیلات
نبی کریم ﷺ پر درود کے معنی کی وضاحت
لفظ "صلاة" مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک مشترک لفظ ہے۔ شرعی اصطلاح میں لفظ "صلاة" کو اس کے لغوی معنی — یعنی دعا — سے منتقل کر کے ایک نئے مفہوم کے لیے مخصوص کیا گیا، جو اس کے لغوی معنی سے مختلف ہے۔ شرعاً اس سے مراد وہ معروف عبادت ہے جو تکبیر سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے، اور جس میں مخصوص اقوال و افعال ادا کیے جاتے ہیں۔
امام عمرانی نے اپنی کتاب "البيان" (2/7، ط. دار المنهاج) میں فرمایا: لغت میں''صلاة" کا معنی دعا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: ﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ [التوبة: 103] یعنی ان کے لیے دعا کیجیے۔ لیکن شرعی اصطلاح میں "صلاۃ" مخصوص اقوال وافعال کا نام ہے، جیسے: تکبیر، قراءت، رکوع، سجود، تشہد وغیرہ۔ لہٰذا جب شریعت میں لفظِ صلاۃ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہی شرعی نماز ہوتی ہے، لغوی معنی یعنی "دعا" مراد نہیں ہوتی۔
"صلاۃ" کا لفظ جب نبی کریم ﷺ پر درود کے بارے میں آتا ہے تو اس کا مفہوم نہ تو عام دعا ہوتا ہے اور نہ ہی نماز، بلکہ یہ ایک خاص شرعی معنی اختیار کر لیتا ہے، یعنی بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ اپنے نبی ﷺ پر درود و رحمت نازل فرمائے۔ یہی معنی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مراد ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی (ﷺ) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔''
جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم توقف اختیار کیا تاکہ سمجھ سکیں کہ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے کے اس الہیٰ حکم سے کیا مراد ہے، کیونکہ یہ حکم ایک مجمل (یعنی وضاحت طلب) حکم کی طرح تھا جس کے لیے تفصیل درکار تھی — آیا کہ اس کے لیے کوئی مخصوص صیغہ یا طریقہ ہے؟ کون سی عبارت زیادہ مناسب اور لائقِ شانِ نبوی ہے؟ یہ اس لیے کہ دعا کے الفاظ، انداز اور صفات مختلف ہوا کرتے ہیں۔
چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں خود رسولِ اکرم ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ اس معاملے میں مخصوص طریقہ مشروع ہے، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے ربّ عزوجل سے دعا کرے کہ وہ خود اپنے نبی اور برگزیدہ بندے محمد بن عبداللہ ﷺ پر درود بھیجے۔
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ کیف نصلی علیک؟"! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجیں؟ تو رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: "یوں کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ''۔ترجمہ: اے اللہ! حضرت محمد ﷺ، ان کی ازواجِ مطہرات اور اولاد پر رحمت نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان پر رحمت نازل فرمائی۔ اور حضرت محمد ﷺ، ان کی ازواج اور اولاد پر برکت نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان پر برکتیں نازل فرمائیں۔ بے شک تو ہی حمد و بزرگی کا سزاوار ہے۔ (متفق علیہ) یہ حدیث مبارکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے، جن میں حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو ہریرہ، حضرت کعب بن عجرہ، حضرت ابو مسعود انصاری، حضرت طلحہ اور حضرت بریدہ خزاعی رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اس کی بعض روایات امام بیہقی نے اپنی کتاب الدعوات الکبیر اور المعرفة میں ذکر کی ہیں، جو امام شافعی کی امام مالک سے روایت کردہ سند کے ساتھ منقول ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (جلد 11، صفحہ 155، دار المعرفہ) میں فرمایا: "لفظ 'كيف' کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ اس سے مراد یہ سوال ہے کہ نبی ﷺ پرجس درود کے ادا کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، اسے کن الفاظ میں پڑھا جائے؟ اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد اس درود کی کیفیت کے بارے میں سوال ہے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں قاضی عیاض نے فرمایا: چونکہ "صلو علیہ" میں وارد لفظِ صلاة متعدد معانی رکھتا ہے—رحمت، دعا اور تعظیم—لہٰذا صحابہ نے پوچھا کہ یہ نماز (درود) کس مخصوص لفظ یا صفت کے ساتھ ادا کی جائے؟ بعض مشائخ نے کہا کہ امام باجی کے نزدیک زیادہ راجح یہ ہے کہ صحابہ کا سوال درود کی کیفیت کے بارے میں تھا، نہ کہ اس کی جنس کے بارے میں، اور یہی بات زیادہ ظاہر ہے؛ کیونکہ لفظ 'كيف' کیفیت پر دلالت کرتا ہے، جبکہ جنس کے بارے میں سوال 'ما' کے لفظ سے کیا جاتا ہے۔ امام قرطبی نے بھی یہی فرمایا ہے اور فرمایا کہ یہ سوال ایسے شخص کی طرف سے ہے جس پر درود کے اصل معنی تو واضح تھے مگر اس کی کیفیت مشتبہ تھی، چنانچہ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ درود کی وہ کون سی صورت ہے جو آپ ﷺ کے شایانِ شان ہے تاکہ وہ اسی طرح اسے ادا کریں۔"
بعض مشایخ نے فرمایا کہ امام باجیؒ کے نزدیک راجح یہ ہے کہ صحابہ کا سوال دراصل درود کی کیفیت کے بارے میں تھا، نہ کہ اس کی جنس کے بارے میں، اور یہی بات ظاہر ہے، کیونکہ لفظ "کیف" (کیسے) صفت کے بیان میں آتا ہے، جبکہ جنس کے بارے میں سوال لفظ "ما" (کیا) سے کیا جاتا ہے۔ امام قرطبیؒ نے بھی اسی بات پر قطعی طور پر فرمایا کہ یہ سوال ایسے شخص کی طرف سے تھا جس پر درود کے مفہوم کا اصل مطلب تو واضح تھا، لیکن وہ اس کی مناسب کیفیت جاننا چاہتا تھا تاکہ اسی کے مطابق اس کو ادا کرے۔
یوں صاف ظاہر ہوا کہ مسلمان کو جس درودِ پاک کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا اور درخواست کرے کہ وہ اپنے نبی پر درود بھیجے۔ چنانچہ مسلمان کے قول "اللهم صلِّ على محمد" کا مطلب یہ ہے: "اے اللہ! دنیا میں اپنے نبی محمد ﷺ کو عظمت عطا فرما، ان کا ذکر بلند کر، ان کی دعوت کو غالب کر، ان کی شریعت کو رائج فرما، اور آخرت میں ان کی امت کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما، ان کے اجر و ثواب کو جاری فرما، اور تمام اولین و آخرین کے سامنے ان کے فضائل کو ظاہر فرما، اور انہیں مقامِ محمود عطا فرما۔" جیساکہ امام حلیمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المنهاج في شعب الإيمان (جلد 2، صفحہ 134، دار الفكر) میں بیان فرمایا۔
نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے کی مطلوبہ کیفیت کے بارے میں علما کے اقوال
نبی ﷺ پر درود کی حقیقت دراصل دعا اور التجا ہے، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے صحابہ کرامؓ اور علما کے کئی اقوال منقول ہیں جن میں انہوں نے درود کی یہی نوعیت بیان کی، لوگوں کو سکھائی اور سمجھائی۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اسود بن یزید بیان کرتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "جب تم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو تو خوبصورت انداز میں درود بھیجو، کیونکہ تم نہیں جانتے، ممکن ہے کہ تمہارا درود ان پر پیش کیا جائے۔ تو حضرت اسود (رحمہ اللہ) بیان کرتے ہیں: لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: ہمیں سکھائیے کہ ہم درود کس طرح بھیجیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یوں کہو: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ، وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِينَ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، إِمَامِ الْخَيْرِ، وَقَائِدِ الْخَيْرِ، وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ، اللَّهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، يَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» ترجمہ: "اے اللہ! اپنی رحمت، برکت اور درود نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، جو تمام رسولوں کے سردار، پرہیزگاروں کے امام، اور نبیوں کے خاتم ہیں۔ وہ خیر کے امام، خیر کے قائد اور رحمت کے رسول ہیں۔ اے اللہ! انہیں وہ مقامِ محمود عطا فرما جس پر اولین و آخرین رشک کریں۔ اے اللہ! محمد ﷺ اور آلِ محمد پر درود بھیج، جیسے تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر درود بھیجا، بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد ﷺ اور آلِ محمد پر برکت نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔" (اس روایت کو ابن ماجہ، طبرانی نے المعجم الکبیر میں، اور بیہقی نے شعب الإیمان میں روایت کیا ہے۔)
شیخ ابن القیم نے اپنی کتاب جلاء الأفهام میں فرمایا کہ نبی ﷺ پر درود بھیجنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے وہی چیز مانگے جس کی خبر اللہ نے اپنی طرف سے نبی ﷺ پر درود کے بارے میں دی ہے۔ اس لیے درود میں دو پہلو شامل ہیں: ایک خبر دینا اور دوسرا دعا کرنا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے *فتح الباری* میں فرمایا کہ سب سے زیادہ درست قول وہی ہے جو ابو العالیہ سے منقول ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی ﷺ پر درود بھیجنے کا مطلب ہے کہ وہ ان کی تعریف و تعظیم فرماتا ہے، اور فرشتوں یا دیگر مخلوقات کا درود کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نبی ﷺ کے لیے اسی تعریف و تعظیم میں مزید اضافہ کی دعا کرتے ہیں، نہ کہ اس کے اصلِ درود کی۔
پھر آپ رحمہ اللہ نے اس کے بعد امام حلیمی کا یہ قول نقل کیا: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے رب سے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے کی دعا کرو۔ اسی مفہوم کو متعدد شارحینِ حدیث نے اختیار کیا ہے، جیسے امام شهاب الدین القسطلانی نے المواهب اللدنية میں اور علامہ محمد الامیر الصنعانی نے التحبیر میں۔
اللہ تعالیٰ سے نبی ﷺ پر درود بھیجنے کی دعا کو "صلوٰۃ" کہنے کی وجہ
نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود بھیجنے کی دعا کو صلاة کہنے کی علت دو پہلوؤں سے واضح ہوتی ہے:
پہلا یہ کہ اس دعا میں دراصل نبی ﷺ کی مدح و ثنا، ان کے شرف و فضل کا ذکر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے محبت و رفعت کی طلب شامل ہے، لہٰذا اس میں خبر (یعنی بیانِ مدح) بھی ہے اور طلب (یعنی دعا) بھی۔
دوسرا یہ کہ اسے ہماری طرف سےدعا کو صلاة اس لیے کہا گیا کہ ہم اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے نبی ﷺ پر صلاة (درود) بھیجے۔ پس اللہ کی طرف سے صلاة کا مطلب نبی ﷺ کی مدح و ثنا اور آپ کے ذکر کو بلند کرنے اور آپ کو قربِ خاص عطا کرنے کا ارادہ ہے،، اور ہمارےدرود کا مطلب ہے کہ ہم آپ ﷺ کیلئے اللہ تعالیٰ سے اس مدح و رفعت کے لیے دعا کرتے ہیں۔"جیسا کہ شیخ ابن القیم نے جلاء الأفهام، ص 162میں فرمایا ہے۔
نبی کریم ﷺ پر درود کی دعا کرنے میں پائے جانے والے معانی اور حکمتیں
مزید یہ کہ جب مسلمان نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہوئے کہتا ہے: "اللهم صلِّ على سیدنا محمد" یا "صلى الله على سیدنا محمد"، تو وہ دراصل اُس مخصوص طریقے پر عمل کرتا ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اسی کے ذریعے عبادت بجا لاتا ہے۔ ساتھ ہی، اس درود میں نہایت گہرے معانی اور عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں جنہیں سمجھنا اور ان پر توجہ دینا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ان میں سے چند یہ ہیں:
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی درود بھیجنے سے اُس کے فضل، رحمت اور مغفرت کا ظہور ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے اور اپنے احسانات کو پہنچانے پر قادر ہے، جبکہ بندہ بے اختیار اور عاجز ہے، اس کے بس میں کچھ نہیں۔
2- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے میں اجر و ثواب کی عظمت اور اس کا تسلسل اس وجہ سے ہے کہ بندہ اپنے رب سے یہ درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنے محبوب پر رحمت، مغفرت اور ایسی دائمی تعظیم نازل فرمائے جو آپ کے مقام کے شایانِ شان ہو، کیونکہ وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبے کو حقیقی طور پر جاننے والا ہے۔
1- اس دعا کے ذریعے درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل اور اس کا اثر نبی کریم ﷺ پر ظاہر ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت، احسان اور مغفرت ان پر نازل ہوتی ہے، کیونکہ وہی اپنے حکم اور تقدیر کو نافذ کرنے پر قادر ہے، جبکہ بندہ ایک عاجز مخلوق ہے جس کے اختیار میں کچھ نہیں۔
2- بندہ جب اپنے رب سے یہ درخواست کرتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ پر اپنی رحمت اور مغفرت نازل فرمائے جو ہمیشہ باقی رہے اور ان کے شایانِ شان تعظیم کے ساتھ ہو، تو اس میں دراصل نبی ﷺ کے حق میں کامل احترام، تعظیم اور دائمی درود کی خواہش کا اظہار ہے، کیونکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنے برگزیدہ بندے سیدنا محمد ﷺ کا کیا مقام اور مرتبہ ہے۔
علامہ احمد بن محمد الصاوی المالکی الخلوتی نے اپنی کتاب حاشیہ علی تفسیر الجلالین (جلد 3، صفحہ 269، دار الجیل) میں فرمایا: اگر یہ کہا جائے کہ درود بھیجنے والوں کی صلاۃ تو دراصل اللہ تعالیٰ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کی درخواست ہے، حالانکہ اللہ تو ویسے ہی ان پر درود بھیجتا ہے، چاہے بندے مانگیں یا نہ مانگیں — تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب بندے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے برابر بدلہ دینے سے عاجز ہیں، تو انہوں نے اس قادر و مالک ذات سے دعا کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجے جانے والے درود کی کوئی حد نہیں؛ پس جتبی زیادہ اس درود کی دعا کی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ درود و رحمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتی ہے، اور یہ سلسلہ ہمیشہ باقی رہے گا کیونکہ اللہ کی ذات ہمیشہ باقی ہے۔
3- تیسری بات یہ ہے کہ بندے کی دعا قبول بھی ہو سکتی ہے اور رد بھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود ایک ایسا عمل ہے جو ہر حال میں مقبول ہے، رد نہیں ہوتا؛ کیونکہ اس میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا رہتا ہے، اور یہ عمل مسلسل اور تجدید کے ساتھ جاری رہتا ہے۔
یہی مفہوم علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ کے اس قول سے سمجھ میں آتا ہے، جو انہوں نے رد المحتار (جلد 1، صفحہ 520–521، طبع دار الفکر) میں فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ﴾ [الأحزاب: 56] — اس آیت میں فعلِ مضارع کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ درود کا عمل تجدید اور تسلسل کے ساتھ ہمیشہ جاری ہے۔ مزید یہ کہ آیت کی ابتدا جملہ اسمیہ سے ہوئی ہے جو تاکید کے لیے ہے، اور اس سے پہلے إنَّ کا اضافہ بھی مزید زور دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسولِ مکرم ﷺ پر درود بھیجتا رہتا ہے۔ پھر اس نے اپنے مؤمن بندوں پر احسان فرمایا کہ انہیں بھی درود پڑھنے کا حکم دیا، تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے زیادہ فضل اور شرف حاصل کر سکیں۔ ورنہ نبی اکرم ﷺ تو اپنے رب عزوجل کے درود کی وجہ سے بندوں کے درود سے بے نیاز ہیں۔ لہٰذا جب کوئی مؤمن اپنے رب سے نبی ﷺ پر درود بھیجنے کی دعا کرتا ہے، تو یہ دعا یقینی طور پر قبول ہوتی ہے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے نبی ﷺ پر درود بھیجتا ہے۔ یہ کیفیت دیگر دعاؤں اور عبادتوں سے مختلف ہے، کیونکہ وہ رد بھی ہوسکتی ہیں، مگر درود ہر حال میں مقبول ہے۔
4- چوتھی بات یہ ہے کہ درود شریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق کی ادائیگی کی نیت سے پڑھا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا دراصل ان کا حق ادا کرنے کے قصد سے ہوتا ہے، اور یہ عمل اللہ عزّوجلّ کی بارگاہ میں تعظیم کے ساتھ قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں: اللهم صلِّ على محمد تو یہ دراصل ہماری طرف سے براہِ راست درود نہیں، کیونکہ ہم اس بات کے مالک نہیں کہ نبی کے مقام کو بلند کریں یا ان کے مرتبے کو بڑھائیں، یہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا ہماری صلوٰۃ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت، بلندیِ مرتبہ اور عزت کی دعا ہے۔ اسی طرح قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا: "خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ" یعنی: "ان کے مالوں سے صدقہ لیں، تاکہ آپ انہیں پاک کر دیں اور ان کے لیے دعا کریں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔" چنانچہ جب حضرت ابنِ ابی أَوفیٰ رضی اللہ عنہ نے صدقہ پیش کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “اللهم صلِّ على ابن أبي أوفىٰ”، یعنی ان کے لیے دعا کی، جو دراصل اللہ سے ان پر رحمت نازل کرنے کی التجا تھی۔
خلاصہ
اس بنا پر اور سوال کے سیاق میں: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ﴾ کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کریم ﷺ کے لیے مطلقاً کوئی بھی دعا کی جائے،بلکہ اس سے مراد ایک خاص معنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے اور عرض کرے کہ وہ خود اپنے نبی محمد ﷺ پر درود بھیجے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "اللهم صلِّ على سيدنا محمد" یا "صلَّى الله على سيدنا محمد" وغیرہ۔یہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ رفیع کے اعتراف، آپ کے حق کی ادائیگی، آپ کی عظمت کے اظہار، اور اللہ کی جانب سے آپ پر ہمیشہ جاری رہنے والی رحمت و تعظیم میں اضافے کی التجا ہے، جو اللہ کی بادشاہت کے دوام کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے گی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
