حکومتی ٹیکس کی ادائیگی سے اس بنیاد ...

Egypt's Dar Al-Ifta

حکومتی ٹیکس کی ادائیگی سے اس بنیاد پر فرار اختیار کرنے کا حکم کہ اس کا تعین غیر منصفانہ ہے

Question


اگر کوئی شخص یہ بنیاد بناۓ کہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس کا تخمینہ غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہے، تو کیا اس کے لیے اس ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا شرعاً جائز ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛

حکومتی ٹیکس (جو ولیِ امر یا حکومت کے مالیاتی ادارے کی طرف سے عائد کیے جاتے ہیں) سے بچنا یا اس کی ادائیگی سے فرار اختیار کرنا شرعًا جائز نہیں۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال میں سچائی اختیار کرے، جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی سے بچے، اور ریاست کے قوانین و ضوابط کی پابندی کرے جو معاشرتی نظم و مصلحت کے تحفظ اور عوامی فلاح کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کے تعین، وصولی اور تقسیم کے ذمے داران پر شرعاً لازم ہے کہ وہ عدل و نرمی کے ساتھ کام کریں اور عوام پر زیادتی نہ کریں۔ اگر کسی شخص کو لگے کہ ٹیکس کا تعین غیر منصفانہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے ازالے کے لیے قانونی طریقے اختیار کرے اور ریاست کے واجب الادا مالی حقوق ادا کرے، نہ کہ ایسے کام کرے جو بذاتِ خود صریح شرعی حرمت اور واضح قانونی جرم کے زمرے میں آتے ہوں۔

اسلام میں زکات کے علاوہ مالی حقوق

اسلامی تعلیمات کے مطابق مال میں زکات کے علاوہ بھی مالی حقوق ہوتے ہیں جو مسلمان پر بطورِ ذمہ داری عائد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ امام ترمذی نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے زکات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مال میں زکات کے علاوہ بھی حق ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ترجمہ: ''نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (خدا کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں "۔[البقرة: 177].

اس آیتِ کریمہ میں "زکات ادا کرنے" کو "مال خرچ کرنے" پر عطف کیا گیا ہے، اور عطف ہمیشہ مغایرت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زکات کے علاوہ بھی مالی حقوق واجب ہیں، تاکہ دونوں کے درمیان مغایرت اور فرق برقرار رہے، اگرچہ دونوں مالی حقوق ہی ہیں۔ اس لیے تقویٰ — جو شرعاً واجب ہے — ان دونوں پر عمل کیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہی بات امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب (جلد 5، صفحہ 216، دار احیاء التراث العربی) میں بیان فرمائی ہے۔

شرعی نقطۂ نظر سے ٹیکس کا حکم

ٹیکس ان اہم مالی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو حکومت کی طرف سے مقرر کی جاتی ہیں۔ اس سے مراد وہ رقم ہے جو ملکیت، کام یا آمدنی پر ریاست کے مفاد کے لیے واجب کی جاتی ہے، اور یہ قوانین اور حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ (دیکھیں: المعجم الوسیط 1/537، ط. دار الدعوة؛ تاج العروس للزبیدی 3/249، ط. دار الهدایة؛ لسان العرب لابن منظور 1/550، ط. دار صادر)۔ ریاست ان ٹیکسوں کے ذریعے اپنے عمومی اخراجات اور ضروری قومی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے جن کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں ہوتا۔

شریعتِ مطہرہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ مصالح وفوائد جو زمانے یا علاقے کے بدلنے سے نہیں بدلتے، ان کے بارے میں واضح اور قطعی حکم بیان کرتی ہے، جس میں کسی اجتہاد یا رائے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لیکن وہ مصالح جو زمانوں اور علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، ان کے فیصلے کو اپنے عمومی اصولوں کے دائرے میں اہلِ علم و اجتہاد کے سپرد کرتی ہے۔
یہی بات ٹیکسوں کے معاملے میں بھی ظاہر ہوتی ہے، جنہیں حاکمِ وقت مالداروں، آمدنیوں، تنخواہوں یا فروخت وغیرہ پر عائد کرتا ہے؛ چنانچہ ان کا برقرار رکھنا، ختم کرنا یا ان میں ترمیم کرنا قوم کی مصلحت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح وہ ٹیکس بھی جو حکومت عمومی طور پر آمدنی، تنخواہوں، فروخت اور اسی نوع کی چیزوں پر عائد کرتی ہے،  اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔
خلیفۂ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بیت المال کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ عوام سے کچھ مالی وصولیاں مقرر کرنے میں اجتہاد فرمایا؛ جیسے خراج، جو دراصل ایک قسم کا ٹیکس ہے۔ "خراج" کا اطلاق جزیہ اور دیگر ان مالی واجبات پر بھی ہوتا ہے جو سروں یا زمینوں پر عائد کیے جاتے ہیں۔ (لسان العرب لابن منظور، ج 2، ص 252)

معتبر فقہی مذاہب کے فقہاء کی ایک جماعت نے ٹیکس کے جواز کو تسلیم کیا ہے، اگرچہ بعض نے اسے دوسرے ناموں سے تعبیر کیا ہے۔ مثلاً فقہائے حنفیہ نے اسے "نوائب" کہا ہے، جو "نائبة" کی جمع ہے، اور اس سے مراد وہ بوجھ یا خرچ ہے جو کسی شخص پر حکومت کی طرف سے عائد کیا جائے۔ جیسا کہ امام ابن عابدین نے رد المحتار (5/330، دار الفکر) میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح امام شاطبی مالکی نے الاعتصام (2/619، دار ابن عفان) میں اور امام غزالی شافعی نے المستصفى (ص:177، دار الکتب العلمیة) میں اس کی تائید فرمائی ہے۔

حکومتی ٹیکس کی ادائیگی سے اس بنیاد پر فرار اختیار کرنے کا حکم کہ اس کا تعین غیر منصفانہ ہے

جدید نظامِ حکومت کے مطابق یہاں ولی الامر سے مراد ریاست کے وہ قانون ساز ادارے ہیں جو ٹیکس کے نظام کو منظم انداز میں تیار کرتے ہیں۔ یہ ادارے قوانین کے ذریعے وضاحت کرتے ہیں کہ ٹیکس کی اقسام کیا ہیں، افراد اور کمپنیوں پر ان کے حساب کا طریقہ کیا ہوگا، آمدنی کے مختلف ذرائع پر کس شرح سے ٹیکس لاگو ہوگا، اس کی جانچ پڑتال (ٹیکس آڈٹ) کے اصول کیا ہوں گے، اور کن طبقات کو ٹیکس سے استثنا حاصل ہوگا اور اس کی حدود کیا ہوں گی۔

ریاست نے ایک منظم قانونی نظام وضع کیا ہے جس کی پابندی ملک کے تمام اداروں اور عوام پر لازم قرار دی گئی ہے۔ اس نظام کے مطابق جو بھی ٹیکس عائد کیا جاتا ہے، وہ وصولی اور تقسیم کے لحاظ سے منصفانہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ریاست کی جانب سے عائد کردہ ٹیکس (ضرائب) کا شرعی طور پر مکسِ حرام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس لیے کہ یہ ٹیکس جائز حقوق کے بدلے میں لیے جاتے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ محصولات دراصل اُن خدمات اور ذمہ داریوں کے عوض ہیں جو ریاست اپنے شہریوں کی بھلائی، ان کے مفادات کے تحفظ، اور ان کے معاشی و سماجی امور کے نظم و نسق کے لیے انجام دیتی ہے۔ اس کے برخلاف "مَکْس" وہ ناجائز محصول ہے جس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا، کیونکہ وہ بلاوجہ اور ناحق وصول کیا جاتا ہے اور ناحق مقاصد میں خرچ ہوتا ہے۔ ظالمانہ محصولات وہ ہیں جو حکمران اپنے ذاتی عیش و عشرت اور اپنے حاشیہ برداروں کی آسائش کے لیے عوام سے زبردستی وصول کرتے ہیں، جس سے عوام پر تنگی اور ظلم بڑھتا ہے۔ (مراجع: تاج العروس 16/514-515، لسان العرب 6/220)

اور ٹیکسوں سے بچنے (یعنی حکومتی محصولات کی ادائیگی سے فرار اختیار کرنے) میں کئی شرعی ممنوعات پائی جاتی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں

  1. جھوٹ اور جعل سازی :کیونکہ واجب الادا ٹیکس سے بچنے کے لیے جھوٹے گوشوارے جمع کرانا، اپنی مالی حالت کو حقیقت کے خلاف ظاہر کرنا اور درست معلومات کو چھپانا صریح جھوٹ اور جعل سازی ہے، جو حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ" ترجمہ: (ترجمہ: "پس بتوں کی گندگی سے بچو، اور جھوٹی بات سے بھی بچو۔" — الحج: 30)

امام جصّاص نے "أحكام القرآن" (ج 3، ص 314، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ﴿وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾، اور "زور" سے مراد جھوٹ ہے، اور یہ آیت تمام اقسام کے جھوٹ کو عام طور پر شامل ہے۔

یہ آیتِ کریمہ فقہاء کے نزدیک جھوٹ بولنے اور حقیقت کے خلاف خبر دینے کی حرمت پر بنیادی دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں جھوٹ اور فریب کو بت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، جو کہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے کو بھی اسی حکم میں شامل کیا گیا ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہبدر الدین الزرکشی نے اپنی کتاب "البحر المحيط" (ج 6، ص 99، ط. دار الكتبي) میں وضاحت کی ہے۔

اور جیسا کہ شرعاً معلوم ہے کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ﴾ ترجمہ: "جھوٹ صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔" (النحل: 105)

امام واحدی نے اپنی تفسیر "الوسيط" (ج 3، ص 85، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "اس آیت میں جھوٹ سے روکنے کی انتہائی سخت تاکید ہے"۔

  1.  امانت میں خیانت: ٹیکس چوری امانت میں خیانت کے زمرے میں آتی ہے، کیونکہ یہ اس ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے جو فرد (یعنی معلومات دینے والے) اور ریاست کے درمیان قائم ہوتی ہے۔ امانت کو ضائع کرنا خیانت ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾ (النساء: 58) ترجمہ: "بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچاؤ۔"

اور رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ امانت میں خیانت منافق کی علامتوں میں سے ہے، ارشاد ہے: [آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ[ ترجمہ: "منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔''  متفق علیہ۔

اور وہ خیانت جو معاشرے کے حقوق کو نقصان پہنچائے، انفرادی حقوق کو نقصان پہنچانے والی خیانت سے زیادہ سنگین اور قبیح جرم ہے، کیونکہ ٹیکس سے بچنے کا عمل ریاست کو ان مالی وسائل کے حصول سے محروم کرتا ہے جو قومی منصوبوں کی تکمیل یا فقراء، مساکین اور کم آمدنی والے طبقات کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

جہاں تک قانونی جرم کا تعلق ہے، تو مصری قانون برۓ سیلز ٹیکس (نمبر 11، سن 1991ء) کی دفعہ (41) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ: "جو شخص اس قانون یا اس کے نفاذی ضوابط میں درج طریقہ کار یا نظام کی خلاف ورزی کرے، بشرطیکہ یہ عمل اس قانون میں بیان کردہ ٹیکس چوری کے جرائم میں شامل نہ ہو، تو اسے کم از کم ایک سو پاؤنڈ اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ واجب الادا ٹیکس اور اضافی ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا۔ اور درج ذیل صورتیں اس قانون کی خلاف ورزی شمار ہوں گی..."

اسی طرح فروخت یا خدمات سے متعلق غلط معلومات جمع کرانا — اگر ان میں ظاہر شدہ اضافہ اصلی گوشوارے سے 10٪ سے زیادہ نہ ہو — تو یہ بھی خلافِ قانون شمار ہوگا۔

مزید برآں، قانون نمبر 91 برائے 2005ء (جو آمدنی پر ٹیکس سے متعلق ہے) اور اس کی تازہ ترین ترمیم 2023ء کے مطابق، دفعاتِ (133) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ: جو کوئی ٹیکس کی ادائیگی سے جان بوجھ کر بچنے (ٹیکس چوری) کا مرتکب ہو، اسے کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید کی سزا دی جائے گی، اور اس پر اتنی ہی رقم کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا جتنی ٹیکس کی وہ رقم ہے جو ادا نہیں کی گئی؛ یا دونوں سزائیں بیک وقت دی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح ان لوگوں پر بھی شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ٹیکس کے تعین اور اس کی وصولی کے ذمہ دار ہیں کہ وہ عدل اور نرمی سے کام لیں، لوگوں پر سختی اور مشقت نہ ڈالیں، اور بغیر کسی ظلم یا زیادتی کے انصاف کے ساتھ ٹیکس وصول کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت تنبیہ فرمائی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: "اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر سختی کرے، تو تُو بھی اس پر سختی فرما، اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تُو بھی اس پر نرمی فرما۔" (روایت: امام مسلم)
اور رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب کوئی عامل (افسر یا ملازم) کسی ذمہ داری پر مقرر کیا جائے، پھر وہ حق وصول کرے اور حق ادا کرے تو وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔" (روایت: امام طبرانی، المعجم الکبیر(

اس حدیث میں نبی ﷺ نے واضح فرمایا کہ جو شخص اپنی سرکاری یا دفتری ذمہ داری دیانت، انصاف اور محنت کے ساتھ انجام دیتا ہے، بغیر کسی کو نقصان پہنچائے یا جانبداری کیے، تو اس کا اجر و ثواب اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے؛ کیونکہ دونوں اپنی طاقت اور صلاحیت امت اور معاشرے کی خدمت کے لیے صرف کرتے ہیں۔

اور اگر کسی شخص کو، جس پر ٹیکس ادا کرنا لازم ہے، ٹیکس کی شرح کے تعین میں ناانصافی یا زیادتی محسوس ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ خود سے ٹیکس سے بچنے یا اس سے فرار اختیار کرنے کے بجائے متعلقہ حکام یا اداروں کے سامنے اپنا معاملہ پیش کرے تاکہ حقیقت واضح کی جا سکے اور اس پر منصفانہ نظرثانی ہو۔ کیونکہ یہ اصول طے شدہ ہے کہ کوئی شخص خود ہی فریقِ مقدمہ بھی ہو اور منصف بھی، یہ درست نہیں۔ اس سلسلے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے: قانون نمبر 91 سال 2005ء اور اس میں ہونے والی متواتر ترمیمات بشمول قانون نمبر 7 سال 2025ء، نیز ان قوانین کے ضابطہ جاتی قواعد وضوابط۔

خلاصہ
مندرجہ بالا تفصیل کی بنیاد پر، اور سوال میں بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق: حکومتی ٹیکس (جو ولیِ امر یا حکومت کے مالیاتی ادارے کی طرف سے عائد کیے جاتے ہیں) سے بچنا یا اس کی ادائیگی سے فرار اختیار کرنا شرعًا جائز نہیں۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال میں سچائی اختیار کرے، جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی سے بچے، اور ریاست کے قوانین و ضوابط کی پابندی کرے جو معاشرتی نظم و مصلحت کے تحفظ اور عوامی فلاح کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کے تعین، وصولی اور تقسیم کے ذمے داران پر شرعاً لازم ہے کہ وہ عدل و نرمی کے ساتھ کام کریں اور عوام پر زیادتی نہ کریں۔ اگر کسی شخص کو لگے کہ ٹیکس کا تعین غیر منصفانہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے ازالے کے لیے قانونی طریقے اختیار کرے اور ریاست کے واجب الادا مالی حقوق ادا کرے، نہ کہ ایسے کام کرے جو بذاتِ خود صریح شرعی حرمت اور واضح قانونی جرم کے زمرے میں آتے ہوں۔


والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas