حج کے اخراجات کے لیے کمیٹی ڈالنے کا...

Egypt's Dar Al-Ifta

حج کے اخراجات کے لیے کمیٹی ڈالنے کا حکم

Question


حج کے لیے مالی کمیٹی ڈالنے کا کیا حکم ہے؟ یعنی کوئی شخص اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرے کہ وہ سب مل کر حج کے اخراجات کے لیے ایک کمیٹی بنائیں، جس میں ہر ایک شریک ماہانہ ایک مقررہ رقم جمع کرے، اور کمیٹی کی کل جمع شدہ رقم پہلے ماہ اسی شخص کو دے دی جائے جس کا حج کا وقت قریب ہو، پھر باقی شریک حضرات کو بھی باری باری ہر ماہ اتنی ہی رقم دی جائے، یہاں تک کہ ہر شریک کو اس کے ساتھیوں کی طرف سے اتنی ہی رقم مل جائے جتنی وہ دے چکا ہو۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اس شخص پر شرعاً حج کے اخراجات کا بندوبست کرنے کی کوشش کرنا لازم نہیں، لیکن اگر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہمی اتفاق سے حج کے اخراجات کے لیے ’’کمیٹی‘‘ڈال لے اور اس میں پہلا حصہ خود لے لے، اور اسے یقین ہو کہ وہ اس کمیٹی کی قسطیں ادا کرنے اور اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ و زادِ راہ کا بندوبست بآسانی کر سکے گا، بغیر کسی مشقت اور اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھائے بغیر، تو یہ شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ یا حرج نہیں۔

تفاصیل:

صاحبِ استطاعت پر حج کے واجب ہونے کا بیان

حج ایک قطعی اور لازمی فریضہ ہے جو زندگی میں صرف ایک مرتبہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے، اور اس کا وجوب استطاعت (یعنی قدرت ووسعت) کے ساتھ مشروط ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ (آل عمران: 97) ترجمہ: "اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔"

امام قرطبی رحمہ اللہ نے الجامع لأحكام القرآن (4/142، دار الکتب المصریہ) میں فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے حج کو وجوب کے سب سے مؤکد الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے، تاکہ اس کے حق کو پختہ طور پر واضح کرے اور اس کی حرمت و عظمت کو بیان کرے، اور اس کے فرض ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہوتا ہے۔

آیت میں جو "استطاعت" کا ذکر ہے وہ حج کے وجوب کی شرط ہے، مطلب یہ ہے کہ "جو شخص وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اس پر حج فرض ہے" جیسا کہ امام قرطبی نے اپنی تفسیر (4/147) میں فرمایا۔

فقہاء کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ مکلف میں حج تک پہنچنے کی استطاعت موجود ہو، خواہ وہ مناسکِ حج ادا کرنے اور سفر کی مشقت برداشت کرنے کی جسمانی استطاعت ہو یا اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ضروری زادِ راہ، سواری، جسمانی ضروریات، راستے کے امن اور اس جیسے دیگر اخراجات کی مالی استطاعت، کیونکہ حج مال اور بدن دونوں کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے، جیسا کہ امام کاسانی حنفی کی کتاب بدائع الصنائع (2/120، دار الکتب العلمیة)، امام ابن عبد البر مالکی کی الکافی (1/356، مکتبۃ الریاض)، امام نووی شافعی کی منہاج الطالبین (ص 82، دار الفکر)، اور امام ابن مفلح حنبلی کی المبدع (3/87، دار الکتب العلمیة) میں بیان کیا گیا ہے۔

حج کے اخراجات حاصل کر کے استطاعت پیدا کرنے کے لیے تکلّف کرنے کا حکم

شرعاً یہ طے شدہ اصول ہے کہ بندہ وجوب کی شرائط کو حاصل کرنے کا مکلف نہیں، لہٰذا جس شخص کے پاس حج کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں، اس پر ان اخراجات کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا واجب نہیں ہے۔

اس پر اجماع بھی منقول ہے، اور امام ابن النجار الفتوحی نے اس پر صراحت کی ہے۔ وہ شرح الکوكب المنير (1/357، مکتبۃ العبيكان) میں فرماتے ہیں: (اور وہ چیز جس کے بغیر وجوب مکمل نہیں ہوتا)، چاہے مکلف اس پر قدرت رکھتا ہو جیسے حج اور کفاروں کے لیے مال کمانا، یا قدرت نہ رکھتا ہو جیسے جمعہ کے لیے امام کا حاضر ہونا یا اس میں مشروط تعداد کا حاضر ہونا، کیونکہ یہ دوسروں کے کرنے کا کام ہے، تو (یہ مطلقا واجب نہیں ہے)، اور اس پر اجماع منقول ہے۔”

البتہ اگر بندہ باوجود اس کے کہ اس پر حج واجب نہیں، حج کی استطاعت حاصل کرنے اور اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے کسی ذریعے سے حج کے اخراجات مہیا کرنے کی کوشش کرے، تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، اور اس صورت میں اس کا کیا ہوا حج حجۃ الاسلام یعنی فرض حج کے طور پر کافی ہو جائے گا، کیونکہ حج کا خطابِ تکلیف ہر بالغ و عاقل شخص کو شامل ہے، اور اس نے عبادت کو اس کے تمام ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کیا ہے، البتہ اس پر وجوب کی شرائط کو حاصل کرنا اس لیے لازم نہیں کیا گیا کہ شریعت نے تخفیف اور آسانی کا پہلو ملحوظ رکھا ہے۔جیسا کہ حاشیۃ الإمام ابن قاسم العَبّادی علی تحفۃ المحتاج (4/9، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ) میں بیان کیا گیا ہے۔

یہی وہ بات ہے جس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے اور ان کی تصریحات بھی اس پر موجود ہیں۔

امام سراج الدین ابن نجیم حنفی نے النہر الفائق (2/55-56، دار الکتب العلمیة) میں اس شخص کے بارے میں فرمایا جس میں حج کی بدنی استطاعت نہ ہو: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر وہ باوجود بدنی استطاعت نہ رکھنے کے حج کا اہتمام کر لیں تو ان سے حج ساقط ہو جائے گا، کیونکہ ان پر حج کا واجب نہ ہونا مشقت کی بنا پر ہے، پس جب انہوں نے مشقت برداشت کر لی تو وہ حجۃ الاسلام کے قائم مقام ہو جائے گا، جیسے فقیر اگر حج کر لے تو اس کا حج حجۃ الاسلام شمار ہوتا ہے۔

امام دردیر مالکی نے الشرح الصغیر (2/6، دار المعارف، مع حاشیۃ الإمام الصاوی) میں فرمایا: حج کے وجوب کی شرائط چار ہیں: آزادی، بلوغ، عقل اور استطاعت۔”

امام صاوی نے ان پر حاشیہ لکھتے ہوئے چوتھی شرط یعنی استطاعت کی وضاحت میں فرمایا: چوتھی شرط صرف وجوب کے لیے ہے، اسی لیے اگر کوئی استطاعت نہ رکھنے والا شخص باوجود استطاعت نہ ہونے کے حج کر لے تو اس سے فرضیت ساقط ہو جائے گی۔

شیخ الاسلام زکریا الانصاری شافعی نے فتح الوهاب (1/159، دار الفکر) میں فرمایا: (حج یا عمرہ کے) فرضِ اسلام ہونے کے لیے اسلام، تمییز، بلوغ اور آزادی شرط ہیں، خواہ ادا کرنے والا صاحبِ استطاعت نہ بھی ہو، اور میرا لفظ ‘فرضِ اسلام’ کہنا، ان کے لفظ ‘حجۃ الاسلام’ سے زیادہ عام ہے۔ پس اگر کوئی فقیر بھی حج کر لے تو اس سے وہ فرض ادا ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کی حالت (یعنی بلوغ، عقل، اسلام، آزادی) مکمل ہے۔”

امام ابن قدامہ حنبلی نے الکافی (1/464، دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: تیسری شرط صرف وجوب کے لیے ہے، اور وہ استطاعت ہے، پس اگر کوئی عاجز شخص تکلّف کر کے حج ادا کر لے تو اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور حج کے قائم مقام شمار ہوگا، کیونکہ اس پر حج کا ساقط ہونا صرف اس پر نرمی کی خاطر ہے، تو جب اس نے اس مشقت کو برداشت کر لیا تو وہ (حج) اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا۔”

مالی کمیٹی کا مفہوم اور اس کا حکم

مالی کمیٹی جسے سوال کرنے والے نے حج کے اخراجات جمع کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ چند افراد باہمی رضامندی سے طے کریں کہ ہر ایک شخص ایک مقررہ رقم باقاعدگی سے (اکثر اوقات ماہانہ) جمع کرائے گا، اور یہ سلسلہ ایک متعین مدت تک جاری رہے گا۔ اس مدت کے دوران ہر ماہ ایک شخص پوری جمع شدہ رقم حاصل کرے گا، پھر اگلے مہینے دوسرا، اور یوں ترتیب کے ساتھ ہر شریک ایک مرتبہ پوری کمیٹی کی رقم حاصل کر لے گا۔ بعض اوقات ضرورت مند کو دوسروں پر مقدم بھی کر دیا جاتا ہے، جیسے اس صورت میں کہ کوئی شریک حج پر جانے والا ہو اور اسے فوری رقم درکار ہو۔

یہ کمیٹی باہمی تعاون، ایک دوسرے کی مدد اور حسنِ قرض کے طور پر دی جانے والی رقم کی قسم سے ہے، جس کی قرآن مجید میں ترغیب دی گئی ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ ترجمہ: "اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔" (المائدۃ: 2)

امام قرطبی نے تفسیر قرطبی میں ابن خُوَیزِمَندَاد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ: نیکی اور تقویٰ پر تعاون مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے: عالم اپنے علم سے لوگوں کی مدد کرے اور انہیں تعلیم دے، مالدار اپنے مال سے مدد کرے، اور بہادر راہِ خدا میں اپنی بہادری سے مدد کرے” (تفسیر قرطبی 6/46)۔

اسی طرح یہ مالی کمیٹی بھی مباح امور میں سے ہے، اور بعض متاخر فقہاء نے اس کے جواز پر صراحت کی ہے۔ ان کے عرف میں اسے “الجمُعۃ” بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ وہ ہر جمعہ کو مال جمع کیا کرتے تھے۔

علامہ قلیوبی نے حاشیتہ علی شرح المحلی للمنہاج (2/321، دار الفکر) میں فرمایا: عورتوں کے درمیان معروف جو ‘جمعہ’ ہوتی ہے کہ ایک عورت، عورتوں کے ایک گروہ میں سے ہر ایک سے ہر جمعہ یا ہر مہینے ایک مقررہ رقم لیتی ہے اور ہر مرتبہ وہ رقم باری باری ایک ایک عورت کو دیتی ہے یہاں تک کہ سب کو مل جائے — یہ جائز ہے، جیسا کہ ولی عراقی نے فرمایا ہے۔”

حج کے اخراجات کے لیے لوگوں کے درمیان مالی کمیٹی بنانے کا حکم

افضل یہ ہے کہ حج کے لیے قرض لے کر جانا ترک کر دیا جائے، کیونکہ شریعت نے مالی طور پر غیر مستطیع (جو صاحبِ استطاعت نہ ہو) شخص کو قرض لینے اور اس کی ادائیگی کے بوجھ میں داخل ہونے کا مکلف نہیں ٹھہرایا، کیونکہ شرعاً استطاعت کو حاصل کرنا واجب نہیں، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)

اسی طرح شریعت نے انسان کو اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ وہ خود کو ایسی آزمائشوں اور ذمہ داریوں میں ڈالے جنہیں وہ برداشت نہ کر سکے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ»، قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ: «يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ» “کسی مؤمن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے” ۔ صحابہ نے عرض کیا: “وہ اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے؟” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “ایسے ابتلاء میں پڑ جائے جسے وہ برداشت نہ کر سکے” ۔ اسے امام احمد، ابن ماجہ، ترمذی اور بیہقی نے شعب الإيمان میں روایت کیا ہے۔

علامہ نور الدین سِندی نے حاشیہ سنن ابن ماجہ (2/488، دار الجیل) میں فرمایا: ''يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ'' کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ اپنے لیے بد دعا کرے، یا عام اسباب اختیار کرے جو بلاؤں کا باعث بنتے ہیں۔”

اور قرض بھی مصائب کے اسباب میں سے ہے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے: “اے اللہ! میں گناہوں اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔” تو کسی نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! آپ قرض سے بہت زیادہ پناہ مانگا کرتے ہیں! ”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “بیشک جب آدمی قرض میں مبتلا ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بول دیتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کر بیٹھتا ہے۔”
اسے بخاری و مسلم نے متفق علیہ روایت کیا ہے۔

اور مقروض شخص اس قرض اور ان شرعی حقوق کی وجہ سے گویا قیدی کی مانند ہوتا ہے جو اس کے ذمے ثابت ہو ، اور اسی وجہ سے وہ جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “تمہارا ساتھی اپنے قرض کی وجہ سے قید ہے”۔ اسے امام عبد الرزاق اور امام ابو داود نے روایت کیا ہے، اور امام احمد وغیرہ نے اس لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے: “تمہارا ساتھی اپنے قرض کی وجہ سے جنت میں جانے سے روکا ہوا ہے۔”

لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ جن لوگوں کی کفالت اور پرورش اس کے ذمے ہے، جیسے بیوی اور بچے، ان کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے، اور حج کے کے دوران ان کے گزر بسر کے لیے اتنا مال ضرور چھوڑ کر جائے جو ان کی ضروریات پوری کر سکے، کیونکہ ان کا نان ونفقہ اس پر شرعًا واجب ہے، اور واجب چیز غیر واجب پر مقدم ہوتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “آدمی کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت افراد کو ضائع کر دے۔” اسے امام احمد، ابو داود، نسائی، اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور امام مسلم نے اس مفہوم کو اس طرح روایت کیا ہے: “آدمی کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے ان کا کھانا روک لے۔”

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ امام ابو عبداللہ بن الحاج المالکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المدخل میں ان لوگوں کو خبردار کیا ہے جن کے پاس قرض ادا کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ قرض لے کر حج کرنے کی کوشش نہ کریں۔ وہ فرماتے ہیں کہ کسی مکلف شخص پر ایسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے حیلے یا تدبیریں کرنا لازم نہیں جو اس پر ابھی واجب ہی نہیں ہوئی، کیونکہ اصل میں انسان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اس کا ذمہ بری رہے، اور فی الحال اس کا ذمہ بری ہے، لہٰذا اسے کسی ایسے کام میں مشغول نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کے بری ہونے کا ابھی یقین نہ ہو۔ البتہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ وہ دل میں حج کی چاہت رکھے، اس کی نیت کرے اور اس کا شوق رکھے، کیونکہ مسلمان کا شیوہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کو پسند کرتا ہے، لیکن اس محبت کو شریعت کے حکم کی پابندی کے ساتھ مشروط رکھنا چاہیے۔ اور چونکہ شریعت نے اس پر یہ لازم نہیں کیا کہ وہ حج کو اپنے اوپر واجب کرنے کے لیے رقم جمع کرنے، تدبیریں کرنے یا اسباب فراہم کرنے میں لگ جائے، اس لیے ایسا کرنا ضروری نہیں، البتہ اگر حج اس پر شرعی شرائط کے ساتھ واجب ہو جائے تو پھر اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔

خلاصہ

اس بنا پر اور سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق: مذکورہ شخص پر شرعاً حج کے اخراجات کا بندوبست کرنے کی کوشش کرنا لازم نہیں، لیکن اگر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہمی اتفاق سے حج کے اخراجات کے لیے ’’کمیٹی‘‘ڈال لے اور اس میں پہلا حصہ خود لے لے، اور اسے یقین ہو کہ وہ اس کمیٹی کی قسطیں ادا کرنے اور اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ و زادِ راہ کا بندوبست بآسانی کر سکے گا، بغیر کسی مشقت اور اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھائے بغیر، تو یہ شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ یا حرج نہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas