کم از کم کتنے افراد سے جماعت قائم ہ...

Egypt's Dar Al-Ifta

کم از کم کتنے افراد سے جماعت قائم ہوتی ہے

Question

کتنے افراد کے ساتھ نماز کیلئے جماعت قائم ہو سکتی ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛
کم از کم جماعت قائم ہونے کے لیے دو افراد کی ضرورت ہوتی ہے، -امام کے علاوہ ایک فرد-۔ یہ اس حدیث کی بنیاد پر ہے جو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دو اور دو سے زیادہ افراد کو جماعت کہتے ہیں۔" اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ''مصنف'' میں، امام دارقطنی نے ''سنن'' میں، امام طبرانی نے ''المعجم الأوسط'' میں، اور امام حاکم  نے ''المستدرك'' میں روایت کیا ہے۔

تفاصیل۔۔۔

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مؤمنوں کے اتحاد و یکجہتی کا ایک نمایاں مظہر ہے۔ اس سے ان کی زبان و دل میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مددگار اور بھائی ہیں، جو اللہ کی مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی عملی صورت پیش کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ (آلِ عمران: 103)

اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ شیطان اور اس کے گروہ سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، اس لیے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوتی ہے''۔ اسے امام ابوداؤد، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

اور چونکہ با جماعت نماز کو مسلمان کی زندگی میں بے حد اہمیت حاصل ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے اس پر زور دیا، اس کی ترغیب دلائی اور اس کے قائم کرنے پر بڑا اجر مقرر فرمایا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:  ''جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز، اکیلے پڑھی گئی نماز پر ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے''۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور متفق علیہ ہے۔

کم از کم جماعت قائم ہونے کے لیے دو افراد کی ضرورت ہوتی ہے، -امام کے علاوہ ایک فرد-۔ یہ اس حدیث کی بنیاد پر ہے جو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دو اور دو سے زیادہ افراد کو جماعت کہتے ہیں۔" اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ''مصنف'' میں، امام دارقطنی نے ''سنن'' میں، امام طبرانی نے ''المعجم الأوسط'' میں، اور امام حاکم  نے ''المستدرك'' میں روایت کیا ہے۔

امام نووی اور امام ابن قدامہ دونوں نے اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔

 امام نووی رحمہ اللہ “شرح صحیح مسلم” میں فرماتے ہیں: “جماعت امام اور ایک مقتدی سے بھی صحیح ہوجاتی ہے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔”

اور امام مُوفَّق الدین ابن قدامہ نے “المغنی” میں فرمایا ہے: “دو افراد اور دو سے زیادہ افراد کے ساتھ جماعت قائم ہو جاتی ہے، اور ہماری معلومات کے مطابق اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔”

اور اسی سے سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔  

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas