شیئرز میں سرمایہ کاری کیے گئے مال پر زکات کے حساب کا طریقہ
Question
سٹاک ایکسچینج کے اندر شیئرز میں سرمایہ کاری لگاۓ گئے مال پر زکات کا حساب کس طرح کیا جائے؟
Answer
: الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ سٹاک ایکسچینج میں لگائے گئے شیئرز میں زکات واجب ہوتی ہے، اگر ان میں زکات کے وجوب کی شرائط پائی جائیں، یعنی نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر ایک ہجری سال گزر جائے۔ اگر یہ شیئرز کسی تجارتی کمپنی کے ہوں، یا غیر تجارتی کمپنی کے ہوں لیکن خریدار نے انہیں قیمت بڑھنے کے انتظار میں بیچنے کے لیے خریدا ہو ، تو ایسی صورت میں ان پر "عروضِ تجارت" کی زکات واجب ہوگی۔ اس کے لیے سال کے آخر میں ان کی مارکیٹ ویلیو کا حساب کیا جائے، اگر منافع حاصل ہوا ہو تو اسے بھی شامل کیا جائے، اور اگر کچھ قرضے ہوں تو وہ منہا کیے جائیں، پھر کل رقم کا چالیسواں حصہ (یعنی 2.5٪) زکات کے طور پر ادا کیا جائے۔ اور اگر شیئرز تجارتی نوعیت کے نہ ہوں، بلکہ خدمتی، پیداواری یا صنعتی کمپنیوں کے شیئرز ہوں، اور مالک نے انہیں تجارت کے لیے نہ خریدا ہو، تو ایسی صورت میں ان شیئرز کی اصل قیمت پر زکات واجب نہیں ہوتی۔ البتہ ان سے حاصل ہونے والے منافع پر چالیسواں حصہ (یعنی 2.5٪) کے حساب سے زکات واجب ہے ، بشرطیکہ منافع نصاب تک پہنچ جائے اور وصول ہونے کے دن سے ایک ہجری سال گزر جائے۔
تفاصیل:
اسلام میں زکات کی اہمیت
زکات دین کا تیسرا رکن اور سب سے عظیم مالی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے نماز کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، جو اس کی عظمت اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ ترجمہ: "اور نماز قائم کرو، زکات ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو" (البقرہ: 43)۔ زکات کے ذریعے فرد اپنے معاشرتی فریضے کو ادا کرتا ہے، جس سے معاشرے میں باہمی تعاون، ہمدردی اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے وہ حقیقت سامنے آتی ہے جسے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ: "تم مؤمنوں کو آپس کی محبت، ہمدردی اور شفقت میں ایک جسم کی مانند پاؤ گے، کہ جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار کے ساتھ اس کا احساس کرتا ہے۔" (بخاری)
شیئرز میں تجارت سے مراد:
سرمایہ حاصل کرنے کے اسباب مختلف ہوتے ہیں اور ہر دور اور ہر ملک میں سرمائے کی شکلیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ ہمارے زمانے میں سرمائے کی ایک نئی قسم وجود میں آئی ہے جسے ’’شیئرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صنعتی اور تجارتی ترقی کا نتیجہ ہے۔ جب کمپنیاں اپنے منصوبوں اور سرمایہ کاری کے لیے فنڈ جمع کرنا چاہتی ہیں تو وہ مخصوص کاغذات (صکوک) جاری کرتی ہیں، جن کی ایک مقررہ مالیت ہوتی ہے۔ یہ صکوک کبھی شیئرز ہوتے ہیں اور کبھی بانڈز۔
پس شیئرز دراصل وہ سند اور دستاویز ہیں جو کمپنی جاری کرتی ہے، اور یہ سند شیئر ہولڈر کے حق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس حق کی بنیاد پر شیئر ہولڈر کمپنی کے منافع میں اپنے حصے کا مستحق ہوتا ہے، اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوتا ہے، اور جب کمپنی ختم یا تحلیل کی جائے تو اس کے اموال کی تقسیم میں بھی حصہ دار کو اس کے حصے کے مطابق حصہ ملتا ہے۔ سرمایے کی کمپنی (یعنی کمپنی آف کیپیٹل) میں حصے دار کا یہ حصہ، شراکتِ اشخاص (پارٹنرشپ) میں شریک کے حصے کے مترادف ہوتا ہے۔ (مأخوذ از: الشركات التجارية في القانون المصري از ڈاکٹر محمود سمیر الشرقاوي، ص 167، طبع: دار النهضة)۔
یہ شیئرز دراصل " پبلک لمیٹڈ کمپنیوں " اور "لمیٹد پاٹنرشپ میں سرمائے کے مساوی حصوں میں سے ایک حصہ ہوتے ہیں۔ ہر حصہ کمپنی کے منافع میں ایک مقررہ حصہ پیدا کرتا ہے، اور شیئر ہولڈر کمپنی اپنی ملکیت میں موجود شیئرز کی قدر کے مطابق کمپنی میں حصے کا مالک ہوتا ہے ہر حصے کی ایک اسمی (Nominal) قیمت ہوتی ہے جو کمپنی سے اس کے اجرا کے وقت مقرر کی جاتی ہے، اور ایک بازاری (Market) قیمت ہوتی ہے جو طلب و رسد کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ اس لئے یہ شیئرز خرید و فروخت کے قابل ہوتے ہیں اور تجارت و منافع کمانے کا ایک ذریعہ شمار ہوتے ہیں۔
شیئرزکی تجارت کا فقہی تعین (تکییف):
اگر ان کمپنیوں کی حقیقت پر غور کیا جائے جو شیئرز جاری کرتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے اعتبار سے قدیم فقہی کتب میں مذکور کمپنیوں سے زیادہ مختلف نہیں، کیونکہ ان سب کا بنیادی مقصد نفع حاصل کرنا اور تجارت کرنا ہی ہوتا ہے۔ شیئرز دراصل کمپنی کے سرمایے میں ایک معلوم اور مشترک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں، اور یہ حصہ نقدی، مالِ تجارت، مشینوں یا خدمات کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے، خواہ یہ سب چیزیں جمع ہوں یا الگ الگ، یہ کمپنی کے کام کے نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
پس حقیقت میں شیئر مال ہی ہوتا ہے، اور اس کا حکم کمپنی کی اُن جائیدادوں کے مطابق ہوتا ہے جن کی وہ نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لیے اس میں لین دین جائز ہے، جب تک کہ وہ کسی حرام سرگرمی پر مشتمل نہ ہو۔ اس کی بنیاد یہ اصول ہے کہ عقود اور معاملات میں اصل حکم صحت اور جواز کا ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی شرعی ممانعت پائی جائے۔ یہی اصول چاروں فقہی مذاہب نے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح القدير از امام کمال ابن الہمام (7/3، ط. دار الفكر)، حاشية العدوي مع شرح مختصر خليل از امام الخرشي (6/42، ط. دار الفكر)، كفاية النبيه في شرح التنبيه از ابن الرفعة (9/311، ط. دار الكتب العلمية)، اور الإنصاف از امام المرداوي (6/31، ط. دار إحياء التراث)۔
شیئرز کی زکات کا حکم اور اس کا طریقہ
جس کمپنی میں شیئرز رکھے گئے ہوں وہ یا تو خالص تجارتی نوعیت کی ہوتی ہے، جس کی سرگرمی صرف خرید و فروخت کے ذریعے منافع حاصل کرنا ہوتی ہے، یا پھر وہ پیداواری، صنعتی یا خدمتی نوعیت کی ہوتی ہے، جس میں نفع پیداوار، صنعت یا خدمات کی فراہمی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، نہ کہ صرف خرید و فروخت سے۔
جہاں تک اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے شیئرز کی زکات کا تعلق ہے تو اس میں دو باتوں کو دیکھا جاتا ہے: کمپنی کی نوعیت اور شیئر ہولڈر (سرمایہ کار) کا مقصد۔ اگر کمپنی خالص تجارتی نوعیت کی ہو، یا غیر تجارتی ہو مگر حصے دار نے شیئرز اس نیت سے خریدے ہوں کہ قیمت بڑھنے پر انہیں فروخت کر کے منافع حاصل کرے، تو ایسی صورت میں ان پر "سامانِ تجارت" کی زکات واجب ہوگی، کیونکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مال کو معاوضے کے ذریعے گھمانے اور منافع حاصل کرنے کا عمل ہے۔
علامہ ابو محمد بن شاس المالکی نے "عقد الجواهر الثمينة" (3/901، طبع: دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا: "تجارت وہ ہے جو خرید و فروخت کے ذریعے نفع حاصل کرنے کے لیے کی جائے، نہ کہ ہنر یا صنعت کے ذریعے۔"
امام نووی نے "المجموع" (6/48، طبع: دار الفكر) میں بیان کیا: "ہمارے علما کے نزدیک، تجارتی مال وہ ہے جسے خریدتے وقت خالصتاً خرید و فروخت کے مقصد کے لیے حاصل کیا جائے۔"
علامہ حجاوی حنفی نے "الإقناع" (1/275، طبع: دار المعرفة) میں عروضِ تجارت کی تعریف یوں کی: "وہ چیزیں جو فروخت و خرید کے لیے تیار کی جاتی ہیں، منافع کے مقصد کے لیے، اور عموماً نقدی (پیسے) نہیں ہوتیں۔''
اور وہ قول جو زیادہ تر مسلم فقہاء نے اختیار کیا ہے—اور جس پر اجماع بھی بیان کیا گیا ہے—یہ ہے کہ تجارت کے لیے تیار کیے گئے مال پر زکات واجب ہے۔ اجماع سے پہلے اس کی اصل قرآن کریم کا یہ فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾ ترجمہ:"اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو" (البقرہ: 267)۔ امام البغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزيل (1/364، طبع: إحياء التراث) میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور مجاہد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو کچھ تم کماؤ، وہ حلال ہے، خواہ تجارت کے ذریعے ہو یا صنعت کے ذریعے۔ اور حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم دیتے تھے کہ ہم ان چیزوں میں سے زکاۃ نکالیں جنہیں ہم بیچنے کے لیے رکھتے تھے۔ یہ روایتیں ابو داود اور بیہقی نے بیان کی ہیں۔
امام ابن المنذر نے "الإجماع" (ص: 48، طبع: دار المسلم) میں فرمایا: "فقہاء عظام کا اجماع ہے کہ جو مال تجارت کے لیے تیار کیا گیا ہو اس پر زکات واجب ہے، بشرطیکہ اس پر قمری سال گزر جائے"۔
تجارتی شیئرز کی زکات کا طریقہ یہ ہے کہ سال کے اختتام پر، یعنی جب زکات واجب ہو، شیئرز کی بازاری قیمت (Market Value) کا حساب کیا جائے، اور اگر کوئی منافع ہوا ہو تو اسے بھی شامل کیا جائے، اور اگر کچھ قرضے ہوں تو وہ منہا کیے جائیں۔ اس کے بعد اگر مال نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر چالیسواں حصہ (2.5٪) زکات کے طور پر ادا کیا جائے۔ اگر مال نصاب سے کم ہو تو اس پر زکات واجب نہیں ہے۔
اور غیر تجارتی شیئرز، جیسے خدمتی، پیداواری یا صنعتی شیئرز، جن میں نفع پیداوار، صنعت یا خدمات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے نہ کہ صرف خرید و فروخت سے، ان پر سرمایہ کار اس نیت سے خریداری نہیں کرتا کہ قیمت بڑھنے پر فروخت کرے گا۔ بلکہ وہ انہیں خریدتا اور رکھتا ہے تاکہ ان سے حاصل ہونے والے منافع سے فائدہ اٹھائے، اور اصل سرمایہ بغیر تجارت میں گھمائے برقرار رہے۔ یہ ایسے اثاثے ہیں جن سے فائدہ مستقل طور پر حاصل ہوتا ہے جبکہ اصل برقرار رہتا ہے، اور یہ شیئرز تجارت کے لیے نہیں بلکہ نمو اور بڑھوتری کے لیے ہوتے ہیں۔ ان سے مالکان کو فائدہ اور نفع حاصل ہوتا ہے، اصل چیز کو کرائے پر دے کر یا اس کی پیداوار بیچ کر۔
علامہ ابن منظور نے "لسان العرب" (11/504، طبع: دار صادر) میں فرمایا: "غَلَّة کا مطلب ہے آمدنی، جیسے مکان کے کرائے، غلام کی مزدوری، یا زمین کی پیداوار۔۔۔ اور ‘استَغَلّ’ کا مطلب ہے کسی کو یہ ذمہ داری دینا کہ وہ اس کیلئے غَلّہ حاصل کرے۔ ‘استغلال المستغلات’ سے مراد یہ ہے کہ اس سے حاصل شدہ غَلّہ لینا۔ اگر کوئی زمین پیداوار دے تو کہا جاتا ہے کہ ‘أغَلَّت الضيعة’ یعنی زمین نے غَلّہ دیا، اور اسے ‘مُغِلَّة’ کہتے ہیں اگر یہ کسی چیز کا منافع دے جبکہ اصل برقرار رہے۔"
اور جس پر فتویٰ ہے، اور جو زیادہ فقہاء کا قول ہے، وہ یہ ہے کہ مستغلات (ایسے اثاثے جن سے مستقل فائدہ حاصل ہوتا ہے جیسے کرایہ کی زمین یا مکان) کی اصل پر زکات واجب نہیں ہوتی، بلکہ صرف اس سے حاصل ہونے والے منافع یا غَلّہ پر زکات واجب ہے، بشرطیکہ وہ منافع نصاب کو پہنچے اور اس پر ایک قمری سال گزر جائے۔
امام ابن نجیم الحنفی نے "البحر الرائق" (2/219، طبع: دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: "اگر کوئی شخص اپنے غلام یا مکان کو نصاب کے برابر کرائے پر دے، اور وہ تجارت کے لیے نہ ہوں، تو ان (اصل چیزوں) پر زکات واجب نہیں ہوتی؛ البتہ کرایہ (آمدنی) وصول ہونے کے بعد جب ایک سال گزر جائے تو پھر زکات واجب ہوگی۔
امام ابن أبي زید القیروانی المالکی نے "النَّوادر والزِّيادات" (2/127، طبع: دار الغرب) میں فرمایا:
"اور اگر کسی نے مکان رہائش کے لیے کرائے پر لیا تھا، پھر کسی ضرورت یا زیادہ رغبت کی وجہ سے اسے آگے کرائے پر دے دیا، تو اس کی حاصل شدہ آمدنی پر زکات واجب نہیں ہوگی، چاہے وہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، الا یہ کہ وہ آمدنی وصول ہونے کے دن سے ایک سال پورا ہو جائے۔"
امام المزنی الشافعی نے "مختصره" (8/148، طبع: دار المعرفة) میں بیان کیا: "شافعی فرماتے ہیں: اگر کوئی مکان چار سال کے لیے سو دینار میں کرایہ پر دیا جائے، تو کرایہ فوراً واجب ہوگا، بشرطیکہ کوئی مدت معین نہ رکھی گئی ہو۔ ایک سال گزرنے کے بعد اس پر زکات ادا کی جائے، یعنی پچیس دینار۔۔۔ اور اگر کرایہ وصول کرنے کے بعد مکان ٹوٹ جائے یا تباہ ہو جائے، تو کرایہ ختم ہو جائے گا اور زکات صرف اسی رقم پر واجب ہوگی جو وصول کر لی گئی ہو۔"
امام ابن قدامة نے "المغني" (3/57، طبع: مكتبة القاهرة) میں فرمایا: "اگر کسی نے اپنے مکان کو کرایہ پر دیا اور کرایہ وصول کر لیا، تو اس پر زکات واجب نہیں جب تک کہ ایک قمری سال اس پر نہ گزر جائے۔"
علامہ شوکانی نے "الدراری المضية شرح الدرر البهية" (2/160، طبع: دار الكتب العلمية) میں بیان کیا: "جہاں تک مستغلات کی بات ہے، جیسے مکان جو مالک کرایہ پر دیتا ہے، یا جانور وغیرہ، ان پر زکات واجب نہیں کیونکہ اس ان پر زکات واجب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں، اور مزید یہ کہ حدیث: 'مسلمان پر اپنے غلام یا گھوڑے پر صدقہ واجب نہیں' اس حالت پر بھی دلالت کرتی ہے، یعنی انہیں کرائے پر دے کر حاصل کی جانے والی آمدنی کی حالت میں بھی یہی حکم ہے۔ اگرچہ اس حدیث سے استدلال کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ عدمِ وجوب (زکات کے نہ ہونے) کا اصل حکم ہی کافی ہے۔"
لہٰذا، غیر تجارتی شیئرز پر زکات کا اطلاق یہ ہے کہ اصل شیئرز کی قیمت پر زکات واجب نہیں، بلکہ صرف اس سے حاصل ہونے والے منافع پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ منافع نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک قمری سال گزر جائے۔
یہی اصول مجمع الفقہ الإسلامي الدولي (بین الاقوامی اسلامی فقہی اکیڈمی)نے اپنی چوتھی کانفرنس میں جدہ، سعودی عرب (18-23 جمادى الآخرة 1408ھ، بمطابق 6-11 فروری 1988ء) میں اپنایا، جہاں فیصلہ کیا گیا کہ اگر کسی نے شیئرز میں سرمایہ کاری اس مقصد سے کی ہو کہ سالانہ منافع حاصل کرے، نہ کہ تجارت کے لیے، تو ایسے شیئرز پر زکات "مستغلات" کی زکات کے طور پر واجب ہوگی(یعنی صرف آمدنی پر)۔ اور یہ اصول اس سے مطابقت رکھتا ہے جو مجمع نے اپنی دوسری کانفرنس میں غیر زرعی کرایہ دار جائیدادوں اور زمینوں کی زکات کے بارے میں طے کیا تھا، یعنی مالک پر اصل شیئرز میں زکات واجب نہیں۔ اور زکات صرفاس سے حاصل ہونے والے منافع پر واجب ہو گی،جو کہ وصول ہونے کے دن سے ایک ہجری سال گزرنے کے بعد چوتھائی عشر (2.5%) بنتی ہے، بشرطیکہ زکات کی تمام شرائط موجود ہوں اور کوئی مانع موجود نہ ہو۔
اگر شیئرز اس نیت سے خریدے گئے ہوں کہ ان میں تجارت کرے گا، تو ایسی صورت میں ان پر "عروضِ تجارت" کی زکات واجب ہوگی۔ جب ایک ہجری سال گزر جائے اور شیئر اس کے پاس ہوں، تو مارکیٹ قیمت کے حساب سے زکات دی جائے گی۔ اگر مارکیٹ قیمت معلوم نہ ہو، تو ماہرین کی رائے سے قیمت طے کر کے 2.5٪ زکات نکالی جائے، اور اگر شیئرز سے منافع بھی ہوا ہو تو اس پر بھی یہی شرح لاگو ہوگی۔
خلاصہ
اس بنیاد پر اور سوال کے واقعے کے لحاظ سے: سٹاک ایکسچینج میں لگائے گئے شیئرز میں زکات واجب ہوتی ہے، اگر ان میں زکات کے وجوب کی شرائط پائی جائیں، یعنی نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر ایک ہجری سال گزر جائے۔ اگر یہ شیئرز کسی تجارتی کمپنی کے ہوں، یا غیر تجارتی کمپنی کے ہوں لیکن خریدار نے انہیں قیمت بڑھنے کے انتظار میں بیچنے کے لیے خریدا ہو ، تو ایسی صورت میں ان پر "عروضِ تجارت" کی زکات واجب ہوگی۔ اس کے لیے سال کے آخر میں ان کی مارکیٹ ویلیو کا حساب کیا جائے، اگر منافع حاصل ہوا ہو تو اسے بھی شامل کیا جائے، اور اگر کچھ قرضے ہوں تو وہ منہا کیے جائیں، پھر کل رقم کا چالیسواں حصہ (یعنی 2.5٪) زکات کے طور پر ادا کیا جائے۔ اور اگر شیئرز تجارتی نوعیت کے نہ ہوں، بلکہ خدمتی، پیداواری یا صنعتی کمپنیوں کے شیئرز ہوں، اور مالک نے انہیں تجارت کے لیے نہ خریدا ہو، تو ایسی صورت میں ان شیئرز کی اصل قیمت پر زکات واجب نہیں ہوتی۔ البتہ ان سے حاصل ہونے والے منافع پر چالیسواں حصہ (یعنی 2.5٪) کے حساب سے زکات واجب ہے ، بشرطیکہ منافع نصاب تک پہنچ جائے اور وصول ہونے کے دن سے ایک ہجری سال گزر جائے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
