طلاق یافتہ عورت کی عدت کے ختم ہونے ...

Egypt's Dar Al-Ifta

طلاق یافتہ عورت کی عدت کے ختم ہونے کا وقت

Question


طلاق یافتہ عورت کی عدت کب ختم ہوتی ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ اگر طلاق یافتہ عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ اور اگر حاملہ نہ ہو: تو اگر اسے حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض کے مکمل ہونے پر ختم ہوگی، جو کہ طلاق کی تاریخ سے کم از کم ساٹھ دن کی مدت میں پوری ہونی چاہیے۔ حنفی فقہ میں قُرء سے مراد حیض ہی ہے۔اور اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت طلاق کے بعد تین قمری مہینے گزارنے سے مکمل ہو جاتی ہے۔

طلاق یافتہ عورت کی عدت کے احکام کی اصل قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے یہ فرمین ہیں: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ترجمہ: '' طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں'' [البقرہ: 228]، اور فرمایا: ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ ترجمہ: '' تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں ۔ [الطلاق: 4]۔

امام سرخسی نے "المبسوط" میں فرمایا کہ حاملہ عورت کی عدت اس کے حمل کے وضع کرنے سے ختم ہوجاتی ہے، چاہے وہ طلاق کے ایک ہی دن بعد بچے کو جنم دے دے؛کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ یعنی: اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں ۔ ﴾ [الطلاق: 4]۔ اور اس لیے بھی کہ حمل کا وضع ہونا ہی اصل مقصود یعنی رحم کے خالی ہونے کے بارے میں یقینی علم حاصل ہونے کی زیادہ واضح دلیل ہے۔ اور جو عورت یائسہ ہو چکی ہو (یعنی جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو) اس کی عدت نصِ شرعی کے مطابق تین مہینے ہے۔

مزید یہ کہ مصری قانونِ احوالِ شخصیہ نمبر 1 سنہ 2000 کی دفعہ 3 کے مطابق عدالت کے فیصلے احوالِ شخصیہ اور وقف کے موجودہ قوانین کے مطابق ہوں گے۔اور جن مسائل میں ان قوانین میں کوئی نص موجود نہ ہو اُن میں امام ابو حنیفہ کے مذہب کے راجح اقوال پر عمل کیا جائے گا۔ نیز ایسے مصری غیر مسلم افراد جن کا مذہب اور فرقہ ایک ہو اور جن کے پاس 31 دسمبر 1955ء تک منظم مذہبی عدالتی ادارے موجود تھے، ان کے باہمی احوالِ شخصیہ سے متعلق تنازعات کے فیصلے ان کی اپنی شریعت کے مطابق کیے جائیں گے، بشرطیکہ وہ ملکی نظامِ عامہ کے خلاف نہ ہوں۔

اور مصری سپریم کورٹ کے فیصلوں میں یہ درج ہے: [حنفی فقہ کے مطابق، عدت کی کم از کم مدت حیض رکھنے والی عورت کے لیے ساٹھ دن ہے، پس اگر اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی عدت مکمل ہو گئی ہے تو اسے اس کے قول پر، حلف کے بعد، عمل کیا جائے گا] (اپیل نمبر 326، سال 63 ق، احوالِ شخصیہ)۔ اور مذکورہ وضاحت سے سوال کا جواب معلوم ہو جاتا ہے۔

 

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas