جس عورت کا شوہر فوت ہو جاۓاس کی عد...

Egypt's Dar Al-Ifta

جس عورت کا شوہر فوت ہو جاۓاس کی عدّت

Question


جس عورت کا شوہر فوت ہو جاۓ (بیوہ) تو اس کی عدّت کتنی ہوتی ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛
جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے، اگر وہ حاملہ نہ ہو تو اس کی عدّت چار مہینے اور دس دن ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ عورت کے ساتھ دخول ہوا تھا یا نہیں، وہ کم عمر ہے یا بڑی عمر کی ہے، اسے حیض آتا ہے یا نہیں آتا، اس حکم میں سب برابر ہیں۔ کیونکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے اس عام فرمان میں داخل ہیں: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ ترجمہ: “اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں” (البقرہ: 234)۔

امام قرطبی نے اپنی تفسیر (ج 3، ص 183، دار الکتب المصریة) میں آیتِ کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ [البقرہ: 234] کی تفسیر میں فرمایا کہ شوہر کی وفات کی عدّت آزاد عورت، لونڈی، کم عمر والی، بڑی عمر والی، وہ عورت جسے ابھی حیض نہ آیا ہو، جسے حیض آتا ہو، جس کا حیض رک چکا ہو (یائسہ)، اور غیر مسلم کتابیہ عورت—ان سب پر لازم ہے، خواہ اس سے دخول ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، جب وہ حاملہ نہ ہو تو سوائے لونڈی کے ان سب کی عدّت چار مہینے اور دس دن ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ میں عموم ہے۔

امام ابن قدامہ نے "المغنی" (ج 8، ص 115، مکتبہ القاہرہ) میں فرمایا کہ اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمان آزاد عورت، جو حاملہ نہ ہو، اس کے شوہر کی وفات کی عدّت چار مہینے اور دس دن ہے، چاہے اس سے دخول ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اور چاہے وہ بالغ بڑی عمر کی ہو یا ابھی چھوٹی نابالغ ہو۔

اور اگر عورت حاملہ ہو تو جمہور فقہاء اور صحابہ کرام کا قول یہ ہے کہ اس کی عدّت بچے کی پیدائش تک ہوتی ہے۔ البتہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت میں اس کے خلاف منقول ہے کہ حاملہ کی عدّت دونوں میں سے طویل مدت کے مطابق ہوگی، یعنی یا تو بچہ پیدا ہونا، یا وفات کی عدّت (چار ماہ دس دن) — جو بھی مدت طویل ہو، وہی عدّت شمار کی جائے گی۔

امام سرخسی نے المبسوط (6/31) میں فرمایا: بیوہ عورت اگر حاملہ ہو تو ہمارے نزدیک اس کی عدّت بچے کی پیدائش ہے، اور یہی سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول یہ تھا کہ وہ دونوں میں سے زیادہ مدت پر عدّت گزارے گی، چاہے وہ بچے کی پیدائش ہو یا چار مہینے اور دس دن؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حاملہ کی عدّت بچے کی پیدائش ہے، اور دوسری آیت: ﴿يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ چار ماہ دس دن کی عدّت لازم کرتی ہے، لہٰذا احتیاط کے طور پر دونوں کو جمع کیا جائے۔

امام ابن قدامہ نے المغنی (8/117-118) میں فرمایا: تمام زمانوں کے اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ حاملہ مطلّقہ کی عدّت حمل کے وضع ہونے سے ختم ہوجاتی ہے، اور اسی طرح ہر وہ عورت جس کی جدائی (طلاق کے علاوہ) زندگی میں ہوئی ہو، اس کی عدّت بھی وضعِ حمل سے ہی ختم ہوتی ہے۔ اسی طرح اس بات پر بھی سب کا اجماع ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدّت بچے کی پیدائش ہے، سوائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی — ایک منقطع سند کے ساتھ — یہ روایت ہے کہ وہ دونوں میں سے طویل مدت والی عدّت گزارے گی۔

جمہور فقہاء کی علت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان “اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا بچہ جن دینا ہے” (سورۂ طلاق: 4) سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حاملہ کی عدت حمل وضع کرنا ہی ہے، اور اس میں طلاق یافتہ اور شوہر کے انتقال والی دونوں کا ایک ہی حکم ہے، یعنی دونوں کی عدت بچے کی پیدائش تک ہوتی ہے۔ اور اسی سے سوال کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas