عجائب گھر بنانےاور ان میں مجسمے رکھنے اور ان سے علمی استفادہ کرنے کا حکم
Question
عجائب گھر بنانااور ان میں مجسمے رکھنا اور ان سے علمی استفادہ کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ جو ممالک تہذیب اور تاریخ کے حامل ہیں ان میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے قدیمی آثار اور مجسموں کو دکھانے کے لیے عجائب گھر بناتے ہیں جو ان قوموں کی ثقافت اور تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں اور نئی نسل کو تعلیم دیتے ہیں۔ ۔ کیا یہ کام اسلام کی تعلیمات کے ساتھ متصادم ہے جو تماثیل قائم کرنے سے منع کرتی ہیں؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ کوئی مانع نہیں کہ ایسے عجائب گھر بناۓ جائیں جو تہذیب اور تاریخ کی عکاسی کرتے ہوں، اور تعلیم اور ثقافت کے ذرائع کے طور پر کام آتے ہوں۔ مجسمے بنانے یا قائم کرنے کی جو شرعی ممانعت ہے، وہ صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص ہے جب ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت کرنا ہو یا اُنہیں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کے لیے بنایا جائے،جو ان عجائب گھر کے قیام کے مقاصد سے بالکل مختلف ہے۔ نیز، ان عجائب گھر میں تماثیل اور مجسم تصویری خاکے دکھانا تاریخی نمائش کے لیے جائز ہے، اور وہاں جانا، دیکھنا، عبرت حاصل کرنا، سبق سیکھنا اور سابقین کے آثار، علوم اور تہذیب سے استفادہ کرنا بھی جائز ہے۔
تفاصیل:
باہمی تعارف مخلوق میں اللہ کی مقرر کردہ فطری سنتوں میں سے ایک ہے
اللہ کی مخلوق میں اس کی سنت یہ ہے کہ اس نے لوگوں کو قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا اور ان کے درمیان عادات، رواج، ماحول اور علوم میں اختلاف قائم کیا تاکہ وہ ایک دوسرے کو جانیں اور آپس میں تکمیل پائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک درخت کی شاخیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾ترجمہ: : ''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو''۔[الحجرات: 13]
امام ابن عجیبہ نے ''البحر المديد'' (5/435) میں فرماتے ہیں کہ "الشعوب" بڑے قبائل کے سرداروں کو کہا جاتا ہے، اور انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کہ وہ درخت کی شاخوں کی طرح مختلف شاخوں میں تقسیم ہوتے ہیں، جبکہ "القبائل" مرتبے میں الشعوب سے درجے میں کم ہوتے ہیں۔
اور علامہ شیخ محمد الطاہر بن عاشور نے "التحرير والتنوير" (26/ 259-260، ط. الدار التونسية) میں فرمایا: [اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قوموں اور قبائل میں اس لیے تقسیم کیا کہ لوگوں کا ایک دوسرے کو جاننا ممکن ہو، یعنی وہ ایک دوسرے سے واقف ہوں۔ یہ تعارف ایک درجے سے دوسرے درجے تک بڑھتا ہوا اوپر تک پہنچتا ہے… اس طرح یہ تعارف پوری امت یا تمام انسانوں تک پھیلتا ہے، اور اسی حکیمانہ قانون کے ذریعے ہی انسانوں میں مشابہت رکھنے والی تہذیبیں پھیلی ہیں]۔
تماثیل بنانے کا حکم اور فقہاء کے اقوال
"تماثیل" تمثال کی جمع ہے، اور تمثال اس چیز کو کہتے ہیں جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی مخلوق کی مشابہت پر بنائی جائے، جیسا کہ ابن منظور نے لسان العرب (جلد 11، صفحہ 613، طبع: دار صادر) میں بیان کیا ہے۔
اور اصل حکم یہ ہے کہ مجسموں (تماثیل) کی تیاری اور ان کو کھڑا کرنا سنتِ نبوی میں متعدد احادیث کے ذریعے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے: ابو الہیّاج الاسدی کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "کیا میں تمہیں اسی کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا تھا؟ یہ کہ کسی بھی مجسمے کو نہ چھوڑنا مگر اسے مٹادینا، اور کسی بھی اونچے قبر کو نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کر دینا۔"
اور امام بخاری نے سعید بن ابو الحسن سے روایت کیا ہے کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اور کہا کہ اے ابوعباس! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے اور میں یہ مورتیں بناتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر فرمایا کہ میں تمہیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا (یہ سن کر) اس شخص کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ افسوس! اگر تم مورتیں بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہیں ہے مورتیں بنا سکتے ہو۔
البتہ تماثیل بنانے کے حرمت اور منع کی نصوص مخصوص حالت کے احوال بیان کرتی ہیں اور اس میں واضح علتیں بھی مذکور ہیں۔ اسی لیے بعض فقہاء نے کہا کہ یہ حرمت ان خاص علتوں اور حالات تک محدود ہے، یعنی وہ تمثال جس کی شکل مکمل اور زندہ مخلوق کی مانند ہو، اس کی ممانعت ہے، لیکن جو تمثال غیر زندہ چیز کی ہو یا جزوی ہو، اسے جائز قرار دیا گیا۔ اس کی بنیاد حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تو فرمایا کہ میں کل رات آپ ﷺ کے پاس آیا تھا، لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں ہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں تو آپ ﷺ حکم دیں کہ گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں۔'' یہ روایت امام ابو داود اور امام ترمذی نے نقل کی ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت، جو موقوفاً اور امام بیہقی اور دیگر نے نقل کی ہے، یہ ہے: "تصویر (یا مجسمہ) کی اصل اس کا سر ہوتا ہے، پس جب سر کاٹ دیا جائے تو وہ تصویر نہیں رہتی۔"
یہ نصوص اس ممانعت کے عام حکم کو مخصوص کرتی ہیں جو تمثال بنانے اور قائم کرنے کے منع کے بارے میں آیا ہے، اسی طرح فقہاء نے بیان کیا ہے:
امام ابن عابدین نے "رد المحتار" (1/649، دار الفكر) میں فرمایا: (مصنف کے قول: یا کوئی ایسا مجسّمہ جس کا کوئی عضو مٹا ہوا ہو… الخ) یہ تخصیص کے بعد عموم ہے۔ اور کیا اسی حکم میں وہ صورت بھی آئے گی جب مجسّمہ کے پیٹ میں سوراخ ہو؟ ظاہر یہ ہے کہ اگر سوراخ اتنا بڑا ہو کہ اس سے نقص واضح ہو تو ہاں، ورنہ نہیں… (مصنف کے قول: کیونکہ ایسی چیزوں کی عبادت نہیں کی جاتی) یعنی یہی مذکورہ اقسام، اور ایسی صورت میں مشابہت بھی لازم نہیں آتی۔''
امام ابن قدامہ نے "المغنی" (7/216، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: اگر تصویر کی ابتدا ہی اس طرح ہو کہ جسم ہو مگر سر نہ ہو، یا سر ہو مگر جسم نہ ہو، یا اس کا سر تو بنایا جائے لیکن باقی جسم کسی غیر حیوان کی شکل میں ہو، تو یہ (حدیث کے حکمِ منع) میں داخل نہیں؛ کیونکہ یہ مکمل حیوان کی تصویر نہیں ہوتی۔''
بلکہ بعض فقہاء، جن میں شیخ امام محمد عبده بھی شامل ہیں، نے کہا کہ ان میں شرعی ممانعت صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص ہے جب ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت کرنا ہو یا اللہ کے سوا انہیں عبادت کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کے نزدیک اس مسئلے میں جو علت بیان کی گئی ہے وہ صرف اس کے ساتھ حکم کو مخصوص کرتی ہے اور پچھلی نصوص یا اس معنی کی دیگر نصوص کو باطل نہیں کرتی؛ کیونکہ نص سے ایسا معنی مستنبط کیا جا سکتا ہے جو اسے مخصوص کرے، لیکن نص سے ایسا معنی مستنبط نہیں کیا جا سکتا جو اسے باطل کر دے، جیسا کہ تاج الدین سبکی کی "الأشباه والنظائر" اور شیخ الاسلام زکریا الأنصاری کی "غاية الوصول في شرح لُب الأصول" میں بیان ہوا ہے۔
شیخ الامام محمد عبده رحمہ اللہ نے، جیسا کہ شیخ رشید رضا نے "مجلة المنار" (20/270) میں نقل کیا ہے، کہا کہ تصویروں اور تماثیل سے متعلق نصوص میں وعید (سزا کی دھمکی) خاص اُس زمانے کے لوگوں کے لیے تھی؛ کیونکہ وہ زمانہ بت پرستی کے قریب تھا، لیکن آج کے زمانے کے لیے یہ نہیں۔
تحقیق یہ ہے کہ تصویروں پر وعید کے اصل میں دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یہ صرف نیت کے ساتھ لاگو ہوتی ہے ، یعنی اللہ کے مخلوق کی مشابہت کا قصد ہو۔
دوسری قسم: وہ جس میں علتِ حصر (یعنی خاص نیت) کا پایا جانا شرط نہیں ہے ؛ جیسا کہ حبشہ کی کلیسا کی حدیث سے سمجھا جاتا ہے، اور متقدم اور متأخر محققین نے اس حدیث اور اس جیسی دوسری روایات کی شرح میں واضح کیا ہے، اور اس کا مقصد انبیاء، صالحین اور دیگر بزرگوں کی تصاویر کی عبادت کے ذرائع کو بند کرنا ہے۔ لیکن "سدِّ ذرائع(ذرائع کو بند کرنا)" زمانے کے بدلنے اور تصویروں کی اقسام کے بدلنے سے بدل جاتا ہے؛ چنانچہ جاہلیت میں جو مجسمے اور تصاویر عبادت کے طور پر تعظیم پاتے تھے وہ ذی روح چیزوں کی تصویریں ہوتی تھیں، اسی لیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اُس مصور کو جس نے ان سے مسئلہ پوچھا تھا، درختوں اور بے جان چیزوں کی تصویر بنانے کی اجازت دی تھی۔ اور جب ذی روح کی تصویریں صرف زینت کے لیے بننے لگیں اور عبادت کا گمان ختم ہوگیا، تو بعض ائمہ سلف نے اپنے گھروں میں کچھ تصاویر رکھیں، اور صحابۂ کرام نے بھی کسریٰ کے ایوان میں موجود تصویروں کو برقرار رکھا۔
اور مجسمے بنانے اور ان کو رکھنے کی عام ممانعت میں تخصیص کرنے والے دلائل میں سے ایک حدیث وہ بھی ہے جسے امام بخاری نے روایت کیا ہے: حضرت ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، اور میری کچھ سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لاتے تو وہ سہیلیاں آپ کے احترام میں چھپ جاتیں، تو آپ ﷺ انہیں واپس میرے پاس بھیج دیتے تاکہ وہ میرے ساتھ کھیلتی رہیں۔
امام بدر عینی نے ’’عمدة القاري شرح صحيح البخاري‘‘ میں فرمایا کہ اس حدیث سے لڑکیوں کے کھیلنے کے لیے کھلونا گڑیوں کی صورتیں بنانے کے جواز پر دلیل لی گئی ہے، اور اس کو عام ممانعتِ تصاویر سے خاص کر کے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ قاضی عیاض نے بھی اسی پر قطعاختیار کیاہے اور اسے جمہور علما سے نقل کیا ہے کہ وہ لڑکیوں کے لیے گڑیاں بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں، تاکہ وہ چھوٹی عمر سے ہی گھر اور بچوں کے معاملات کی تربیت حاصل کریں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیکھنے اور تربیت کے مقصد سے ایسے مجسموں کا استعمال شرعاً جائز ہے۔
اسی بنا پر فقہاء نے تماثیل کی حرمت سے اُن صورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جن میں کوئی مصلحت ہو، جیسے بچوں کے کھلونے اور تعلیم میں وضاحت کے لیے استعمال ہونے والے ماڈلز؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گڑیوں کی موجودگی کو برقرار رکھا تھا۔
عجائب گھر قائم کرنے اور ان میں تماثیل رکھنے کا حکم
آج کل عجائب گھر قائم کرنا اور انہیں تعمیر کرنا تہذیب کی ایک علامت بن چکا ہے اور مختلف روایات اور ممالک میں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ بلکہ آثارِ قدیمہ کے عجائب گھر ایک تہذیبی اہمیت اور معاشرتی ضرورت بن گئے ہیں جن میں مخصوص ماہرین کام کرتے ہیں، اور مہذب ملکوں نے اس مقصد کے لیے خاص کالج اور ادارے بھی قائم کیے ہیں تاکہ لوگوں کے درمیان بہتر تعارف ہو، اور آنے والی نسلوں کو اس خطے کے علوم، معلومات، عادات اور روایات سکھائی جائیں، جس سے انسانیت میں باہمی تعاون، ترقی، تعمیر اور خوش حالی کو فروغ ملتا ہے۔ یہ تمام مقاصد اُن غلط اور شرعاً ممنوع امور سے بالکل دور ہیں جن میں کسی غیر اللہ کی عبادت یا اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی نقالی اور مشابہت شامل ہو۔ مزید یہ کہ آج کے دور میں عجائب گھر بنانے کے مقاصد کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی عجائب گھروں میں رکھی جانے والی تماثیل کی وہ علتیں اب باقی نہیں رہیں جن کی وجہ سے اُس زمانے میں تماثیل بنانے سے منع کیا گیا تھا، اور اصول یہ ہے کہ ’’حکم اپنی علت کے وجود اور عدم کے ساتھ بدلتا رہتا ہے‘‘ جیسا کہ شرح الزرکشی علی مختصر الخرقي میں مذکور ہے۔
علامہ شیخ محمد الطاہر بن عاشور نے "التحرير والتنوير" (22/162) میں فرمایا: [سابقہ شرائع میں مجسمے اور تماثیل کا استعمال حرام نہیں تھا، اور اسلام نے اسے حرام کیا کیونکہ اسلام نے شدید انداز میں شرک کے ذرائع کو ختم کیا، کیونکہ عربوں اور دیگر قوموں میں شرک بہت مضبوط تھا۔ زیادہ تر بت تماثیل کی شکل میں تھے، اس لیے اسلام نے ان کے بنانے اور رکھنے کو حرام کیا۔ اور ان کی حرمت اس لیے نہیں تھی کہ وہ بذاتِ خود مفسدہ ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ تھے۔'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب شرک کا سبب ختم ہو جائے تو تحریم کی علت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
خلاصہ
اسی بنیاد پر اور سوال کے واقعے کے تناظر میں: کوئی مانع نہیں کہ ایسے عجائب گھر بناۓ جائیں جو تہذیب اور تاریخ کی عکاسی کرتے ہوں، اور تعلیم اور ثقافت کے ذرائع کے طور پر کام آتے ہوں۔ مجسمے بنانے یا قائم کرنے کی جو شرعی ممانعت ہے، وہ صرف اسی صورت کے ساتھ مخصوص ہے جب ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت کرنا ہو یا اُنہیں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کے لیے بنایا جائے،جو ان عجائب گھر کے قیام کے مقاصد سے بالکل مختلف ہے۔ نیز، ان عجائب گھر میں تماثیل اور مجسم تصویری خاکے دکھانا تاریخی نمائش کے لیے جائز ہے، اور وہاں جانا، دیکھنا، عبرت حاصل کرنا، سبق سیکھنا اور سابقین کے آثار، علوم اور تہذیب سے استفادہ کرنا بھی جائز ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
